ہوم << ٹرمپ کا کردار؛ عالمی سیاست کی نئی حقیقت - کاشف حسن

ٹرمپ کا کردار؛ عالمی سیاست کی نئی حقیقت - کاشف حسن

ایک وقت تھا جب مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کا ایسا دبدبہ تھا کہ ان کے ایک اشارے پر دنیا لرز اٹھتی تھی۔ امریکی صدر کا ہر بیان، چاہے کھلا ہو یا پوشیدہ، عالمی سیاست کی سمت متعین کرتا تھا۔ یورپین اقوام بھی اسی بالادستی کا حصہ تھیں، جہاں سفارتی فیصلے پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے تھے۔ مگر آج، عالمی سیاست کا منظرنامہ بالکل بدل چکا ہے.

ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے عالمی سیاست میں وہ مقام کھو دیا ہے جو دہائیوں سے اس کی پہچان تھا۔ "فرسٹ امریکہ" کے نعرے کے تحت اس نے نیٹو اتحادیوں کو ناراض کیا، عالمی معاہدوں سے دستبرداری اختیار کی، اور چین، روس، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات میں شدید عدم توازن پیدا کیا۔ امریکی خارجہ پالیسی جو پہلے دانشمندی اور حکمت عملی کی بنیاد پر چلتی تھی، ٹرمپ کی غیر متوقع اور غیر سفارتی حرکات کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے ۔

یہ وہی مغرب تھا جو کسی بھی بحران میں طاقتور کردار ادا کرتا تھا، لیکن آج یوکرین جنگ میں بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ روس نے سفارتی اور عسکری حکمت عملی سے مغربی اقوام کو شطرنج کے مہروں کی طرح قابو میں کر رکھا یے ، اور مغربی ممالک اس جنگ میں واضح کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے .

روس نے انتہائی چالاکی سے مغربی ممالک کی اندرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا۔ اسے معلوم تھا کہ امریکی سیاست میں اختلافات بڑھ رہے ہیں اور یورپ اندرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے اپنے مفادات کو بغیر کسی بڑے چیلنج کے آگے بڑھایا، جبکہ مغرب محض بیانات اور پابندیوں تک محدود رہا۔ مغربی قیادت جسے کبھی انتہائی ذہین سمجھا جاتا تھا، آج "یوزفل اسٹوپڈ" یعنی "کارآمد احمقوں" کی بس ایک ٹیم ہے جسے روس استعمال کرکے پھینک دے گا.

ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی صورت میں امریکہ مزید انتشار کا شکار ہو رہا ہے ۔ ان کی قوم پرستی پر مبنی پالیسی، اتحادیوں سے کشیدہ تعلقات اور داخلی خلفشار امریکہ کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔

ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ دنیا بھر کی دائیں بازو کی جماعتوں اور بڑے رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں تو وہ ایک نیا عالمی نظام تشکیل دے سکتے ہیں، جہاں لبرل ازم کو مکمل طور پر حاشیے پر دھکیل دیا جائے۔ لیکن یہ محض ایک تصوراتی خواب ہے جس کا عملی سیاست میں پورا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں آپس میں مکمل ہم آہنگی نہیں رکھتیں۔ ہر ملک میں ان کا مزاج، ایجنڈا اور طریقہ کار الگ ہے۔ جو چیز ٹرمپ کے امریکہ میں دائیں بازو کی سیاست کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے، وہی یورپ، مشرق وسطیٰ یا ایشیا کے دائیں بازو کے گروہوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس کے علاوہ، ان جماعتوں میں قیادت کی کشمکش بھی ہے۔ ہر بڑا لیڈر خود کو مرکز میں رکھ کر فیصلے کرنا چاہتا ہے، جس سے ایسا کوئی اتحاد ب بے حد مشکل ہے۔

ٹرمپ اپنے بیانات، نعروں اور میڈیا پر اپنی موجودگی کے ذریعے ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں، مگر عالمی سیاست میں صرف بیانیہ کافی نہیں ہوتا۔ نیٹو، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے اب بھی لبرل پالیسیوں کے محافظ ہیں، اور انہیں کمزور کرنا اتنا آسان نہیں جتنا ٹرمپ اور ان کے اتحادی سمجھ رہے ہیں۔ خاص طور پر یورپ میں دائیں بازو کے رہنما ٹرمپ کی پالیسیوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی نہیں رکھتے، اور بہت سے تو ان کے انداز سیاست کو نقصان دہ بھی سمجھتے ہیں۔

پھر معیشت کا مسئلہ بھی ہے۔ عالمی معیشت کے پیچیدہ نظام کو دائیں بازو کے سخت گیر نظریات کے مطابق ڈھالنا مشکل ہے۔ چین، مشرق وسطیٰ اور دیگر معاشی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کسی بھی عالمی لیڈر کے لیے سب سے اہم چیلنج ہوتے ہیں، اور ٹرمپ کی "فرسٹ امریکہ" والی پالیسی خود ان کے اپنے نظریے کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے یوکرین کی بھرپور حمایت کے دعوے کیے، لیکن حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ حمایت محض وقتی مصلحت تھی۔ یوکرینی صدر زیلنسکی، جو جنگ بندی کی راہ نکالنا چاہتے ہیں، آج اسی امریکہ کے دروازے پر بے توقیر ہو رہے ہیں، جس نے کبھی انہیں ہتھیار، امداد اور غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا۔ صورتحال یہاں تک آ گئی ہے کہ واشنگٹن میں سفارتی پروٹوکول کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے انہیں ذلت آمیز برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے جو عالمی سیاست میں سر اٹھا رہی ہے۔ اتحادیوں کی قیمت اب نفع و نقصان کی بنیاد پر طے ہو رہی ہے، اور یوکرین اس تلخ حقیقت کا تازہ ترین شکار بن چکا ہے۔ یہ واضح پیغام ہے کہ دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں پرانے اتحادی محض مہرے بن کر رہ گئے ہیں۔