وہی شام تھی، وہی تنہائی، وہی اُداسی جو ہر روز اس صحن میں چھا جاتی تھی۔ پرانی لکڑی کی کرسی پر بیٹھا بوڑھا باپ، اپنے کانپتے ہاتھوں میں چائے کا کپ تھامے، دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں دھندلا چکی تھیں، مگر انتظار کا دیا اب بھی جل رہا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں برگد کا وہی پرانا درخت کھڑا تھا، جس کے سائے میں کبھی اس کا بیٹا کھیلا کرتا تھا۔ وہ درخت، جو کبھی خوشی کے لمحوں کا گواہ تھا، اب اس کی تنہائی کا ساتھی بن چکا تھا۔
ہوا میں خنکی تھی۔ شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے، اور سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا، جیسے کسی بوڑھے کی زندگی کا آخری لمحہ قریب آ رہا ہو۔ وہ اپنی جھریوں بھرے ہاتھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ یہ وہی ہاتھ تھے جو کبھی بیٹے کی معصوم انگلیاں تھام کر اسے چلنا سکھاتے تھے۔ وہی ہاتھ جو اُس کے گرنے پر سہارا دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ لیکن اب یہ ہاتھ خالی تھے، ویران تھے، بے جان ہو چکے تھے۔ "ابا، میں آپ کا بڑا بیٹا ہوں نا؟" یہی تو وہ سوال تھا جو کبھی اُس کا بیٹا ہنستے ہوئے پوچھا کرتا تھا۔ وہ خود ہی جواب دے دیتا، "میں آپ کا سب سے پیارا بیٹا ہوں، نا؟" اور بوڑھا باپ اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا، "ہاں بیٹا، تم میری زندگی ہو، میرا فخر ہو۔" لیکن آج؟ آج وہی فخر، وہی بیٹا، اُس کا حال تک پوچھنے نہیں آتا تھا۔
وقت بدل چکا تھا۔ زندگی کی مصروفیات، شہر کی چکاچوند، دنیا کی بے رحمی، سب کچھ بیٹے کو اُس کے باپ سے بہت دور لے گئے تھے۔ وہ جو ہر وقت باپ کے آس پاس گھوما کرتا تھا، جو ذرا سی دیر نہ دیکھے تو دوڑ کر آ جاتا تھا، آج شاید اُسے یاد بھی نہیں کہ کہیں ایک بوڑھا، جس نے اپنا سب کچھ اس کے لیے قربان کر دیا تھا، اُس کا انتظار کر رہا ہے۔ بوڑھا باپ دروازے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ ایک عرصہ گزر گیا تھا، لیکن بیٹے کی وہ پرانی مسکراہٹ، وہ شوخ آواز، وہ شرارتی آنکھیں، وہ سب یادیں اس کے دل میں تازہ تھیں۔
وقت کے ساتھ ہر چیز بدل گئی، لیکن اس کا انتظار نہ بدلا، اس کی امید نہ بدلی۔ کتنی شامیں ایسی ہی گزری تھیں، کتنی راتیں اس امید میں جاگی تھیں کہ شاید کل بیٹا آئے گا، شاید وہ دروازے پر دستک دے گا، شاید وہ ایک بار سینے سے لگا کر کہے گا، ***"ابا، آپ کیسے ہیں؟ میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں۔"*** لیکن ہر بار یہی شام، یہی اندھیرا، یہی خاموشی، اور یہی ٹوٹا ہوا دل اس کا مقدر بنتا رہا۔ کبھی کبھی تو وہ سوچتا کہ کہیں وہ خود ہی تو بوجھ نہیں بن گیا؟ کہیں وہی تو قصوروار نہیں؟ شاید اس نے بیٹے کے لیے زیادہ قربانیاں دے دیں؟ شاید اسے حد سے زیادہ پیار کر لیا؟ شاید اس نے اپنی محبت کا اظہار اتنا بار بار کیا کہ بیٹے کو اس کی قدر محسوس ہی نہیں ہوئی؟
اب وہ خود کو سمجھاتا، "بیٹا مصروف ہوگا، زندگی کی دوڑ میں بھاگ رہا ہوگا، لیکن ایک دن ضرور آئے گا۔ آخر وہ میرا ہی خون ہے، وہ مجھے بھول نہیں سکتا۔" لیکن اندر کہیں وہ سچ جانتا تھا۔ بیٹے کو یاد ہوتا تو وہ آ چکا ہوتا۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ چائے کا کپ کب کا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ وہ کپ رکھنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا، لیکن لرزتے ہاتھوں سے کپ نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔ ایک لمحے کو وہ خاموش رہا، پھر دھیرے سے نیچے جھکنے کی کوشش کی، لیکن کمزور جسم نے ساتھ نہ دیا۔ وہ تھک چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب شاید اس کی طاقت نہیں رہی کہ وہ بار بار خود کو سہارا دے۔ آج اس کے اندر کچھ ٹوٹ گیا تھا۔ شاید وہ امید جو کئی برسوں سے جل رہی تھی، وہ چراغ جو ہر رات اس کی آنکھوں میں جلتا تھا، آج وہ چراغ بجھ چکا تھا۔
وہ کرسی پر بیٹھا رہا، ہوا کے جھونکے اُس کے بالوں کو بکھیر رہے تھے، آنکھیں دھندلا رہی تھیں، اور ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا: "کیا میرا بیٹا میری موت پر آئے گا؟ یا شاید… تب بھی نہیں؟"رات گہری ہو چکی تھی۔ صحن کی خاموشی میں صرف برگد کے پتوں کی سرسراہٹ تھی، جیسے وہ بھی بوڑھے باپ کے غم میں آنسو بہا رہے ہوں۔
تبصرہ لکھیے