دل کی فریاد سناؤں تو چمن جل جائے
رو بہ رو اشک بہاؤں تو چمن جل جائے
کاش اک بار لبوں پر ترا نام آ جائے
میں ترا نام پکاروں تو چمن جل جائے
زندگی تیری تمنا میں بسر کرتا ہوں
تم سے یہ راز چھپاؤں تو چمن جل جائے
تیری تصویر کو آنکھوں میں سجا رکھا ہے
جوں ہی دنیا کو دکھاؤں تو چمن جل جائے
زندگی خواب کی ویرانوں میں خوابیدہ ہے
خواب تعبیر بناؤں تو چمن جل جائے
ان کی باتوں کی فسوں کاری سے تازہ دم ہوں
ان کی باتیں جو بھلاؤں تو چمن جل جائے
ہجر کی راتوں میں وہ آس کا اک تارا ہے
میں سہارا یہ گنواؤں تو چمن جل جائے
میری آہوں پہ بہت دھول جمی ہوئی ہے
اب اگر دھول ہٹاؤں تو چمن جل جائے
ان کے جلووں کا سحر دل میں بسا رکھا ہے
ان کے جلوے جو دکھاؤں تو چمن جل جائے
اُن کی زلفوں کی گھٹا شام میں یوں ڈھلتی ہے
ان کی زلفیں جو ہلاؤں تو چمن جل جائے
پھول چہرے کا نکھار آج بھی تابندہ ہے
چاند سا حسن دکھاؤں تو چمن جل جائے
میری تقدیر میں بربادی ہی بربادی ہے
ایک بربادی بتاؤں تو چمن جل جائے
ہر طرف ظلم و ستم چھایا ہوا ہے یارو!
آج بھی گیت نہ گاؤں تو چمن جل جائے
تیری یادوں کے بغیر کیسے رہوں دنیا میں
اب بھی ساقی نہ بلاؤں تو چمن جل جائے
تبصرہ لکھیے