ادب محض الفاظ کی ترتیب نہیں، نہ ہی یہ کسی خاص ہیئت، اسلوب یا صنف میں مقید ایک فنّی مہارت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خوش بیان مقرر، ہر نکتہ سنج فلسفی، اور ہر ماہر قصہ گو ادیب کہلاتا، مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ادب وہ ہے جو آنکھ سے نہیں، دل اور روح سے محسوس کیا جائے۔ وہ جو محض عقل کو نہیں، بلکہ جذبات کو بھی متحرک کرے۔ وہ جو زبان و بیان کی صناعی سے آگے بڑھ کر قاری کے شعور میں کوئی لرزش، کوئی خلش، کوئی سوال پیدا کر دے۔ یہی ادب کا جوہر ہے؛ ایک ایسا لطیف لیکن گہرا تجربہ جو محسوس تو کیا جا سکتا ہے، مگر مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جوہر کیا ہے؟ کیا ادب زندگی کا عکس ہے، یا زندگی کا متبادل؟ کیا یہ محض تخیلاتی بازی گری ہے، یا حقیقت کا ایک ایسا پہلو جسے عام آنکھ دیکھ نہیں سکتی؟ یہ سوال ہمیشہ سے انسانی فکر کا حصہ رہے ہیں-
ادب کو اگر محض بیان کی صناعی سمجھا جائے تو یہ خطابت بن کر رہ جائے گا، اور اگر اسے کسی موضوع کی نزاکت یا ہیئت کی پابندی میں قید کیا جائے تو یہ محض ایک فنّی مہارت کہلائے گا۔ لیکن ادب درحقیقت وہ لمحہ ہے جہاں زبان ایک آلے (Instrument) سے بڑھ کر ایک تجربہ بن جاتی ہے، جہاں لفظ محض اپنے لغوی معانی میں نہیں، بلکہ اپنے پوشیدہ اور غیر محسوس اثرات میں بھی زندہ ہوتے ہیں۔ ادب کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے کہ یہ صرف وہ نہیں جو لکھا جاتا ہے، بلکہ وہ بھی ہے جو بین السطور محسوس کیا جاتا ہے۔ غالب کا ایک شعر، فیض کی ایک نظم، یا خلیل جبران کی ایک تحریر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مخصوص ذہنی، جذباتی اور سماجی پس منظر کی پیداوار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو اسلامی فکر اور استعمار مخالف جدوجہد کے تناظر میں سمجھنا زیادہ معنی خیز ہوگا، اور منٹو کے افسانے کو محض جنسیت یا تلخی نہیں، بلکہ تقسیم کے المیے کے آئینے میں دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ادب کی حقیقت ایک مسلسل تغیر پذیر تجربہ ہے؛ ہر قاری اسے ایک نئی نظر سے دیکھتا ہے، ہر نیا زمانہ اسے ایک نئے مفہوم میں دریافت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلاسیکی ادب ہمیشہ زندہ رہتا ہے، کیونکہ وہ محض اپنے عہد کی ترجمانی نہیں کرتا، بلکہ انسانی تجربے کی ایک آفاقی سچائی کو بیان کرتا ہے۔
ادب صرف معنی کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی تشکیل کا بھی ایک آلہ ہے۔ بیانیہ کسی بھی ادبی تخلیق کی بنیادی ساخت ہے، اور ہر دور میں اس کی مختلف اقسام سامنے آئی ہیں۔ جہاں کلاسیکی ادب میں بیانیہ زیادہ تر منطقی، مربوط، اور مقصدیت پر مبنی تھا، وہیں علامتی اور تجریدی ادب نے اس میں نئی جہات شامل کیں۔ مابعد جدیدیت نے ادب کی اس بنیادی ساخت پر سوالات اٹھائے۔ اگر کلاسیکی ادب ایک مربوط حقیقت پیش کرتا تھا، تو مابعد جدید ادب حقیقت کو بکھرا ہوا، متضاد، اور کثیر المعانی دکھاتا ہے۔ اس تناظر میں، جدید ادب ہمیں کسی حتمی نتیجے تک نہیں لے جاتا، بلکہ ہمیں "نارسائی" اور "تشنگی" میں چھوڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بورخیس اور مارکیز وغیرہ جیسے ادیبوں کی تحریریں کسی ایک معانی تک محدود نہیں بلکہ ایک لا متناہی تاویل کا دروازہ کھولتی ہیں۔
ڈیجیٹل انقلاب نے جہاں علم و ادب کی ترسیل کو وسیع کیا ہے، وہیں اس نے سوالات بھی جنم دیے ہیں؛ کیا ڈیجیٹل ذرائع نے ادب کو پہلے سے زیادہ عوامی بنا دیا ہے؟ کیا تحریر کے بجائے تصویری اور صوتی بیانیہ (Multimodal Narrative) زیادہ غالب ہو جائے گا؟ مصنوعی ذہانت کا تخلیقی ادب کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ غور کریں تو آج ادب صرف کاغذ تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا، بلاگز، اور ڈیجیٹل آرکائیوز کے ذریعے دنیا میں پھیل چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت اب ایسی نظمیں، کہانیاں، اور حتیٰ کہ ناول بھی لکھ سکتی ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اے آئی تخلیق کے اس "جوہر" کو پیدا کر سکتی ہے جو ایک انسانی مصنف کی داخلی کشمکش اور شعوری تجربے سے جنم لیتا ہے؟
ادب کی اصل طاقت اس کی "درونی کشمکش" میں مضمر ہے۔ وہ جو خاموشی سے محسوس کیا جاتا ہے مگر بیان نہیں ہو سکتا، وہ جو سینے میں ایک خلش کی طرح چبھتا ہے مگر زبان پر نہیں آتا، ادب کی کوکھ میں پلنے والی یہ وہ چنگاری ہے جو ایک دن الفاظ کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کی سب سے بڑی تخلیقات اکثر کسی نہ کسی داخلی یا اجتماعی بحران کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ دوستوئیفسکی کے ناول انسانی وجود کی اس کشمکش کا اظہار ہیں جو مذہب، اخلاقیات، اور آزادی کی جدلیات میں قید ہے۔ کامیو کے افکار ادب کو بے معنویت (Absurdism) کے تناظر میں دیکھتے ہیں، جہاں زندگی اور موت، حقیقت اور دھوکہ، امید اور مایوسی کی سرحدیں دھندلا جاتی ہیں۔ اردو ادب میں قرۃ العین حیدر کی تحریریں اسی نارسائی کی زبان ہیں؛ وہ تاریخ اور وقت کے جبر کو صرف بیان نہیں کرتیں، بلکہ اس کے تحت بہنے والے دکھ کو قاری کی روح میں اتار دیتی ہیں۔
ہر بڑا ادیب اپنے فن میں ایک "تشنگی" چھوڑتا ہے، ایک ایسا خلا جسے قاری خود بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی ادب کا جوہر ہے؛ ایک ایسا تجربہ جو مکمل نہیں ہوتا، بلکہ قاری کے ساتھ مل کر مکمل ہوتا ہے۔ میر کا ایک مصرعہ ہو یا شیکسپیئر کی کوئی نظم، اس میں ہمیشہ کچھ ایسا باقی رہ جاتا ہے جو قاری کے شعور میں دیر تک گونجتا رہتا ہے، جیسے کوئی بچھڑی ہوئی آواز جو خاموشی میں بھی موجود ہو۔ ادب دراصل اسی ناتمامیت (Incompleteness) کا جشن ہے۔ یہ کسی ایسے لمحے کی گرفت ہے جو مکمل طور پر بیان نہیں ہو سکتا، کسی ایسے احساس کی جھلک ہے جو ہمیشہ دھند میں لپٹا رہتا ہے۔ ہر بڑا ادیب اسی نارسائی کی تلاش میں لکھتا ہے، اور ہر بڑا قاری اسی نامعلوم سچائی کو پانے کی جستجو میں ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔
ادب محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی حقیقت ہے۔ یہ فرد اور معاشرے کے درمیان وہ کڑی ہے جو وقت، زبان، اور جغرافیے کی حدود کو عبور کر کے ہر دور کے قاری کو ایک نئے زاویے سے مخاطب کرتی ہے۔ اس کا جوہر کسی ایک تعریف میں قید نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہر دور، ہر نسل، ہر قاری اسے ایک نئے مفہوم میں دریافت کرتا ہے۔ یہ جوہر وہی ہے جو میر کی غزل میں میں جھلکتا ہے، جو منٹو کی تحریر میں سماج کے زخموں سے عیاں ہوتا ہے، جو فیض کی نظم میں امید اور احتجاج کے درمیان جھولتا ہے-
چنانچہ، ادب وہ نہیں جو محض لکھا جائے، بلکہ وہ ہے جو پڑھنے والے کے دل میں نئی کیفیت، نئی سوچ، اور نئی بے چینی پیدا کرے۔ ادب کی اصل قوت یہی ہے؛ ایک ایسا تخلیقی لمحہ جو ہر ذہن میں ایک نئے رنگ میں ظہور کرتا ہے، ایک ایسا سچ جسے بیان نہیں کیا جا سکتا، مگر محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے