ہوم << تحریر، تخلیق اور تاثیر -علی عبداللہ

تحریر، تخلیق اور تاثیر -علی عبداللہ

لفظ آدم کے ساتھ جُڑا، اور جب کاتبِ تقدیر نے اسے قوتِ بیان عطا کی، تب ہی یہ طے پایا کہ انسان صرف جسم سے نہیں، بلکہ اپنے کہے اور لکھے ہوئے الفاظ سے بھی پہچانا جائے گا۔ لکھاری وہ ہے جو وقت کے بہتے دریا پر ایسی تحریریں کندہ کرے جو کناروں کو امر کر دیں، جو زوال کی راتوں میں صبح کا گمان پیدا کریں، اور جو ماضی، حال، اور مستقبل کے درمیان ایک ایسا پل بنا دیں، جس پر چل کر صدیاں ایک دوسرے سے ہمکلام ہو سکیں۔

ہر لفظ ایک مشعل ہے، اور ہر لکھاری ایک مشعل بردار۔ وقت کا طوفان جب ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے، تب تحریر ہی وہ واحد کشتی ہوتی ہے جو علم، حکمت، اور شعور کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ اگر ہومر کی الیڈ اور اوڈیسی نہ ہوتیں، تو کیا یونان کی روح آج بھی سانس لے رہی ہوتی؟ اگر ابن خلدون کا مقدمہ نہ ہوتا تو کیا تاریخ اپنے اصولوں کو پہچان پاتی؟ اگر میر، غالب، اور فیض کے اشعار نہ ہوتے، تو کیا محبت، بغاوت، اور تنہائی کے جذبات اسی شدت سے ہم پر آشکار ہوتے؟ لکھنا محض ایک مشغلہ نہیں، یہ ایک ایسا قرض ہے جو ہر صاحبِ شعور پر واجب ہوتا ہے۔ وقت ہم سب سے کچھ نہ کچھ چھین کر لے جاتا ہے، لیکن لکھنے والا وہی ہے جو اس سے کچھ چھین کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہر عہد میں تلوار اور قلم کا معرکہ برپا رہا ہے۔ بابل کی اینٹوں پر کندہ تحریریں، مصر کے اہراموں میں محفوظ راز، بغداد کے کتب خانے کی نذرِ آتش ہونے والی داستانیں، سب اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ وقت اور تحریر کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ لیکن تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے؛ تلوار زنگ آلود ہو جاتی ہے، تخت گر جاتے ہیں، سلطنتیں راکھ ہو جاتی ہیں، مگر تحریر وقت کے زخموں سے بچ کر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

آج کے لکھاری کے لیے سب سے بڑا سوال یہ نہیں کہ وہ لکھ رہا ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے؟ آج الفاظ ہوا میں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں، اور تحریر کا وقار ایک لمحاتی کھیل میں بدل چکا ہے۔ لکھنے والے زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن لکھنے کی ذمہ داری کا احساس کم ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی تیز رفتاری نے فکر کی گہرائی کو چھین لیا ہے، اور الفاظ محض سرخیوں، ٹرینڈز اور وائرل مواد کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر آج بھی کوئی ایسا لکھاری موجود ہے جو وقت کے بہاؤ میں اپنے قلم کو سچائی، گہرائی، اور روشنی سے آشنا رکھے، تو وہی تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گا۔

لکھنے والا صرف ایک شخص نہیں ہوتا، وہ ایک پوری نسل کے شعور کا امین ہوتا ہے۔ ہر تحریر ایک بیج کی طرح ہوتی ہے، جو آنے والے وقت میں کسی نہ کسی ذہن میں شجرِ علم بن کر نمو پاتی ہے۔ آج کا لکھاری وہی ہے جو سچائی کو حرف و لفظ میں ڈھالنے کا ہنر جانتا ہو، جو فریب کی دبیز چادر کے پار دیکھ سکتا ہو، اور جو آنے والی نسلوں کو صرف کہانیاں ہی نہیں، بلکہ جینے کے شعور کا ہنر بھی دے سکے۔ وقت ایک دریا ہے، اور ہم سب اس میں بہہ رہے ہیں۔ لیکن لکھاری وہی ہے جو اس دریا میں اپنا نام، اپنی سوچ، اور اپنی تحریر کو پتھر کی طرح پیوست کر دے، تاکہ وقت جب بھی آگے بڑھے، اسے عبور کرنے کے لیے ان لفظوں سے مکالمہ کرنا پڑے۔

یہ دن ہر اس ہاتھ کے نام جو قلم اٹھاتا ہے، ہر اس ذہن کے نام جو سوچتا ہے، اور ہر اس دل کے نام جو لکھنے کی جرات رکھتا ہے؛ کیونکہ لکھنا امر ہونے کا پہلا قدم ہے، اور سوچنے والا وہی ہے جو زمانے کو اپنے الفاظ کے آئینے میں دیکھنے پر مجبور کر دے۔

Comments

Avatar photo

علی عبداللہ

علی عبداللہ پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی ٹرینر ہیں۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ ادب، تاریخ، مذہب اور ٹیکنالوجی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں. مختلف ویب سائٹس اور قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔

Click here to post a comment