بڑے میاں نے زندگی بھر حق حلال کمایا۔ بچوں کو اعلی تعلیم دلائ۔ مرنے سے پہلے بڑے صاحب بیٹوں کو وصیت کرگئے کہ ان کی قبر پکی نہ کی جائے کچی رکھی جائے۔ ان کے تین بیٹے شادی شدہ ،ایک امریکہ ایک کینیڈا ایک انگلینڈ، میں بیوی بچوں کے ساتھ ویل سیٹلڈ تھے۔ باپ کی موت پر پاکستان آئے۔ بیٹوں نے باپ کی تجہیز و تکفین میں کسی طرح کی کوئ کمی نہ آنے دی۔ بعد نماز عصر مسجد میں نماز جنازہ کے بعد جب میت کا گہوارہ مختلف کاندھوں پر ہوتا ہوا کلمہ شھادت کی گونج میں قبرستان پہنچا۔ قبر قبرستان میں کافی اندر جا کر تھی۔ چاروں طرف بکھری قبروں کے درمیان اونچے نیچے راستوں سے ہوتے ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر چلتے قبروں کو کودتے پھلانگتے ادھر سے ھٹنا اُدھر سے بچنا۔ دائیں مڑنا ہے، بائیں جانا ہے کی صداؤں کے درمیان جنازہ بالآخر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ ہی گیا۔ چاروں طرف بکھری سینکڑوں قبروں کے کتبوں پر لکھے بھانت بھانت کے نام، فلاں بن فلاں، فلاں ولد فلاں، فلاں زوجہ فلاں، فلاں بنت فلاں کو پڑھتے ہوئے قلب کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ دل کو لاکھ یقین دلانے کے باوجود اعتبار نہیں ہوتا کہ یہ بھی کبھی ہمارے جیسے جیتے جاگتے اس زمین پر چلتے پھرتے انسان تھے۔
قبرستان کے خاموش ویران ماحول میں لوگوں کی آمد سے کچھ دیر کے لئے زندگی کی چہل پہل ہوگئی۔ ڈولی کو تازہ کھدی قبر کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ قبر چھ فٹ گہری تھی۔ دو جوان میت کو لحد میں اتارنے کے لئے قبر میں اتر گئے۔ ڈولی سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت والی سبز چادر اور جالی ھٹا کر گہوارے کی سائڈ کو کھول دیا گیا۔ کافور اور عطر دربار کی تیز مہک میں بسے کفن میں لپٹی میت قبر میں اتاردی گئی۔ کفن بجائے سفید کے کچھ مٹیالا سا تھا۔ بڑے صاحب بیس بائیں سال پہلے حج کرنے گئے تھے تو اپنا کفن آب زم زم میں بھگو کر لے آئے تھے۔ کفن کو احتیاط سے پلاسٹک کی موٹی مومی تھیلی میں پیک کرکے ایک صندوق میں محفوظ رکھ دیا گیا تھا۔ بیس بائیس سال کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے کفن سفید سے مٹیالا سا ہوگیا تھا لیکن یہ بھی بڑی بات ہے کہ بڑے صاحب کو یہ کفن نصیب ہوا!
میت کو قبر میں سیدھا لِٹانے کے بعد ھاتھ پاؤں کی پوزیشن درست کرکے کفن کے بند کھول دئے گئے۔ چہرے سے کفن ھٹا دیا گیا اور ایک صاحب نے باآواز بلند اعلان کیا کہ جس نے میت کا آخری دیدار کرنا ہے کرلے۔ لوگ قبر کے کناروں پر کھڑے گردن آگے بڑھا کر قدرے جُھک کر اندر جھانک کر میت کے چہرے کا دیدار کرنے لگے۔ چہرے کے چاروں طرف سفید کفن کے ھالے میں میت کا چہرہ قدرے پھولا سا سوجا ہوا لیکن دھُلا دُھلایا صاف ستھرا پُرسکون تھا۔ غُسّال نے ناک میں روئی ٹھونس دی تھی۔ باپ کا چہرہ دیکھ کر ایک بار پھر بیٹوں کی گُھٹی گُھٹی سسکیاں اور آہ بکا گونجنے لگی۔ تینوں بھائی گلے مل کر روتے ہوئے ایک دوسرے کو دلاسہ دینے لگے۔ دوست اقارب ان کو کمر تھپک کر اور گلے لگا کر صبر کی تلقین کرتے رہے۔ آخری دیدار کے بعد چہرہ دوبارہ کفن سے ڈھک دیا گیا اور میت کا چہرہ قبلہ رخ موڑ دیا گیا۔ اس کے بعد قبر کے اندر کھڑے یہ تمام خدمات انجام دینے والے دو افراد باہر کھڑے لوگوں کے ھاتھوں کے سہارے قبر سے باہر نکل آئے۔ قبر کے اندر میت اور دیواروں پر عرق گلاب اور کیوڑے کی بوتلیں چھڑک دی گئیں۔ گورکن نے جلدی جلدی کچی مٹی کی ڈھیری میں پانی کا ڈبہ الٹ کر گارا بنایا۔ قبر کے چاروں کناروں پر گارے کی تہہ لگائی اور سیمنٹ کے سلیب جما کر قبر کو پاٹ دیا۔ سلیب کی درمیانی درزوں کو بھی گارے سے لیپ دیا اور پھر تمام عزیز رشتہ دار باری باری ان سیمنٹ کے تختوں پر تین تین مٹھی مٹی ڈال کر میت کو مٹی دینے لگے۔ تدفین کی اس آخری ذمہ داری سے سبکدوش ہو کر ایک سائڈ میں پانی کے ڈول لئے کھڑے لڑکوں سے اپنے ھاتھوں پر پانی ڈلوا کر ھاتھ دھونے لگے۔ گورکن پھرتی سے بیلچے کی مدد سے بقایا مٹی کو قبر کے سلیبز پر ڈھیر کرنے لگا۔ زرا سی دیر میں سلیبز مٹی کے ڈھیر میں چھپ گئے۔ چاروں طرف سے ٹھوک پیٹ کر مٹی کو ہموار کرکے اونٹ کے کوہان نما قبر بنادی گئی۔ سرھانے کی نشاندہی کے لئے ایک پتھر لگا دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ تازہ کھدی کچی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیل گئی۔ قبر پر دوبارہ عرق گلاب اور کیوڑے کی بوتلوں کا چھڑکاؤ کردیا گیا۔ ساتھ لائے گئے پلاسٹک کے تھیلوں سے تازہ گلابوں کی چادریں نکال کر قبر کو ان سے ڈھک دیا ۔ کچھ تھیلوں میں سے گلاب کی ڈھیر ساری پتیاں نکال کر میت کی قبر اور آس پاس کی قبروں پر بھی بکھیر دی گئیں کہ پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اگر بتیوں کے پیکٹ سے اگر بتیاں نکال کر پورے بنڈل کو ماچس سے سُلگا کر ھاتھ کے دو تین جھٹکوں سے شعلے کو بجھا کر اگر بتیاں میت کے سرھانے مٹی میں اڑس دی گئیں۔ چند اگر بتیاں آس پاس کی قبروں کے سرھانے بھی لگادی گئیں۔ یوں مہد سے لحد تک کا سفر تمام ہوا۔ ان دو حقیقتوں کا درمیانی وقفہ شاید ایک خواب یا سراب تھا۔
چاروں طرف موجود بے رونق خشک قبروں کے درمیان یہ گلابوں سے ڈھکی تازہ گیلی مٹی والی قبر اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ شہر خموشاں میں ایک نیا مکین آیا ہے۔ کچی مٹی کی سوندھی خوشبو، تازہ گلاب ، کیوڑہ اور میٹرو ملن اگر بتیوں کے لہراتے بل کھاتے گاڑھی خوشبو والے دھویں کے مرغولوں نے مل جُل کر ماحول کو ایک عجیب سے روحانی ٹچ کے ساتھ مزید بوجھل اور سوگوار بنادیا تھا۔ یہ موت کی خوشبو ہوتی ہے جو صرف قبرستان میں میت کی تدفین کے دوران ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایک باریش بزرگ نے قبر کے سرھانے اپنی انگشت شھادت گڑا کر کوئی دعا پڑھی۔ تمام لوگ قبر کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ اجتماعی فاتحہ و دعائے مغفرت پڑھی گئی۔ مولانا صاحب کافی دیر تک گلوگیر آواز میں مردے کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کی معافی اور مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ اور پھر زور دار آواز میں درود شریف کے بعد آمین کے ساتھ سب اپنے اپنے چہروں پر ھاتھ پھیرتے ہوئے منتشر ہونے لگے۔ اس سارے عمل کے دوران رہ رہ کر بیٹوں کی سسکیاں اور آہیں گونجتی رہیں۔ چلتے چلتے آخری بار بیٹے بے اختیار باپ کی قبر کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ سب سے چھوٹا بیٹا تیمور باپ کی قبر کے سرہانے مٹی پر ڈھے گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر روتا ھائے ابا جان، ھائے اباجان پکارتا تھا، اٹھنے کو تیار نہ تھا۔ کچھ دوستوں نے اسے سنبھالا اور یہ لوگ نمدیدہ، جھکے سر اور بوجھل قدموں سے قبرستان کے گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ جس وقت یہ لوگ قبرستان سے نکل کر واپسی کے لئے اپنی اپنی سواریوں اور میت بس میں بیٹھ رہے تھے اذان مغرب ہورہی تھی۔ ملگجے دھندلکے میں دور کسی مسجد سے اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ قبرستان کے بیر کیکر اور نیم کے درختوں پر آشیانہ بنائے چڑیوں کی اپنے اپنے گھونسلوں میں واپسی پر ان کی اجتماعی تیز چہچہاہٹ گونج رہی تھی۔ تیزی سے پھیلتے گہرے سائے اور اگربتیوں کا کثیف دھواں ماحول کو مزید تاریک، ڈراؤنا اور پُراسرار بنا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں یہ نئ قبر بھی شہر خموشاں پر چھاتی رات کی سیاہی میں ڈوبتی چلی گئی۔
باپ کی تازہ تازہ موت کے صدمے سے بے حال، وصیت کے باوجود صاحب ثروت بیٹوں نے گوارا نہ کیا کہ باپ کی قبر کچی رہ جائے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کی قبر کچی ننگی چھوڑ گئے! اگلے ہی روز راج مزدور بلوا کر قبر پکی کروائ۔ اس پر سبز رنگ کے ٹائل لگوائے۔ سب سے چھوٹے بیٹے تیمور نے بڑے پیار سے سرِلوح “پیارے ابا جان” والا سنگ مرمر کا کتبہ بنوایا۔ قبر کے چاروں طرف اور درمیانی کچی جگہ سدا بہار اور گل دوپہریا کے پودے لگوائے۔ قبر پر چار چھ فٹ اونچے فولادی پائپوں پر آہنی چادر کا ھٹ نما شیڈ بنوا دیا گیا کہ ابا جان کی قبر پر دھوپ نہ پڑے۔ ایک مالی معاوضے پر مقرر کیا کہ پودوں کی دیکھ بھال اور جھاڑو بہارو کا انتظام رکھے۔ ایک قاری صاحب کو معقول تنخواہ پر یہ فرض سونپا کہ روزانہ ایک گھنٹہ تربت سرہانے قران پاک کی تلاوت کر دیا کریں۔ چالیسویں تک بیٹے روزانہ قبر پر حاضری دیتے رہے۔ پاکستان میں ان کا کوئی اور نہ تھا۔ چالیسویں کے بعد عجلت میں آبائی گھر فروخت کرکے بھائیوں نے اپنا اپنا حصہ کھیسے میں ڈالا اور اپنے اپنے دیس سدھارے۔ جاتے جاتے اپنے ایک دوست کو یہ ذمہ داری سونپ گئے کہ ہر ماہ قاری اور مالی کا معاوضہ بھیج دیا کریں گے وہ ان کا حساب چکتا دیا کرے گا۔
دو سال یونہی گزر گئے۔ انگلینڈ والا بڑا بیٹا جو یہ رقم بھیجا کرتا تھا اس کی نوکری کو کچھ مسئلہ ہوا۔ کچھ تنگی ہونے لگی تو بہو کو سب سے پہلے سسر کی قبر کے لئے بھیجی جانے والی رقم بھاری لگنے لگی۔ اس نے شوہر سے کہا کہ سارا ٹھیکہ آپ نے ہی لے رکھا ہے۔ دوسروں کا بھی فرض ہے۔ سہیل بھائی سے کہئے وہ بھیج دیا کریں گے۔ شوہر نے کینیڈا والے بھائ کو فون کرکے کہہ دیا کہ میں نے دوسال پابندی سے اباجان کی قبر کی دیکھ بھال کے لئے رقم بھیجی، اب اگلے ماہ سے تم ابا کی قبر کے انتظامات کے پیسے بھیجنا۔ کینیڈا والا بھائی تین سال پیسے بھیجتا رہا۔ بیوی سے کچھ ان بن ہوئی۔ کورٹ کچہری تک نوبت آئی۔ گھر ٹوٹ گیا۔ بیوی بچے لے کر علیحدہ ہوگئی اور ان کو عدالت کے فیصلے کے مطابق بھاری خرچہ ہر ماہ دینا پڑ گیا۔ اس ٹینشن میں امریکہ میں چھوٹے بھائی کو فون کرکے باپ کی قبر کی دیکھ بھال کے پیسے بھیجنے کی ہدایت کی۔
چھوٹے بھائی نے ابھی ایک سال ہی پیسے بھیجے تھے کہ پاکستان میں ان کے سسر کا انتقال ہوگیا۔ بیوی کی والدہ بیوہ ہوگئیں۔ ساس کے ماہانہ خرچے کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ انہوں نے زرا ھچر مچر کی کہ سالے بھی یہ ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں تو ان سے آدھی عمر کی ھارورڈ بزنس اسکول کی گریجویٹ نازک اندام بیوی نے مسکارا زدہ پلکیں جھپکتے اور باب کٹ تراشیدہ زلفوں کی آنکھ پر آئی لٹ کو جھٹکتے لاڈ سے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا،” تیمور ڈارلنگ یو جسٹ ڈونٹ وری نا۔ یہ جو ہر منتھ ابا جان کی گریو کی مینٹیننس کے لئے سینڈ کرتے ہو ان میں کچھ ملا کر ماما کو بھیج دیا کریں گے۔ ابا جان کی گریو ( grave) پر اتنی منی ویسٹ ( waste) کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یو نو کسی الائیو پرسن کے کام آجائے تو اِٹ از مچ بیٹر نا۔“
ڈارک اسپینش گرے اسکن ٹائٹ ریگ اینڈ بون( Rag & Bone) کی گھٹنوں اور رانوں سے پھٹی ( torn jeans) جینز جس سے ان کی چکنی مخملی گلابی جلد جھلک رہی تھی اور لی کوپر (Lee Cooper) کے اونچے سے سلیولیس چُست بلاؤز نما بلیک ٹاپ میں ملبوس ، دونوں ہاتھوں کے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ لمبے اور مرمریں پاؤں کے پیڈی کیور شدہ ناخنوں پر چمکتی ڈیبرا لپمن( Deborah Lippmann) کی چاکلیٹی پنک کیوٹیکس لگائے بیوی نے ان کو کچھ دینی احکامات اور حقوق العباد سے متعلق ایک دو احادیث بھی کوٹ کیں جو ہر ماہ شکاگو کے اسلامک سینٹر میں زبردستی شوہر کے ساتھ حاضری کے موقع پر مولانا صاحب کے خطبے سے ان کو یاد رہ گئی تھیں۔ ” میں آپ کے لئے اچھی سی کافی بنا کر لاتی ہوں۔ جسٹ ریلکس! “ کہہ کر وہ کمر لچکاتی کچن میں چلی گئیں۔
ابا جان کے انتقال کو ویسے بھی چھ سات سال گزر چکے تھے اور باپ کی موت کے صدمے کا گھاؤ مندمل ہوکر محض ایک دھندلی سی یاد ہی رہ گیا تھا۔ وکٹوریا سیکرٹ بمب شیل( victoria secret bombshell) کی مسحورکُن سیکسی خوشبو سے مہکتی لچکتی نوجوان ماڈرن بیوی کی اسلامی ٹچ سے تڑکے شدہ بات تیمور صاحب کی سمجھ میں فورا آگئی۔ وہ آسُودگی سے ریکلائنر کی پُشت سے سر ٹِکا کر آنکھیں موندے گرما گرم کافی اور اس سے بھی زیادہ ھاٹ بیوی کا انتظار کرنے لگے۔ شاید موجودہ دور کے اسی گلیمر کی مصنوعی چکاچوند اور بے شمار رنگینیوں و آسائشات نے انسان کو موت اور آخرت جیسی حقیقت سے بھی غافل کردیا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انسان کہتا ہے
ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دو
بھری برسات میں پی لینے دو
اگلے ماہ سے پیسے ساس کو جانے لگے اور یوں بڑے چاؤ سے “پیارے اباجان” لکھوائے گئے کتبے والی قبر کے مالی اور قاری کے پیسوں کا قصہ تمام ہوا۔ کسی بھائی نے پلٹ کر دوسرے سے نہ پوچھا کہ مالی اور قاری کو پیسے جارہے ہیں کہ نہیں؟ سب جان بوجھ کر انجان بنے تھے۔ کیونکہ پوچھنے پر جو بولے وہی کُنڈا کھولے والا معاملہ گلے پڑ سکتا تھا۔
ادھر قاری اور مالی معاوضہ نہ ملنے پر چلتے بنے۔ اب سب سے پہلے تو اس لاوارث قبر پر لگے پھول پودے سوکھنا شروع ہوئے اور خشک جھاڑ جھنکاڑ بن گئے۔ دو تین سال کی تیز دھوپ، سخت سردی اور بارشوں سے فولای چھت زنگ لگ کر جھولنے لگی اور پھر ڈھے گئی۔ ھیروئنچی فولادی پائپ بھی لے اُڑے۔ قبر بنیادوں سے زمین میں دھنسی اور ٹائل ڈھیلا ہو کر اُکھڑنے لگا۔ آس پاس کے دیہات کے کچھ بچے صاف ستھرے چکنے ٹائلز اٹھا کر لے گئے۔ اگلے برس ایسی دھواں دھار طوفانی بارشیں ہوئیں کہ قبرستان زیر آب آگیا۔ قبریں پانی میں ڈوب گئیں۔ بڑے صاحب کی قبر کا کتبہ اور سیمنٹ کے سلیب بھی بچے کھچے ٹائلوں سمیت قبر میں جا دھنسے۔ قبر بس ایک گڑھا رہ گئی جس میں پانی بھر گیا۔ پانی خشک ہوا تو اس گڑھے میں کچھ خدا ترس لوگوں نے مٹی بھر کر اوپر کانٹے دار جھاڑیاں رکھ دیں۔ یوں اس مرد مومن کی آخری خواہش بھی پوری ہوئی۔ رہے نام اللہ کا !
گورکن نے جب دو تین سال دیکھا کہ یہ گڑھا لاوارث ہے کوئی اس پر فاتحہ پڑھنے نہیں آتا۔ ایک نئی میت کی تدفین کے لئے قبر کے پیسے کھرے کرکے انٹی میں دبائے۔ گڑھے سے ٹوٹے پھوٹے ٹائلز کتبہ وغیرہ نکال کر قبرستان کے ایک دور دراز گوشے میں گھنے کیکروں کے درمیان ٹھکانے لگا دئے جہاں ایسے دوسرے درجنوں ٹوٹے پھوٹے کتبے اور پتھر ٹائل پہلے سے ڈھیر تھے۔ قبر میں بچی کھچی باقیات کو اکٹھا کرکے ایک پوٹلی سی بنا کر مزید گہرائی میں گاڑھ کر اوپر سے مٹی دبا کر سخت اور ہموار کردی اور یہ قبر ایک نئے مکین کی آخری آرام گاہ بننے کے لئے تیار ہو گئی۔ لیکن اس بار اس قبر کی گہرائی بمشکل پانچ فٹ ہی رہ گئی تھی۔ نئی میت کے لواحقین بھی جانتے تھے کہ گنجائش ختم ہونے کے باوجود پانچ سال سے نئی میتوں کی تدفین کے لئے مکمل بند اس قبرستان میں ان ڈھیر ساری گنجان قبروں کے درمیان جہاں پیدل چلنے کی جگہ بھی بمشکل بن پاتی ہے یہ سات بائی چار فٹ کی صاف ستھری قبر کی جگہ اچانک کیسے نکل آئی! لیکن کچھ معاملات پر مصلحتا”جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلینا ہی بہتر اور باسہولت ہوتا ہے۔ یہ ایک خاموش سمجھوتہ ہوتا ہے جو ہر ناجائز کام کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کے لئے ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں رائج ہے۔ دو دن بعد اس قبر کو سفید ماربل سے ڈھک کر نئے مکین کے نام کی سنگ مر مر کی لوح نصب کردی گئی جس پر کلمہ طیبہ کے نیچے دو گلابوں کے درمیان “🌷 پیاری امی🌷” کندہ کروایا گیا تھا۔ قبر پر فاتحہ کو آئے کچھ غم و صدمے سے نڈھال افراد گورکن سے کسی مالی اور قاری کا پوچھ رہے تھے۔
تبصرہ لکھیے