یہ شاید اسی رمضان کا واقعہ ہے۔
چند روز پہلے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک دس سالہ بچہ زار و قطار رو رہا تھا۔ وہ بازار میں پاپڑ اور مصالحے بیچتا تھا۔
ایک شخص آیا، مصالحے خریدے، اور پانچ ہزار کا نوٹ دیا۔ بچے نے معصومیت سے کہا کہ اس کے پاس کھلے نہیں ہیں۔
آدمی نے نرمی سے پوچھا، "تمھارے پاس کتنے ہیں؟"
بچے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، پیسے گنے اور کہا، "چھبیس سو روپے۔"
آدمی نے وہ پیسے لے لیے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے تین چار شاپرز بچے کو تھما دیے۔ "یہ پکڑو، میں کھلے پیسے لے کر ابھی آتا ہوں۔"
بچہ پُرامید تھا۔ وہ وہیں کھڑا انتظار کرتا رہا۔ پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ منٹ... مگر وہ آدمی لوٹ کر نہ آیا۔ آدھے گھنٹے بعد بچے کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور پھر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
ایک راہ گیر قریب آیا اور بچے سے رونے کی وجہ پوچھی۔ بچے نے روتے ہوئے سارا ماجرا سنایا۔ راہ گیر نے اس کے ہاتھ سے شاپرز لیے اور کھول کر دیکھے— اندر صرف گندا کچرا تھا!
یہ دیکھ کر بچہ بے بسی سے چیخنے لگا، "میرے پیسے! میرے پیسے!"
ہجوم اکٹھا ہو گیا، مگر زیادہ تر لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے۔ کسی نے افسوس کا اظہار کیا، کسی نے موبائل نکال کر ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ کچھ لوگ مسکرا رہے تھے، جیسے کسی دلچسپ منظر سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔
مجھے امید ہے کہ وہاں کسی نیک دل شخص نے آگے بڑھ کر بچے کی مدد کی ہوگی، مگر سوال یہ ہے کہ رمضان میں جب شیطان قید ہوتا ہے، تو انسان کس کے بہکاوے میں آ کر اتنے سنگدل ہو جاتے ہیں؟
یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ کسی کو دھوکہ دینا گناہ ہے، لیکن ایک معصوم، مجبور بچے کو دھوکہ دینا ظلم کی انتہا ہے۔
ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہماری بے حسی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ شاید ہمیں صرف دوسروں کے آنسو دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے، انھیں پونچھنے کی نہیں۔
یہ دنیا فریب سے نہیں، احساس سے خوبصورت بنتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کر سکتے، تو ہماری عبادات، ہمارا روزہ اور ہماری دعائیں کس کام کی؟
تبصرہ لکھیے