سورۂ انفال، غزوۂ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی، جو اسلامی تاریخ کی پہلی اور فیصلہ کن جنگ تھی۔ اس سورت میں بظاہر جنگی حکمتِ عملی اور میدانِ بدر کے حالات بیان کیے گئے ہیں، لیکن درحقیقت یہ امتِ مسلمہ کے لیے نصرتِ الٰہی اور کامیابی کے ابدی اصول فراہم کرتی ہے جو ہر زمانے میں یکساں مؤثر ہیں۔ یہ سورت واضح کرتی ہے کہ فتح و کامیابی صرف مادی وسائل پر منحصر نہیں بلکہ اس کے کچھ روحانی اور عملی ضابطے ہیں، جن کی پاسداری کامیابی کی ضمانت ہے۔
یہ ضابطے دو بنیادی نکات پر مشتمل ہیں:
1. روحانی عوامل – جو اللہ کی نصرت کو دعوت دیتے ہیں۔
2. مادی و عملی تیاری – جو کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے۔
قرآنی اسلوب اور سوال کا جواب دینے کا حکیمانہ انداز
سورت کا آغاز صحابہ کرام کے ایک سوال سے ہوتا ہے: "يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ..." (یہ لوگ آپ سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں)۔ لیکن قرآن فوری طور پر اس سوال کا جواب دینے کی بجائے اصل اور زیادہ اہم امور پر روشنی ڈالتا ہے اور آیت 41 تک اس جواب کو مؤخر کر دیتا ہے۔ یہ ایک مخصوص بلاغتی اسلوب (اسلوبِ حکیم) ہے، جس میں سامع یا قاری کی توجہ کو زیادہ ضروری اور بنیادی اصولوں کی طرف مبذول کرایا جاتا ہے۔ بعض لوگ جو قرآنی فصاحت و بلاغت کے رموز سے ناآشنا ہیں، اس انداز کو غیر مربوط سمجھ سکتے ہیں، حالانکہ یہ درحقیقت قرآن کا اعجاز ہے، جو ایک اعلیٰ پیغام کو ایک منفرد طریقے سے پیش کرتا ہے۔
قرآن چونکہ ایک آفاقی ہدایت ہے، اس لیے یہ صرف وقتی مسائل کا حل پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے اصول وضع کرتا ہے جو ہر دور میں قابلِ اطلاق ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بجائے براہِ راست جواب دینے کے، پہلے ان روحانی اور مادی اسباب کو بیان کیا گیا جو فتح کی اصل بنیاد تھے۔
1. نصرتِ الٰہی کے روحانی اسباب
اللہ کی مدد ان ایمان والوں کے لیے آتی ہے:
جو اللہ کا ذکر سنتے ہی خشیتِ الٰہی سے لرز جاتے ہیں۔
جن کے دل قرآن کی آیات سن کر ایمان میں مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔
جو اپنے تمام معاملات میں اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں۔
جو نماز قائم کرتے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.
یہی وہ حقیقی مؤمنین ہیں، جن کے لیے اللہ کی مدد لازم ہے۔
نصرتِ الٰہی کے مراحل:
غزوۂ بدر میں مسلمان 313 تھے جبکہ کفار ہزار سے زائد تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے متعدد طریقوں سے مدد نازل فرمائی:
1. اونگھ کی کیفیت: تاکہ مسلمان تازہ دم ہو جائیں اور ان کے دلوں سے خوف ختم ہو جائے۔
2. بارش کا نزول: جس سے زمین مسلمانوں کے لیے سازگار ہو گئی اور ان کے پاؤں جم گئے۔
3. فرشتوں کی مدد: ایک ہزار فرشتے نازل کیے تاکہ ایمان والوں کے حوصلے بلند ہوں.
4. نفسیاتی تدبیر: کفار کو مسلمانوں کی تعداد کم نظر آئی تاکہ وہ بے خوف ہو کر لڑیں، جبکہ مسلمانوں کو کفار کی تعداد کم محسوس ہوئی تاکہ ان کے دل مضبوط رہیں۔
یہ تمام عوامل اس حقیقت کا اعلان تھے کہ اللہ کی مدد ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایمان، صبر اور جدوجہد کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔
2. نصرتِ الٰہی کے مادی و عملی اسباب:
اللہ کی نصرت حاصل کرنے کے لیے صرف روحانی قوت کافی نہیں بلکہ عملی اور مادی تیاری بھی لازمی ہے۔
قرآن واضح حکم دیتا ہے: "وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ..."(جہاد کے لیے ہر ممکن تیاری کرو۔۔۔)
یہ تیاری درجِ ذیل امور پر مشتمل ہے:
جنگی ساز و سامان اور دفاعی حکمتِ عملی۔
دشمن کی چالوں اور سازشوں سے باخبر رہنا۔
اپنی قوت کو صحیح وقت اور صحیح طریقے سے استعمال کرنا۔
قیادت کی اطاعت، نظم و ضبط، اور اجتماعی اتحاد برقرار رکھنا۔
اگر کوئی قوم اندرونی انتشار کا شکار ہو، قیادت کے احکامات کی خلاف ورزی کرے، یا اپنے وسائل کو ضائع کرے، تو وہ محض ایمانی قوت کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
مالِ غنیمت کی تقسیم کا اصول:
جب سورت کے وسط میں صحابہ کرام کے سوال کا جواب دیا گیا تو واضح کر دیا گیا کہ مالِ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اس اصول کے ذریعے دو بنیادی پیغامات دیے گئے:
1. کامیابی کے بعد مال و دولت کا امتحان زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
2. اگر مسلمان مال و دولت کی ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو ان کی قربانیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مغرور ہونے اور فتح پر تکبر کرنے سے منع کرتا ہے اور سابقہ قوموں کی مثال دے کر بتاتا ہے کہ جو لوگ اپنی کامیابی پر فخر میں مبتلا ہو گئے، وہ اللہ کی پکڑ میں آ گئے۔
آج کے مسلمانوں کے لیے نصرتِ الٰہی کا راستہ:
سورۂ انفال کا اختتام حقیقی مؤمنین کے ذکر پر ہوتا ہے، جہاں انہی صفات کو دہرایا گیا جو سورت کے آغاز میں بیان ہوئی تھیں: "أُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّا..."(یہی سچے مؤمن ہیں۔۔۔)
فرق صرف یہ ہے کہ ابتدا میں روحانی اسباب کا ذکر تھا: ایمان، نماز، زکوٰۃ، اور اللہ پر توکل۔جبکہ اختتام پر مادی اسباب کا ذکر آیا: جہاد، ہجرت، اور عملی جدوجہد۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کامیابی کے لیے صرف روحانی اعمال کافی نہیں بلکہ عملی جدوجہد بھی لازمی ہے۔ آج کے مسلمان بھی اگر دوبارہ نصرتِ الٰہی کے مستحق بننا چاہتے ہیں تو انہیں بھی وہی روحانی اور مادی اصول اپنانے ہوں گے جو سورۂ انفال میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ سورت ہمیں سکھاتی ہے کہ محض دعاؤں سے کامیابی نہیں ملتی اور نہ ہی صرف اسلحے اور وسائل کی کثرت فتح کی ضمانت ہے۔ اصل کامیابی اس ایمان اور عمل کے حسین امتزاج میں ہے، جو ہمیں غزوۂ بدر کے واقعات اور سورۂ انفال کی تعلیمات میں نظر آتا ہے۔
آج بھی ہو گر براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
تبصرہ لکھیے