سہیل عباس این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں ہمارا کلاس فیلو تھا۔ بڑا وجیہہ اور ہینڈسم جوان تھا۔ پہلی نظر میں ہی ایتھلیٹ لگتا تھا۔ وہ ایک بائکر بھی تھا۔ اس کے پاس ایک بھاری بھرکم ہونڈا 175 موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی جسے وہ ایک شان سے چلاتا ہوا جب یونیورسٹی میں داخل ہوتا تو لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے۔ اس سے میری بھی دوستانہ سلام دعا تھی۔
وہ ہمارا یونیورسٹی میں دوسرا سال تھا۔ ایک دن ہماری کلاس کا کوئی پرچہ ہو رہا تھا۔ میں جس کمرے میں پیپر دے رہا تھا اسی کمرے میں مجھ سے چند کرسیاں پیچھے سہیل عباس بھی پرچہ دے رہا تھا۔ اچانک کلاس میں کچھ ہلچل سی مچی۔ سب مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے بھی پیچھے دیکھا تو چونک گیا۔ سہیل عباس بیہوش ہو کر کرسی سے نیچے گر رہا تھا اور لڑکے اسے سنبھال رہے تھے۔
ایگزامنیشن ہال میں کھلبلی مچ گئی۔ پتہ چلا کہ وہ شدید بخار کی وجہ سے بیہوش ہوا ہے۔ خیر اسے ایک ایمبولینس میں ہسپتال بھیج دیا گیا۔ اگلے کئی دن وہ ہسپتال میں ہی رہا اور اس کے سارے پیپر مس ہو گئے۔ لیکن پیپر ختم ہونے کے بعد بھی وہ یونیورسٹی نہیں آیا۔ بس یہی اطلاعات ملتی رہیں کہ وہ شدید بیمار ہے۔ پھر یہ خبر پھیل گئی کہ وہ بلڈ کینسر کا شکار ہے۔ یہ سن کر ہم سب کلاس فیلوز تو پریشان ہو گئے۔ ایک دن ہم کچھ دوست اس سے ملنے کیلئے کراچی کے پی این ایس شفاء ہسپتال گئے۔ وہ آئی سی یو میں تھا۔ ہم نے اسے دور شیشے کے پار سے دیکھا۔ وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ غالباً کیمو تھیراپی کی وجہ سے اس کے سارے بال جھڑ چکے تھے اور وہ انتہائی لاغر لگ رہا تھا۔ ہمیں آئی سی یو کے اندر جانے کی اجازت تو نہ ملی، بس اس نے دور ہی سے ہمیں دیکھ کر ایک درد انگیز مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ ہلایا۔ بس یہ ہم نے اسے آخری دفعہ دیکھا۔ پھر ہم واپس آگئے۔
کچھ دن بعد سہیل عباس کا انتقال ہوگیا۔ پوری یونیورسٹی کی فضا سوگوار ہوگئی۔ خصوصاً ہم سارے کلاس فیلوز تو بہت افسردہ ہوئے کہ اتنا کھیلتا کودتا صحت مند نوجوان یکایک ہمارے درمیان سے اٹھ کر دنیا ہی سے چلا گیا۔ خیر قدرت کے سامنے کیا کیا جا سکتا تھا۔
ہماری پڑھائی چلتی رہی۔ اگلے دو سال میں ہم نے اپنی انجینئرنگ مکمل کی، ڈگری لی، سارے کلاس فیلوز مختلف فیلڈز میں چلے گئے۔ میری دلچسپی انجینئرنگ سے زیادہ میڈیا میں تھی۔ فلم، فوٹوگرافی ، تصنیف و تالیف، کالم نگاری، سفرنامے … میں انجینئرنگ سے زیاہ انہی کاموں میں مگن ہو گیا۔ چنانچہ ایک اسٹوڈیو بنا لیا اور پروفیشنل فوٹوگرافی، وڈیو ریکارڈنگ اور ڈاکومنٹری فلمیں بنانے کا کام شروع کیا۔
یہ 90ء کی دہائی کا ابتدائی دور تھا۔ ان دنوں کمپیوٹر ٹیکنالوجی نئی نئی مقبول ہوئی تھی اور ہر طرف دھڑا دھڑ کمپیوٹر کورسز کے ادارے کھل رہے تھے۔ میرے ایک دوست نے بھی اپنا کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کھولا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں ان کے لیکچرز کی وڈیو ریکارڈ کر دوں تو وہ یہ وڈیو کیسٹ بھی فروخت کر سکتے ہیں تاکہ لوگ کلاس لیکچرز کے علاوہ وڈیوز کے ذریعے بھی کمپیوٹر ٹریننگ لے سکیں۔ میں نے یہی کہا کہ یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے اور اس پر کام ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ریکارڈنگ کا کام مجھے دے دیا گیا۔مقررہ تاریخ پہ رات کے وقت ہم انسٹیٹیوٹ پہنچ گئے کیونکہ ساری ریکارڈنگ رات میں سکون سے کرنا طے ہوا تھا۔ کئی ٹیچرز موجود تھے۔ مرد بھی اور خواتین بھی۔ گیارہ بارہ بجے ریکارڈنگ شروع ہو گئی۔
رات دو بجے ہم نے چائے کا وقفہ کیا۔ اس وقت میں ایک فی میل ٹیچر کی ریکارڈنگ سے فارغ ہوا تھا۔ وہ ایک چوبیس پچیس سال کی لڑکی تھی۔ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے سے ہلکا پھلکا تعارف ہوا۔ میں نے جب بتایا کہ میں اصل میں تو میکینکل انجینئر ہوں لیکن یہ وڈیو ورک میرا شوق ہے، تو وہ بولی کہ میرا بھائی بھی میکینکل انجینئرہے اور وہ کوئٹہ میں ملازمت کرتا ہے۔
”اس نے انجینئرنگ کہاں سے کی ہے؟“میں نے پوچھا۔
”این ای ڈی یونیورسٹی سے“ وہ بولی۔
”این ای ڈی یونیورسٹی سے؟…“ میں چونکا۔ ”کون سا بَیچ تھا ان کا؟“
“1984-85” وہ بولی۔
”اور ڈگری کب ملی تھی؟“ میں نے پوچھا۔
”1991ء میں“ وہ بولی۔
”ارے!… پھر تو وہ ہمارا کلاس فیلو ہوا … کیا نام ہے آپ کے بھائی کا؟“
میں نے ہنس کر بولا تو وہ کچھ سٹپٹا سی گئی۔
پھر بولی : ”سہیل عباس“
”سہیل عباس؟…“ میں چونکا۔ ”لیکن ہماری کلاس میں تو ایک ہی سہیل عباس تھا۔“ میں حیران ہو کر بولا۔ ”اور اس سہیل عباس کا تو دوسرے سال میں ہی انتقال ہوگیا تھا … آپ کے بھائی نے این ای ڈی سے نہیں کہیں اور سے پڑھا ہوگا۔“
میری یہ بات سن کر وہ کچھ سراسیمہ سی ہوئی اور پھر اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں بھی اسے روتا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
”کیا ہوا میڈم خیریت تو ہے؟“ میں بولا۔
”جی وہی سہیل عباس میرا بھائی تھا“ وہ روتے روتے بولی۔
”لیکن آپ تو کہہ رہی ہیں کہ وہ کوئٹہ میں ملازمت کر تا ہے؟“
”وہ تو ہم اپنے دل کو تسلی دینے کیلئے کہتے ہیں“ وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی۔ ”سہیل بھائی کا ایک بہت قریبی دوست بختیار، جسے ہم اپنا بھائی سمجھتے ہیں، وہ کوئٹہ میں جاب کرتا ہے۔ جب ہمارا بھائی اللہ کے پاس چلا گیا ہے تو ہم نے اپنے اوپر یہ طاری کرلیا ہے کہ بختیار ہی سہیل ہے … اور ہم نے خود کو یہ یقین دلایا کہ سہیل اب بھی زندہ ہے اور کوئٹہ میں جاب کر رہا ہے۔ چونکہ کوئٹہ میں سہیل کا دوست بختیار جاب کر رہا ہے جو ہمارے بھائی کی طرح ہے اس لئے ہم اپنے آپ کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ ہمارا بھائی ابھی زندہ ہے اور کوئٹہ میں ہے۔“ اس نے آنسو بہاتے بہاتے یہ ساری کہانی سنائی۔
میں حیران و پریشان اس کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ بیچارے لوگ رنج و الم سے بچنے کیلئے کس کس طرح اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں۔ غم و اندوہ میں انسان کو اللہ ہی سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ اللہ ہی صبر دینے والا ہے اور سارے انسانوں کو بالآخر اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ پھر جن لوگوں کے پیارے بچھڑ جاتے ہیں ہمیں ان سے بہت محبت اور اپنائیت سے پیش آنا چاہئے جیسے بختیار نے سہیل کے گھر والوں کو ایسی محبت اور اپنائیت دی کہ وہ اسے ہی سہیل سمجھنے لگے۔ اور وہ کئی سال گزرنے کے باوجود اب تک اس اطمینان میں تھے کہ سہیل عباس زندہ ہے اور وہ کوئٹہ میں جاب کرتا ہے۔
تبصرہ لکھیے