عدل وانصاف کا قیام اور عوام سے پرخلوص خیرخواہانہ محبت حکمرانوں کو عوام میں مقبول عام بناتی ہیں۔ خلافت اسلامیہ کی انھی خصوصیات نے اسے 12سو سال تک مقبول عام بنائے رکھا، اور یہ مدینہ کی ایک گلی کی ریاست سے نکل کر تین براعظموں تک پھیل گئی۔ اسے بہت سے مقامات پر سخت مقابلہ بھی کرنا پڑا، مگر ان مقابلوں کے بعد مقابلے کرنے والے بھی ان کی حکومت کو بخوشی قبول کرلیتے تھے۔ مزاحمتیں اور لڑائیاں عموما بادشاہتوں اور چوہدراہٹوں کے خاتمے کا ردعمل ہوا کرتی تھیں، مگر جب انہی کے لوگ فاتح فوج کا فتح کے بعد رویہ دیکھتے تو حیران و ششدر ہو جاتے کہ یہ تو فتح کرنے کے بعد ہم سے بڑے ہی خلوص اور محبت کا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، ہمارے باشاہوں اور چوہدریوں نے تو ان کے بارے میں ہمیں گمراہ کیے رکھا کہ یہ بہت ظالم اور لادین لوگ ہیں۔ وہ ان میں شامل ہوتے اور یوں اسلامی لشکر مقامی باشندوں کی مدد سے ایک انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے بعد آگے بڑھ جاتا. اس دوران بہت سے عبد اللہ بن سبا بھی سازشیں کرتے رہے مگر انھیں بعض وقتی کامیابیوں کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس 12 سو سالہ تاریخ میں مسلم حکمرانوں میں باہم لرائیاں بھی ہوئیں، کبھی اموی آئے تو کبھی عباسی، کبھی فاطمیوں نے اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور کبھی عثمانیوں نے اس زمام کو تھاما، مگر سب نے آپس کی رنجشوں کے باوجود اپنی عوامی مقبولیت کےلیے عدل و انصاف کے قیام اور عوام سے خیرخواہانہ محبت کا سہارا ہی لیا۔ یہ سلسلہ جس کے ہاتھ بھی آتا وہ اسے آگے ہی بڑھاتا اور دنیا میں اسلامی فوج کو آگے ہی لے کر جاتا تھا، اس پیش قدمی کوروکنے کے لیے کئی سو سالوں تک محنت کی گئی۔ بہت مرتبہ غداروں کی خدمات بھی لی گئیں مگر ہر بار انہیں منہ کی کھانا پڑی۔
یہ سلسلہ چلتا چلاتا، ٹھٹھکتا اور آگے بڑھتا ہوا 1517ء تک عثمانی خلیفہ سلیم یاووز (پہلا عثمانی خلیفہ) تک پہنچا، اس دور میں بہت سے محاذوں پر کئی مسلمان جرنیل برسرپیکار تھے، جوخلافت سے طویل مسافتوں اور اپنی صلاحیتوں کے ساتھ سرحدوں کو آگے بڑھانے کی وجہ سے خود کفیل بھی ہو چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح مرکز خلافت سے جوڑے رکھنے میں خیر سمجھتے تھے۔ 1517ء میں سلیم یاووز سے چلنے والا یہ سلسلہ 1924ء تک عبد المجید ثانی تک چلا۔ اس دوران دنیا میں جہاں بھی کوئی مسلمان تھا، وہ اپنے آپ کو مرکز خلافت کے ساتھ منسلک سمجھتا تھا، یوں مسلمان بہت سے ملکوں اور فرقوں میں بٹے ہونے کے باوجود سیاسی طور پر ایک ہی نظر آتے تھے۔ بالاخر مسلمانوں کی وحدت کی نشانی خلافت کے بیانیہ کو ہی بدلنے کی طرحیں رکھی جانے لگیں، اور پہلی جنگ عظیم کے بعد کارگر ثابت ہوئیں۔ لڑائی کا آغاز تو آسٹریا اور ہنگری کے ولی عہدشہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ منڈ کے قتل کے بعد سربیا پر حملے سے ہوا اور اس میں جرمنی اور برطانیہ کی شمولیت نے اسے عالمی جنگ بنا دیا، مگر جنگ کے اختتام پر دونوں طرف سے معاہدہ ورسائی کے ذریعے اس اتفاق پر ہوا کہ خلافت عثمانیہ کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ فریقین جنگ نے استنبول پر قبضہ کرکے 30 اکتوبر 1918ء کے معاہدہ مد روس اور اس کے بعد معاہدہ سیورے اور پھر فرانس اور برطانیہ کے بدنام زمانہ خفیہ معاہدے سائیکوس پیکوٹ کے ذریعے ترکی کے حصے بخرے کرکے اسے انجام تک پہنچایا. اس سارے عمل کے اختتام سے یوں لگا کہ جیسے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کےلیے یہ جنگ لڑی گئی تھی. بہرحال فریقین جنگ کی اس بندر بانٹ کے خلاف مصطفی کمال پاشا نے بغاوت کی مگر اس کے ذریعے خلافت عثمانیہ اور وحدت امت کی نشانی میں آخری کیل بھی ٹھونک دی گئی۔ یہ بات بہرحال ابھی تک ملفوف ہے کہ مصطفی کمال پاشا نے خود بغاوت کی یا اسے بھی فریقین جنگ کی طرف سے باہمی معاہدوں کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی شہہ دے کر کھڑا کیا گیا۔
مصطفی کمال پاشا المعروف کمال اتاترک جو خالص سیکولر نیشنلسٹ نظریات کا پرچارک تھا، اس نے ترکی سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ، سیکولر ازم کا فروغ، فوج میں صرف سیکولر نظریات کے حامیوں کی بھرتی، خلیفہ کی طرف سے مختلف طرح کے لوگوں پہچان کےلیے مختص لباس کا خاتمہ، حجاب پر پابندی، عورتوں کوجبراً مغربی لباس زیب تن کروانے کا قانون، مذہبی قوانین کا خاتمہ، عربی رسم الخط کا خاتمہ، اذان اور نماز کے کلمات کی عربی ادائیگی پر پابندی اور ان کا ترک زبان میں آغاز، مغربی تہذیب و لباس کا فروغ، مغربی طرز کے رقص و سرود اور شراب خانوں کی سرکاری سرپرستی، مذہبی مقام و مرتبہ کے حامل لوگوں پر پابندی اور نئی ایلیٹ کلاس کا قیام، مدارس دینیہ اور خانقاہوں پر پابندی اور آمرانہ نظام حکومت جیسے اقدامات کیے۔ اور سیکولر آئین بنا کر اس کی حفاظت اور تنفیذ کی طاقت آئینی طور پر فوج کے سپرد کر دی گئی۔ فوج نے سیکولر آئین، نظریات اور قوانین کو بالجبر ترک عوام پر مسلط کرنا شروع کیا، جسے نہ چاہتے ہوئے بددلی کے ساتھ ترک عوام نے قبول کیا اور اپنے شاندار ماضی کی یاد میں کسی اسلام پسند کا انتظار کرنے لگے.
ترکی میں اسلام پسند مصطفی کمال اتاترک کی 1938ء میں وفات کے بعد سامنے آنے لگے تھے، انہوں نے 1946ء میں ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی اور اسے کم عرصے میں ترکی عوام اتنی پذیرائی نصیب ہوئی کہ 1950ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور اپنا وزیر اعظم منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی. اسلام پسندانہ اقدامات کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا کہ 1954ء اور 1957ء کے انتخابات میں بھی اسی اسلام پسند پارٹی نے کامیابی حاصل کی، اس عرصے میں عدنان مندریس وزیراعظم رہے۔ ان کی طرف سے ترکی کے اسلام پسند عوام کو بتدریج حقوق اور آزادی ملنا شروع ہوئی تو ترکی کے سیکولر آئین کی محافظ سیکولر فوج کو یہ اقدامات ایک آنکھ نہ بھائے اور جنرل کمال گروسیل نے فوج کے ایک گروپ کو ساتھ ملا کر اور آرمی چیف کو محبوس کرکے 1960ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مسلسل دس سال تک منتخب ہونے والے اور 1959ء میں طیارہ حادثہ میں خوش قسمتی سے بچ جانے والے وزیراعظم عدنان مندریس کو اسلام پسندوں کو حقوق اور آزادی دینے کی پاداش میں غدار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔ عدنان مندریس نے اذان، نماز، حج اور مساجد بنانے کے حوالے سے پابندیاں ختم کیں، اس لیے اس دور کو ترکی میں سفید انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ مارشل لاء لگنے کے بعد پھر سے ترکی کو تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ سیکولر ذہنیت کے حاملیں کو نوازا جانے لگا اور اسلام پسندوں کے حقوق سلب کیے جانے لگے، ڈیموکریٹک پارٹی پر بھی پابندی بعائد کر دی گئی۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا، اگلی دو دہائیوں میں سیکولرازم کے حامیوں کو منتخب حکومتوں کے خلاف صرف اس لیے مارشل لا لگانا پڑے کہ وہ انھیں اسلام پسند لگتے تھے. مگر ان مارشل لائوں اور سیکرلر حکمرانوں نے ترکی کا دیوالیہ نکال دیا. 1981ء کا مارشل لا ترکی کی تاریخ کا بدترین مار شل لا تھا، 5 لاکھ لوگوں کوگرفتار کیا گیا اور ہزاروں کو پھانسیاں دی گئیں۔
اس عرصے میں جمہوریت بحالی کے بعد اسلام پسندوں کی جدوجہد شروع ہوئی اور عوام نے اسلام پسندوں کی ایمانداری کو ترکی کے لیے بہترین جانا۔ 1995ء کے الیکشن تک اسلامک ویلفیئر پارٹی کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ وہ الیکشن جیت کر مشترکہ حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی۔ مگر یہ حکومت بھی سیکولر فوج کو ایک آنکھ نہ بھائی اور 1997ء میں اس کے خلاف بغاوت کرکے تختہ الٹا دیا اور اسلام پسند وزیراعظم نجم الدین اربکان پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی مگر اربکان نے ہمت نہ ہاری، اور نئے نام کے ساتھ ’’ورچو پارٹی‘‘ قائم کی، اس کی مقبولیت بھی اتنی بڑھی کہ سیکولر فوج کی طرف سے الیکشن کے انعقاد سے قبل 2001ء میں اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ انہوں نے ایک اور نام ’’سعادت‘‘ کے نام سے پارٹی منظم کر لی تاکہ الیکشن میں سیکولر قوتوں کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑا جائے۔ اسی پارٹی کی کوکھ سے طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے جنم لیا جس نے سعادت کی جگہ لی، 2002ء کے الیکشن میں حصہ لیا اور تب سے 2015ء تک منعقدہ چاروں الیکشن جیت چکی ہے اور اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سابقہ روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فوج کے ایک گروپ نے حال ہی میں شب خون مار کر اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مگر عوام کی حمایت سے اس فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا۔ ترکی میں اب تک پانچ مارشل لائوں میں سے تین مارشل لا صرف اسلام پسندوں کی مقبولیت بڑھنے کی وجہ سے لگائے گئے۔سیکولر فوج کی طرف سے اسلام پسندوں کی مقبول ہوتی حکومتوں سے خائف ہوکر بار بار مارشل لاء لگانے کے باوجود عوام میں بڑھتی ان کی مقبولیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خلافت عثمانیہ کے وارث عوام پر زبردستی سیکولرازم کو ٹھونسا گیا، اور ہر دستیاب موقع پر ترکوں نے اسلام پسندوں کا ساتھ دے کر اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کی فطرت میں اسلام موجود ہے اور وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔
اسلام پسند طیب اردگان نے ترک معاشرے کے اسلام پسندی کے رجحانات کے مطابق اقدامات کیے تو لوگ جوق در جوق اس کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔ حالیہ ناکام بغاوت کے بعد لوگوں کی رجب اردگان کےلیے والہانہ محبت اس کا واضحثبوت ہے. ترکی میں جب بھی اسلام پسندوں کی حکومت آئی ہے تو وہ طویل عرصہ تک اپنی مقبولیت اور ساکھ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ خواہ وہ عدنان میندریس کی حکومت ہو یا نجم الدین اربکان اور رجب طیب اردگان کے ادوار۔
ترک عوام طیب اردگان کی حکو مت بچانے کے لیے اس لیے بھی نکلے کہ اسلام پسندوں کی سابقہ روایات کی طرح انہوں نے ترکی کو ترقی کی نئی منزلوں سے متعارف کروایا۔ اردگان 1994ء سے 1998ء تک استنبول کے مئیر رہے۔ نوے کی دہائی میں ا ستنبول کراچی جیسے حالات سے دوچار تھا، شہر پر مافیاز کا قبضہ، منشیات کا دنیا کاتیسرا بڑا اور معاشی فراڈ کا دوسرا بڑا اڈہ بن چکا تھا۔ ٹریفک کا نظام بدترین، صفائی کا نظام انتہائی خراب، اسٹریٹ کرائم بلند ترین سطح پر تھے۔طیب اردگان نے بطور مئیر پہلے شہر کو صفائی کے ذریعے آلودگی سے پاک کیا اور پھر ٹریفک کا مسئلہ حل کیا۔ دو برسوں میں شہر کو کرائم فری بنایا اور ایک ایک کرکے مافیاز کو بھی ختم کر دیا. شہر کے دو بلین ڈالر کے خسارے ختم کرکے چار بلین ڈالر کا انفراسٹرکچر قائم کیا۔ استنبول صرف 4 سالوں میں ترقی یافتہ بن گیا اور کاروبار کے لیے ماڈل ترین شہر کا روپ دھار گیا۔
اردگان نے اس شہرت کی بنیاد پر ملک گیر کامیابی حاصل کی اور برسر اقتدار آ کر تین ترجیحات پر کام شروع کیا. پہلی ترجیح میں انہوں نے گورننس کی بہتری، معیشت بحالی اور سماجی ترقی کو رکھا، مذہبی تشخص کی بحالی کو دوسری ترجیح بنایا اور فوج کے اختیارات میں بتدریج کمی کرکے سویلین بالادستی کو تیسری ترجیح بنایا۔ انہوں نے چند ماہ میں پورے ملک میں گورننس کو بہتر کر دیا، حکومتی نظام آن لائن ہونے کی وجہ سے کرپشن کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کے مسائل گھر بیٹھے ہی حل ہونے لگے، پولیس کے نظام کو بہتر کرکے اس کے معیار کو فوج جیسا بنایا گیا، معیشت میں جی ڈی پی 43 فیصد تک بڑھ گیا، غربت 13 فیصد سے کم ہو کر 4.9 فیصد تک رہ گئی۔ لیرا ڈالر کے نصف تک پہنچ گیا۔ہائوسنگ سیکٹر پر توجہ دے کر 60 ہزار نئی نوکریاں پیدا کی گئیں، اس سے ایک طرف روزگار کا مسئلہ حل ہوا تو دوسری طرف دیکھتے ہی دیکھتے ترکی کا انفراسٹرکچر بہترین ہوگیا۔ عوام نے انھی اقدامات کی وجہ سے انہیں 2002ء میں 34 فیصد، 2007ء میں 46 فیصد اور2011 میں 50 فیصد ووٹوں سے اقتدار میں جگہ دے کر اعتماد کا اظہار کیا۔
کچھ خاص اقدامات جو رجب طیب ارگان کی محبت کا باعث بنے، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
1)- آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضے زیرو کر کے انہیں قرضے لینے کی آفر کی گئی۔
2)- تعلیمی نظام میں بہتری کی وجہ سے سکولوں میں طالب علموں کی تعداد65000 سے بڑھ کر 8 لاکھ تک پہنچ گئی۔
3)- 12 سال کی عمر سے پہلے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ختم کر دی جس کے بعد تمام سکولوں میں قرآن پڑھانا اور مذہبی تعلیم دینا لازمی قرار دے دیا گیا۔
4)- مسجد اور سکول کے 100 میٹر کے احاطے میں شراب بیچنا اور اس کا اشتہار لگانا ممنوع قرار دے دیا گیا۔
5)- صرف ایک سال میں 17 ہزار نئی مساجد کی تعمیر کا بندوبست کیا گیا اور پرانی مساجد کی بحالی کا کام کیا گیا۔
6)- ترک شہریوں کو گرین کارڈ جاری کرکے ملک کے کسی بھی ہسپتال میں مفت علاج کی سہولیات فراہم کی گئیں۔
7)- ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھا کر 190 کر دی گئی۔
8)- سرکاری دفاتر میں نماز باجماعت کے اہتما م کا آغاز کیا گیااور دفاتر میں پردے اور حجاب کے ساتھ ڈیوٹی کی اجازت دی گئی۔ انہی اقدامات کی وجہ سے ایک خاتون جج
نے2015ء میں سکارف پہن کر کیس سنا تو اہل یورپ کے لیے یہ بریکنگ نیوز بن گئی تھی۔
9)- سودی بنکوں کے بجائے ’’ زراعت اسلامی بنک ‘‘ کو ترجیح دے کرعوام کو سود سے دور کرنے کی طرف قدم بڑھایا گیا۔
10)۔ قومی آمدن میں 64 فیصد اضافہ م ہوا۔
11)۔ بارہ سالوں میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے بڑھا 50 کر دی گئی۔
12)۔ زر مبادلہ کے ذخائر 2011ء میں 92 بلین ڈالر تک پہنچ چکے تھے،
13)۔ سیاحت کو فروغ دے کر 20 ارب ڈالر سالانہ آمدن کا بندوبست کیا گیا۔
14)۔2011ء تک 13500 کلومیٹر سڑکیں اور 1076 کلومیٹر ریلوے کی لائنیں بچھائی گئیں۔
15)۔ تعلیمی بجٹ 7.5 ارب لیرا سے بڑھا کر 34 ارب لیر ا تک بڑھا دیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کا ترکی اسلامی دنیا کا لیڈر بننے جا رہا ہے، اور طیب اردگان مسلم دنیا کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ ترکی یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر کوئی پاکستانی حکمران عوام میں اردگان جیسی مقبولیت چاہتا ہے تو اسلامی رجحانات متعارف کروائے اور صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست کے لیے اقدامات کرے۔
تبصرہ لکھیے