بحیثیت معاشرہ ہماری اقدار کو متاثر کرنے والے سماجی مسائل اور برائیاں اصل میں لوگوں کے غلط رویوں اور ان کے منفی اثرات کی پیچیدہ شکلیں ہیں، جنھیں سدھارنے کے لیے ضروری ہے کہ پورا معاشرہ یک جان ہو کر سدھار کی کوشش کرے۔ انفرادی کوششیں اگرچہ کچھ نہ کرنے سے بہتر ہیں مگر کافی نہیں۔ یہ مسائل اور برائیاں دیمک سے کم نہیں، ان کی وجہ سے معاشرے کا خوب صورت چہرہ داغ دار رہتا ہے۔ سماج میں کتنی برائیاں ہیں اور کس کس نوعیت کی ہیں؟ اس کی تفصیل میں جانا تو ممکن نہیں البتہ اختصارسے کچھ چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے، ہر فرد جن کی وجہ سے شاکی اور پریشان تو ہے مگر ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی فکر کر رہا ہے نہ صحیح معنوں میں ان کا سدّباب چاہتا ہے.
کرپشن، کمیشن، جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، سفارش، اشیاء میں ملاوٹ، امانت میں خیانت، قول و فعل کا تضاد، مکر و فریب اور وی آئی پی کلچر ایسے سماجی مسائل اور برائیاں ہیں، جن پر گفتگو کی جاتی ہے اور جن کی موجودگی میں معاشرتی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی. ایک آزاد اسلامی اور فلاحی مملکت کے طور پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی، یعنی ایک ایسی مملکت جس میں تمام شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی اور ہر طرح کی سہولتیں میسر ہوں گی، جہاں جہالت کا مقابلہ تعلیم، غربت کا یکساں روزگار کے مواقع، بھوک اور افلاس کا وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بےانصافی کا عدل و انصاف سے ہوگا، جہاں تمام شہریوں کو علاج کی بہترین سہولتیں میسر ہوں گی، جہاں ملازمتیں عام ہوں گی اور میرٹ پر ملیں گی اور جہاں قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوگا. انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس فلاحی مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا. اس میں ایک بڑی رکاوٹ یہی سماجی مسائل اور برائیاں ہیں.
سرکاری نوکری جو اکثر مہذب ممالک میں وسیلہ روزگار کے ساتھ ملک کی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھاتاہے، پاکستان میں اس کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم ہے، کلرک سے بڑے عہدیدار تک دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ جو چند لوگ کرپشن سے بچنے والے ہیں، ان کے لیے بھی ایسا ماحول بنادیا جاتا ہے کہ وہ مجبور ہو کر اس گناہ میں شامل ہوجاتے ہیں. عوام کو یورپ، امریکہ یا کینیڈا جیسے ملک کا ویزہ مل جائے تو جانے میں ذرا دیر نہ لگائیں۔ ملک پر ذات کو ترجیح دی جاتی ہے اور ذاتی سو روپے کےلیے ملک کا لاکھ روپے کا نقصان کر دیا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ الزام حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے. مانا کہ ہمارے حکمران ٹھیک نہیں مگر یہ حکمران ہم میں سے ہی ہیں اور ہمارے ووٹوں سے آئے ہیں. اگر ہم خود ملک کے زوال کا سبب ہیں تو صرف حکمران ذمہ دار کیوں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نئی سوچ پیدا کی جائے اور ایسے طریقے رائج کیے جائیں جن کے ذریعے ان برائیوں سے بچا جا سکے، اور وطن عزیز اس خواب کا عملی نمونہ بن جائے جو ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا.
تبصرہ لکھیے