سورج سے ہم روشنی، حرارت اور توانائی پاتے ہیں، یہی سورج اپنی حرارتی توانائی سے سمندروں میں بخارات پیدا کرتا ہے جو بادل بنتے ہیں، اور سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کر دیتے ہیں. پھر یہی بادل پیاسی دھرتی پر برس کر نظامِ زندگی میں اپنا حصہ ملاتے ہیں. پانی کا کچھ حصہ تقطیر کے عمل سے گزر زیرزمین جمع ہوجاتا ہے اور انسانی استعمال میں آتا رہتا اور کچھ ندی نالوں دریاؤں میں سفر کرتا واپس سمندر میں مل کر اس نظام کا حصہ بن جاتا ہے.
ابنِ آدم جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہلواتا ہے، وہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے. اس کے لیے یہ نعمتیں تخلیق کی گئی ہیں. اور امتحان کی غرض سے اسے اس نظام (امتحان گاہ) میں بھیجا گیا ہے. تو کیا وہ اس لین دین سے مبرا ہے..؟ انسان امتحان میں ہے، امتحان ہوتا کیا ہے..؟ درست جواب و درست عمل..
سورج اور زمین اپنے محور پر اور چاند اپنے مدار میں گامزن ہیں. اس زمین پر موجود ہر چیز اپنی ترتیب پر ہے، اس ترتیب سے ہٹنا اس کی ذات کا مقصد فوت کر دیتی ہے. گندم کا بیج بویا جائے تو گندم ہی حاصل ہوگی. آم مٹھاس کا مظہر، اگر کڑوا نکل آیا، تو وہ کچھ بھی ہو، آم کے طور پراستعمال نہ ہوگا.
ایسے ہی انسان ایک مقصد سے دُنیا میں بھیجا گیا، بندگی اور اس رب کی بندگی کی طرف بلانا اس کا ٹھہرا. اس دُنیا میں ہر چیز بالواسطہ یا بلاواسطہ انسان کے لیے ہی ہے، اُن میں سے کسی کی بھی کمی انسان کی کسی ضرورت کو براہ راست یا بالواسطہ متاثر کرے گی. گھاس گھوڑے کے لیے ہے مگر گھوڑا گھاس کے لیے نہیں. اسی طرح دُنیا انسان واسطے سجائی گئی، انسان دُنیا واسطے نہیں. یہی مقصد زندگی ہے، اس مقصد کی سمجھ روح کی آکسیجن ہے.
جیسے ایک اچھا ایکو سسٹم تب ہی بنتا ہے جب اس سسٹم میں موجود ہر چیز مکمل رزلٹ دے. ایسے ہی اچھا معاشرہ تب ہی تکمیل پاتا ہے جب ہر فرد نہ صرف اپنا مقصد حیات سمجھے بلکہ اپنے آس پاس اس مقصد حیات کا ابلاغ کرے. جس معاشرے میں رزق بٹنا عام ہوجائے وہاں کوئی بھوکا نہیں ہوتا، جس معاشرے میں محبت بانٹی جائے وہاں فساد نہیں ہوتا، جہاں علم بانٹا جائے وہاں جہالت نہیں ہوتی. یہی انسان کا لین دین ہے اور اس لینے دینے میں دہرا فائدہ ہے. ایک آج کا کہ علم دو گے علم ملے گا، محبت دو گے محبت ملے گی. اور ایک کل کا، جو اصل ہے اور جس پر اللہ کا کلام کہتا ہے:
اور یہ دُنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے، اور (ابدی) زندگی ( کامقام) تو آخرت کا گھر ہے، کاش یہ (لوگ) سمجھتے. سورۃ العنکبوت 46
نظامِ زندگی اور اس کے تقاضے - ریاض علی خٹک

تبصرہ لکھیے