جانے وہ ایک گاؤں مجھے کیوں اتنا یاد آتا ہے۔ وہ گاؤں میرے خوابوں کا مسکن تھا۔ جانے وہ واقعی اتنا خوبصورت تھا یا میری یادوں میں وہ اتنا حسین دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ میں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئی لیکن میں نے جب ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے آپ کو اس گاؤں میں پایا ۔یہ شہر سے محض انیس بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا جہاں دادی کو وراثت میں ملی ہوئی کچھ زمینیں تھیں، جبکہ دادا کی زمینیں دریائے سندھ کے پاس بیٹ کے علاقے میں تھیں۔
وہ گاؤں بڑا سرسبز و شاداب تھا، درختوں اور پودوں سےگھرا ہوا تھا۔ پکی سڑک سے میرے گھر تک ایک ندی بہتی تھی ۔ ہم ندی کی لہریں گنتے گھر پہنچ جاتے تھے۔ وہاں دادی کے بھائی کا جو ایک زمیندار تھے ایک بہت بڑا ٹیوب ویل تھا، ساتھ ہی ایک آٹا پیسنے والی چکی تھی جس کی سریلی آواز پورے گاؤں میں گونجتی رہتی تھی اوراس کی آواز کسی ساز کی طرح سنائی دیتی تھی۔ وہ آواز بڑا مسحور کرتی تھی۔
وہاں موجود ہمارا گھر بہت خوبصورت تھا وہ بہت بڑا تھا۔ اس میں ایک بہت بڑا سا باغ تھا جس میں اتنے ڈھیر سارے پودے اور درخت تھے کہ اب میں سوچتی ہوں تو یقین نہیں آتا ۔اسی گھر میں مالٹے ، سنگترے، آم ، شہتوت ، جامن اور کھجوروں کے درخت تھے جو خوب پھل دیتے۔ایک بڑا سا نیم کا درخت تھا جس کے ساتھ جھولا بندھا رہتا تھا۔ اس میں میں جب جھولا لیتی تو پورا گاؤں نظر آتا تھا اور مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں کسی اڑن کھٹولے پر بیٹھی ہوں۔ باغ میں دو سنبل کے بڑے بڑےدرخت تھے جو بہار میں پھولوں سے لد جاتے تھے اور جب وہ پھول نیچے گرتے تو باغ سرخ پھولوں سے بھر جاتا تھا اور ہم نے پھولوں کو اکٹھا کر کے بہت خوش ہوتے ۔گلاب اور چنبیلی کے پھول بھی وہاں اپنی خوب بہار دکھاتے۔ رات کی رانی مہکتی تو پورا آنگن خوشبو سے بھر جاتا۔
گرمیوں کی صبح بڑی حسین ہوتی تھی۔ صبح اٹھتے ہیں اماں کی مددگار ماسی کندن صبح صبح پہنچ جاتی اور سارے گھر کو لمبا سا جھاڑو لے کر صاف کرتی ۔ بڑا سا صحن خوب صاف ستھرا ہو جاتا۔ میں اور میرا بھائی امی کے ساتھ ہی صبح سویرے اٹھ جاتے اور وہ اپنی ٹرائی سائیکلیں لے کر خوب بھگاتے۔ ہم دونوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا کہ کون آگے نکل جائے گا کون کس سے سبقت لے جائے گا ۔ہم میں سے اگر کوئی پیچھے رہ جاتا تو ہمارے گھر میں کام کرنے والا ایک لڑکا جس کا نام محمد علی تھا وہ پیچھے رہ جانے والے کی سائیکل دھکیلتا۔وہ بھائی کو فرخ جی اور مجھ کنول جی کہتا تھا۔وہ ہم بہن بھائی کو ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے جوش دلاتا۔کچا صحن ٹائروں کے نشانوں سے گندا ہو جاتا اور اماں سے خوب ڈانٹ پڑتی۔ پھرا ماں باورچی خانے میں چلی جاتیں اور وہاں سے پراٹھوں اور دیسی انڈوں کے آملیٹ کی خوشبو پورے آنگن میں پھیل جاتی ۔ہماری بھوک بھی خوب چمک اٹھتی ۔ پھر ہم بھی ناشتے کے لیے وہاں پہنچ جاتے اور مزے لے لے کر پراٹھے اور انڈے کھاتے۔
ہمارے گھر کے ساتھ ہی نانی حیاتاں کا گھر تھا جو ہمارے گھر سے سانجھی دیوار اور اندرونی دروازے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔وہ بڑی شفیق ،بڑی سخی، بڑی ملنسار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ گاؤں کے سارے لوگوں کی خوب مدد کیا کرتی تھیں اور سب کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتیں۔ ہم نے ان سے قرآن مجید بھی پڑھا۔ کبھی کبھی ہماری گائے دودھ نہ دیتی تو امی وہاں لسی اور مکھن لینے کے لیے بھیجا کرتیں ۔انہوں نے اماں کو بیٹی بنایا ہوا تھا ۔
گاؤں کے لوگوں کے دکھ سانجھے تھے، سب ایک دوسرے کی خوب کام آتے۔ تکلیف میں ایک دوسرے کی مدد کو پہنچتے اور کبھی ایک دوسرے کو اکیلا نہ چھوڑ تے۔ اگرچہ ہر گھر میں ہینڈ پمب موجود تھا مگر کبھی کبھی گاؤں کی عورتیں تفریح کے لیے ہیں ندی پر کپڑے دھونے جایا کرتی تھیں ،ایسے میں ہم بھی ساتھ ہو لیتے ۔جس دوران خواتین کپڑے دھوتیں ہیں ہم ندی میں خوب نہاتے۔ ندی میں تیرنے اور نہانے کا لطف آج بھی مجھے یاد آتا ہے۔
جب کبھی شب برات آتی تو ایسے میں سرکنڈوں سے بنے ہوئے گٹھے سے تیار کیے جاتے اور اس کے سرے پر آگ لگا دی جاتی ۔سب بچے اپنا اپنا گٹھا اٹھا کر پورے گاؤں میں گھومتے اس کو سب لوگ شمع کہتے تھے ۔گاؤں کے بچوں کی سر خوشی کا عالم دیکھنے کے لائق ہوتا ۔ بچے خوب شور مچاتے اور نعرے لگاتےتھے۔ اس لیے اس کا نام بھی شمع والا جلوس تھا ۔
عید الفطر جب قریب آتی تو گاؤں میں سویاں بٹنے کا اہتمام ہوتا۔ ساری عورتیں جمع ہو جاتیں اور ہاتھ والی مشین سے سویاں تیار کی جاتیں۔ یہ سارا عمل کافی محنت طلب ہوتا تھا مگر ہم بچوں کو بہت لطف آتا تھا۔چارپائیوں پر اجلی چادریں بچھا دی جاتیں اور سویوں کے لچھے توڑ توڑ کر ان پر سوکھنے کے لیے ڈال دیے جاتے۔یہ نظارہ بڑا خوش کن ہوتا تھا۔ہم تصور ہی تصور میں عید پر انھیں کھانے کا لطف لینے لگتے۔
گھر کی پچھلی دیوار کے ساتھ ہی ہمارا پہلا سکول واقع تھا جہاں ہم بس کہانیوں کی کتاب لے کر استانی جی کے پاس پہنچ جاتے۔وہ ہمیں قاعدہ پڑھانے کے لیے منتیں ترلے کرتیں مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوتے۔سو انہوں نے جانے کتنی ہی بار وہی ایک کہانی پڑھ کر سنائی۔ آدھی چھٹی ہوتی تو خوب ہی کھیلتے۔تختی کو گاچی لگا کر دھونے اور لہرا لہرا کر سکھانے کا بھی مزا آتا۔
سردیوں گاؤں کے مضافات میں پہاڑوں سے خانہ بدوش پٹھان آکر اپنی جھونپڑیاں ڈال لیتے۔ان کے بچے اور عورتیں بڑے ہی سرخ سفید اور خوبصورت ہوتے تھے۔عورتوں کا روایتی لباس اور زیورات بہت دلکش ہوتے تھے۔عورتیں پانی بھرنے ندی پر جاتیں اور ایندھن کے لیے گاؤں بھر سے لکڑیاں بھی اکٹھی کرتیں۔یہ لوگ بڑے مہمان نواز ہوتے تھے۔ہم لوگ کبھی کبھی سیر کے بہانے ان کے گاؤں چلے جاتے تو وہ گڑ کے قہوے سے ہماری تواضع کرتے۔ بڑے سے توے پر عورتیں بڑی مہارت سے بڑی بڑی گول روٹیاں پکاتیں تو ہم حیرت سے تکا کرتے۔ غرض ان کے گاؤں کی سیر ہفت اقلیم سے کم نہ لگتی۔ ایسی ڈھیروں یادوں سے دل کا آنگن آراستہ ہے۔جانے کب وہ ہنستے کھیلتے دن خواب ہوئے اور ہم ہمیشہ کے لیے شہر لوٹ آئے۔
تبصرہ لکھیے