یوں تو وطن عزیز کا ہر شہر آج دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر کراچی وہ واحد بدنصیب شہر ہے جو اپنی تمام تر رونق و خوبصورتی کے باوجود خراب سے خراب تر حالات کا شکار رہا ہے. گو ایک عرصے سے میں انگلینڈ میں مقیم ہوں مگر میں نے آنکھ اسی خوبصورت شہر میں کھولی ہے اور اسی میں اپنا بچپن و جوانی گزارے ہیں. مجھے اس شہر کی ہر ہر ادا سے محبت ہے اور میرے سینے میں کراچی دل بن کر دھڑکتا ہے. میں اس شہر کے ساتھ ہنستا اور ساتھ روتا آیا ہوں. لہٰذا میرے اس دعویٰ میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ میں کراچی کے مسائل و مشکلات کا قریبی ادراک رکھتا ہوں. ویسے تو ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کراچی سمیت کسی بھی جگہ کے متعلق اپنا تجزیہ دے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس شہر کے حالات کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ انسان ایک لمبا عرصہ ان حالات و واقعات کے بیچ رہے جن سے شہر قائد لہو لہو ہے. اس شہر کی غیرمعمولی حیثیت کا اندازہ اس امر سے کیجیئے کہ ایک اعدادوشمار کے مطابق یہ شہر تنہا پورے ملک کا ستر فیصد ریوینیو یعنی آمدنی کما کر دیتا ہے. جب کے دوسرے اعدادوشمار کے مطابق یہ پینتالیس سےپچپن فیصد آمدن مہیا کرتا ہے. مگر بدلے میں بجٹ کے نام پر جو چلڑ اسے دیا جاتا ہے وہ ملک کے اس فائننشیل کیپیٹل سے صریح زیادتی کے مترادف ہے. یہ ثابت کرنے کی کوئی خاص حاجت نہیں ہے کہ صرف اس ایک شہر کے حالات کا قابو آجانا اور ترقی کرنا پورے ملک کی معیشت کو سنبھال سکتا ہے. ایسا نہیں ہے کہ شہر میں امن و امان کیلئے کبھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ اقدامات کبھی بھی کوئی دور رس نتائج نہ حاصل کرسکے بلکہ ان اقدامات کی آڑ میں ایسی ایسی زیادتیاں اور حماقتیں کی گئیں جنہوں نے تعمیر کی بجائے مزید تخریب کو جنم دیا. اس وقت بھی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے شہر میں شدید فوجی آپریشن جاری ہے. جس کا ہونا خوش آئند ہے مگر کیا اس سے امن کی بحالی کے پائیدار نتائج حاصل ہوسکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر صاحب ادراک کی نظر میں نفی میں ہے. اس آپریشن کا آنکھوں دیکھا حال میں نومبر ٢٠١٥ میں تحریر کرچکا ہوں جو نیچے پہلے کمنٹ میں ویب لنک کی صورت میں موجود ہے. اس شہر کے حالات قیام پاکستان سے لے کر اب تک اتنے بگڑ چکے ہیں اور مسائل اتنے گنجلک ہوگئے ہیں کہ سلجھانے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا. بقول شاعر:
.
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے
.
راقم کی احقر رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کئے بناء کراچی میں پائیدار امن کا خواب ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں. میں جانتا ہوں کہ ان تجاویز میں بہت سو کی دل آزاری کا سامان بھی ہوسکتا ہے مگر میں دیانتداری سے اپنا احساس درج کررہا ہوں جسے آپ اپنی سمجھ سے رد یا قبول کرسکتے ہیں. امید ہے کہ آپ اسے اپنے بھائی کی رائے ہی سمجھیں گے اور اسے پڑھ کر راقم کی جانب بغض و بدگمانی کا شکار نہ ہونگے.
.
١. کالج، یونیورسٹیوں سمیت ہر تعلیمی ادارے سے تمام سیاسی سرگرمیوں کا بلاتفریق خاتمہ کردیا جائے. وہ دن ہوا ہوئے جب یہ کہا جاتا تھا کہ طلباء کو سیاسی دھارے میں شامل کرکے پڑھی لکھی قیادت سامنے لائی جائے گی. آج کی حقیقت یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں اب سیاسی غنڈے پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیں. یہی وہ جگہ ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتیں جذباتی نوجوانوں کے اذہان کو اپنے اپنے نظریات کا اسیر کرتی ہیں. اسلحے کا آزادانہ استعمال ہو یا مخالف گروہوں کے افراد پر بدترین تشدد ، تعلیمی اداروں میں جبری داخلے ہوں یا اساتذہ کو زدوکوب کرنا. یہ سب سیاسی جماعتوں کی ایماء پر اکثر تعلیمی اداروں میں جاری ہے. میں نے چونکہ اسی شہر کے اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے انجینئرنگ تک تعلیم لی ہے، اسلئے پوری شدومد سے اس کا گواہ ہوں. میں جانتا ہوں کہ یہی کام کمتر درجے میں دیگر شہروں میں بھی ہورہا ہے مگر کراچی کے تعلیمی اداروں کا جو اس ضمن میں حال ہے وہ تباہ کن ہے.
.
٢. غیر سیاسی پولیس کا ایک نیا اور بااختیار ادارہ قائم کیا جائے جس کی تنخواہ و مراعات کم از کم اسلام آباد کی پولیس جتنی ہوں اور جہاں پڑھے لکھے کراچی ہی کے اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے. یہ جہاں رشوت و سفارش کے کلچر کو روک لگائے گا اور عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کرے گا وہاں بے روزگار پڑھے لکھے نوجوانوں کی محرومی بھی دور کرسکے گا.
.
٣. آئی ایس آئی اور دیگر قانونی اداروں کی مدد سے شہر میں مزید اسلحے کو داخل ہونے سے روکا جائے. مجھے یقین ہے کہ اگر ادارے چاہیں تو اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک اسلحے کی تازہ سپلائی کو روک سکتے ہیں.
.
٤. اعلان کیا جائے کہ ایک ماہ کے اندر تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں اپنا اسلحہ جمع کروا دیں ورنہ شدید سزا کا نفاز کیا جائے گا. اس کے نتیجے میں ماضی کی طرح بہت تھوڑا سا اسلحہ جمع کروایا جائے گا اور باقی اسلحہ یہ جماعتیں اپنے پاس ہی کہیں دفنا کر رکھیں گی. مگر اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسلحہ رکھنے پر ایک اضافی خوف پیدا ہوگا جو کمتر حد میں معاون ہوگا. اس مدت کے بعد اسلحہ رکھنے والو کو پکڑا جائے اور کم از کم آٹھ دس کیسز کو عبرت کی مثال بنادیا جائے.
.
٥. دیگر قومیتوں سے وابستہ دہشت گرد گروہوں کے قابض علاقوں پر سب سے پہلے زبردست آپریشن کیا جائے. جیسے 'کٹی پہاڑی' اور 'الآصف اسکوائر' پٹھان غنڈوں کی آماجگاہیں ہیں. یا 'لیاری' کے وہ بدنام علاقے جو پیپلز پارٹی کے پالے ہوئے بدمعاشوں کی جائے پناہ ہیں. ایسے علاقوں پر آپریشن اسلئے ضروری ہے کہ صرف اسی طرح یہ پیغام پہنچ سکتا ہے کہ یہ آپریشن صرف ایم کیو ایم کیلئے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بلاتفریق غنڈوں کا صفایا ہے. ایم کیو ایم کو تو ہر کوئی گالی دے لیتا ہے مگر دیگر شہروں میں بسنے والے یہ تصور بھی نہیں کرپاتے کہ دیگر تنظیموں کے غنڈے اور ملٹری ونگ کس درجے کی خباثت پھیلا رہے ہیں. آپ مجھ پر یقین نہ کریں مگر کراچی میں رہنے والے اپنے عزیزوں سے پوچھیں کہ جب ان سے یا ان کے پیاروں سے موبائل، گاڑی، پیسہ وغیرہ چھینا گیا تو چھیننے والا کس قومیت کا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ نوے فیصد لوگ آپ کو بتائیں گے کہ وہ پٹھان یا اندرون سندھ کا فرد تھا. میرا یہ یقین اسلئے ہے کہ میں بیشمار افراد سے جو ایم کیو ایم سے منسلک نہیں ہیں، یہی سوال پوچھ چکا ہوں. یہاں ہرگز یہ غلط فہمی نہ پالیں کہ میں ایم کیو ایم کا حامی ہوں. ہرگز نہیں. مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں ان کا شدید ناقد ہوں اور ان کے خلاف بھی اسی قوت سے آپریشن کے حق میں ہوں. بتانا صرف اتنا مقصود ہے کہ اس حمام میں ایک نہیں بلکہ سب ننگے ہیں.
.
٦. عوام کی منتخب کردہ جماعتوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہوئے ترقیاتی کاموں میں فری ہینڈ دیا جائے. البتہ کسی بھی جماعت کو نفاز قانون کے عمل میں شریک نہ کیا جائے.
.
٧. مذہبی جماعتوں اور ایسے مدارس و مساجد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے جو منبر کو نفرت و دہشت گردی کے ترویج کیلئے استعمال کر رہے ہیں. بہتر ہوگا کہ ان کے خلاف چارج شیٹ بمع ٹھوس ثبوتوں کے میڈیا پر دیکھا دی جائے تاکہ ان کا ردعمل عوام کی تائید نہ پاسکے. یہ ثبوت حاصل کرنا نہایت آسان ہیں کہ ان کے زہر آلود بیانات ریکارڈ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے مسلح ٹھکانوں سے عام لوگ تک آگاہ ہیں.
.
یہ وہ چند تجاویز ہیں جو احقر کی سمجھ میں ناگزیر ہیں. ان کے علاوہ بھی بہت سی اہم اصلاحات کی گنجائش ہے مگر طوالت کی وجہ سے اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں
تبصرہ لکھیے