اختر الایمان (1915- 1996) کی شاعری فکری اعتبار سے جتنی وسیع اور ہمہ جہت ہے۔ فنی لحاظ سے بھی اس میں اتنی ہی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اظہار کے مختلف پیرائے تلاش کیے اور لفظیات و تراکیب، تشبیہات و استعارات کا استعمال حسبِ ضرورت کیا۔ انہوں نے شعری لوازمات کے فنکارانہ استعمال سے اپنی فکر کو بہت مؤثر اور دیرپا بنا دیا۔ اس بات کی توثیق کے لیے مناسب یہی ہے کہ ہم اختر الایمان کی ایک نظم "کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیہ بھی کرکے دیکھیں، تاکہ ہم اختر الایمان کو ان کی تخلیق کی روشنی میں سمجھ سکیں۔ اختر الایمان نے یہ نظم 08/نومبر 1975 کو لکھی اور یہ ان کے ساتویں شعری مجموعے "نیا آہنگ"(ستمبر 1977) میں شامل ہے۔ یہ نظم سلائیڈ شو کی شکل میں ہے اور اس میں گاؤں اور شہر دونوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اختر الایمان کے دس شعری مجموعے ہیں، جن کے نام اس طرح سے ہیں۔ گرداب(1943)، تاریک سیارہ(1947)، سب رنگ(1947)، آبجو(1959)، یادیں(1961)، بنتِ لمحات(1969)، نیا آہنگ(1977)، سروساماں(1983)، زمین زمین(1990) اور، زمستاں سرد مہری کا(1997) وغیرہ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، نئی دہلی نے 2000 میں ان کا کلیات شائع کیا، جسے ان کی بیوی سلطانہ ایمان اور بیدار بخت نے مرتب کیا ہے۔ ان کی خود نوشت سوانح حیات بھی "اس آباد خرابے میں" 1996 دہلی اُردو اکیڈمی سے شائع ہوچکی ہے۔
محمد آصف زہری کے بقول "ہیئتاً یہ ایک آزاد نظم ہے، جس کے افاعیل "فعلُن فعلُن فعلُن فعلُن" ہیں اور بحر کا نام "بحرِ متدارک مثمن مقطوع" ہے۔ یہ بحر، ہندی عروض میں "پِنگل"(اوہٹ میں جب پراکرتی روایات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے تو اسے پنگل کہتے ہیں) کے نام سے مستعمل ہے نیز "پرتھوی راج راسو" اسی بحر میں لکھی گئی ہے۔"(بحوالہ، اختر الایمان کی دس نظمیں، صفحہ نمبر 164)
اس بنیادی گفتگو کے بعد اب نفسِ موضوع "کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔ نظم کا پہلا بند : جب دن ڈھل جاتا ہے، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہے۔۔سیرتِ نبوی، ترکِ دنیا اور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے میں کیا رشتہ ہے؟
اس نظم میں کل چھے بند (حصّے) ہیں اور پہلا بند سب سے بڑا ہے اس میں پوری نظم کی تمہید بیان کی گئی ہے کہ جب دن ڈھل جاتا ہے اور سورج دھرتی کے اوٹ میں ہوجاتا ہے تو بھڑوں کے چھتے جیسی بھنبھناہٹ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ یہ بھنبھناہٹ، غلاظت اور گندگی کی علامت ہے۔ اس بند میں نئی نسل اور پرانی نسل کے متضاد رویوں، انسانی زندگی کے فکری و عملی تضادات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسں میں کم سن لڑکوں، لڑکیوں کی جنسی بے راہ روی اور کثیر آبادی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جنسی بے راہ روی کو عام کرنے میں 2G، 3G، 4G اور اب تو 5G جیسی سہولیات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بہت پہلے ہی کسی شاعر نے کہا تھا کہ
ٹیلی ویژن کی بدولت فصل پہلے پک گئی
بچہ بچہ قوم کا بالغ نظر آنے لگا
جنسی آسودگی اور پیٹ کی بھوک کے بارے میں اختر الایمان نے ہی کہیں لکھا ہے کہ جب انسان کی یہ دونوں خواہشیں بآسانی پوری ہو جائیں تو اس کے زندہ رہنے کی ساری خواہشات دم توڑ دیتی ہیں۔ بڑھتی تعمیرات سے بڑھتی آبادی کا پتہ چلتا ہے، چنانچہ آگے کے مصرعوں سے دھیرے دھیرے نظم اپنے عروج کی جانب بڑھتی ہے اور تھیٹر و تفریح گاہوں میں تالے پڑ جانے کے بعد بظاہر دنیا سوجاتی ہے، لیکن بباطن دنیا جاگتی رہتی ہے۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچا کرتا ہوں
کتوں کی دم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے؟
میرے خیال سے یہاں ان ساری چیزوں کا تذکرہ اس لیے ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں ہماری دنیاوی زندگی اور زیست کی مصروفیات و مشغولیات کے ساتھ ساتھ ہمارے رسوم و رواج اور ہماری دل لگی و دل بستگی کا سامان ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہمیں ہماری زندگی کے حقیقی اور اصل مسائل سے ہماری توجہ بھٹکا دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم انہیں چیزوں میں منہمک ہوکر رہ جاتے ہیں اور اپنی تخلیق کے حقیقی مقصد سے بھٹک جاتے ہیں۔
دوسرا بند :
دن تو اڑ جاتے ہیں
جو دن بیت گئے کتنے اچھے تھے !
یہاں دو کردار مریم اور غضنفر کے حسن و عشق کا قصہ بیان ہوا ہے، جیسا کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ دو محبت کرنے والوں میں شروع شروع سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔ اسی طرح مریم اور غضنفر کا معاشقہ بھی ہے، لیکن غضنفر کہیں اور شادی کر لیتا ہے اور مریم اپنی مجرد زندگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بالکل تھک چکی ہے اور کپڑے وغیرہ سی کر اپنی معمولاتِ زندگی کو کھینچ رہی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس غضنفر دوسری جگہ شادی کرچکا ہے۔ یہ اب اپنی بیٹی پر قدغن رکھتا ہے۔ اسے روکتا ٹوکتا ہے۔ کیوں کہ نئے زمانے کی اولاد اب اپنے والدین کی فرمانبردار نہیں رہ گئی اور یہ چیز تو سبھی مانتے ہیں کہ جو دن گزر گئے وہ اچھے تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں بھی ہے۔ "خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم"(صحیح بخاری کتاب الشہادات، صحیح مسلم کتاب الفضائل)، یہاں غضنفر کا کردار مردوں کی علامت ہے اور مریم کا کردار عورتوں کی، جبکہ زینب کا کردار سماج کی علامت ہے۔
تیسرا بند:
برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ
سامنے جو کچھ ہے رنگوں، آوازوں، چہروں کا میلا ہے !
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سڑکوں پر ہر لمحہ ایک میت جاتی ہے
پس منظر میں کیا ہوتا ہے، نظر کہاں جاتی ہے
سامنے جو کچھ ہے، رنگوں، آوازوں، چہروں کا میلا ہے۔
چوتھا بند:
گرگل اڑ کر وہ پلکھن پر جا بیٹھی
سرکاری تحویل میں تھا اک مدت سے !
بے حسی نے لا تعلق کر دیا کچھ اس قدر
اک پڑوسی جل رہا ہے دیکھتا کوئی نہیں
پانچواں بند :
شاید پت جھڑ کا موسم آپہنچ
پس منظر میں نظر کہاں جاتی ہے۔
اس نظم کے آخری بند میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پھولوں کی خوشبو سے کیا کیا یاد آتا ہے۔ عمومی طور پر پھول، خوشی اور غم دونوں موقعوں پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پارٹی، شادی اور سالگرہ کے مواقع پر ہم اسے خوشی کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ کسی کی موت پر آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی ہم پھولوں ہی کا استعمال کرتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
خوشی کے ساتھ دنیا میں، ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
شہاں کی کہلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
اس بند میں بھی مختلف بند کر مصرعوں کو دہرایا گیا ہے اور آخر میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ سبھی کے جیبوں میں انسانوں کے دکھ درد کا درماں ہے۔ سب کے پاس خوشیوں کا نسخہ بندھا پڑا ہے، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے، جب نسخہ کھلتا ہے 1857 جاتا ہے اور 1947 آجاتا ہے۔ یعنی انتہائی سرعت سے ہماری خوشیوں کے ایام گزر جاتے ہیں۔ یہاں فرقت کا کردار انفرادی زندگی کی علامت ہے اور 1857 اجتماعی زندگی کی، 1857 اور 1947 ہندوستانیوں کے اجڑنے کے سال ہیں، پھر دھیرے دھیرے ہمارے یہ زخم بھی بھرنے لگے اور کسی نہ کسی طرح سے ہندوستانوں کی زندگی بسنے لگی، یہی زندگی کا استعارہ ہے۔
اس نظم کا مرکزی خیال اور نقطۂ نظر انسانی درد و کرب ہے، جس سے ہم انسان شب و روز نبر آزما ہیں۔ پھر بھی ہمیں اس سے نجات نہیں ملتی۔ آخر کار ہم آپسی غم غلط کرنے کے لیے مختلف چیزوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح سے یہ نظم اپنے مرکزی خیال کی طرف، تسلسلِ خیال اور ارتقائے خیال کی مدد سے دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اور اپنے پورے عروج پر پہنچتی ہے۔ عروج پر آنے کے بعد یہ نظم اپنے قاری پر ایک بہترین اور خوشگوار تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ میں بلا تأمل یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس نظم میں بلیغ استعارات و علامات اور شعور کی رو، سلائیڈ شو جیسی کئی مختلف تکنیک مستعمل ہونے کی وجہ سے میں اس نظم کے تجزیئے کا حق ادا نہیں کر سکا۔ اخترالایمان کی اسی تخلیقی جدت پسندی کی وجہ سے ان پر بعض ناقدین نے یاس و قنوتیت اور امید و بیم کا الزام لگایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس نظم میں لفظی تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔
حوالہ جات:
(1) نیا آہنگ: اختر الایمان، رخشندہ کتاب گھر، بمبئے 50، ستمبر 1977
(2) اختر الایمان کی دس نظمیں، تجزیاتی مطالعہ : محمد آصف زہری، سنہ اشاعت 2010
(3) اُردو ادب( سہ ماہی رسالہ) : مدیر، اطہر فاروقی، شمارہ نمبر 237 جلد نمبر 59 (اختر الایمان پر خصوصی شمارہ، مارچ 2016)
(4) اُردو ادب( سہ ماہی رسالہ) : مدیر، اطہر فاروقی، شمارہ نمبر 238 جلد نمبر 60، {مضمون، "اختر الایمان کی شاعری کا فکری پس منظر: شاہ
عالم"}
(5) اُردو دنیا (ماہنامہ)، نومبر 2015، مدیر ارتضیٰ کریم
(6) تخلیق و تحقیق(سہ ماہی رسالہ): مدیر، ظہیر حسن ظہیر، جلد نمبر 02، شمارہ نمبر 04، (اکتوبر تا دسمبر 2018)
*(تجزیہ نگار، شعبۂ اُردو، دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)
تبصرہ لکھیے