ویران دیواریں… شکستہ سیڑھیاں… بکھری اینٹیں… لیکن ان کے درمیان کھڑے یہ لوگ، یہ چہرے، یہ آنکھیں—یہ سب کسی اور ہی کہانی کے گواہ ہیں۔ یہ صرف ایک تصویر نہیں، بلکہ غزہ کی وہ چیختی حقیقت ہے جو ہمارے دلوں پر دستک دے رہی ہے۔ یہ ایک ایسے عزم کی کہانی ہے جسے نہ بارود کی بو مٹا سکی، نہ بمباری کی آگ جلا سکی، اور نہ ہی جنگ کے سائے دھندلا سکے۔
ویرانوں میں زندگی کا چراغ
یہ تصویر ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ نے غزہ کے مکینوں سے ان کے گھر تو چھین لیے، مگر ان کا حوصلہ اور صبر نہیں چھین سکا۔ ٹوٹی ہوئی عمارت کی سیڑھیوں پر کھڑی وہ عورت، جس کے ہاتھ میں افطار کا سامان ہے، شاید اپنے بچوں اور اہل خانہ کے لیے سادگی سے سجی دسترخوان کا بندوبست کر رہی ہے۔ جنگ کی راکھ میں امید کے دیے جلانا، بھوک کے عالم میں صبر کا دامن تھامے رکھنا، یہ صرف غزہ کی ماں ہی کر سکتی ہے! نیچے بیٹھا وہ بوڑھا شخص جو چولہے کی آگ میں صرف لکڑیاں نہیں، بلکہ اپنی یادیں، اپنے خواب اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی راکھ دیکھ رہا ہے۔ وہ مرد، جو شاید اپنی بے بسی پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے، اور وہ معصوم بچیاں، جن کے چہروں پر حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات ہیں۔
یہ تصویر سوال کرتی ہے—کیا جنگ صرف بموں اور گولیوں کا نام ہے؟ یا پھر یہ اُن خوابوں کے ٹوٹنے کا نام ہے جو بچپن میں آنکھوں میں سجے تھے؟ کیا جنگ صرف شہادتوں کی گنتی ہے؟ یا پھر وہ لمحے بھی گنتی میں آتے ہیں جب کوئی معصوم بچہ ماں کو آواز دے کر خاموش ہو جاتا ہے کہ کہیں اس کی صدا کھنڈر میں دفن نہ ہو جائے؟
غزہ: جہاں آزمائش ہمت بن جاتی ہے
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں زندگی اتنی بار آزمائش سے گزری ہو جتنی غزہ میں۔ لیکن یہ تصویر ہمیں بتاتی ہے کہ آزمائش کے باوجود زندگی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں چولہا صرف کھانے کے لیے نہیں جلتا، بلکہ یہ امید کے جلتے چراغ کی مانند ہے۔ یہاں مائیں صرف بچوں کو سہارا نہیں دیتیں، بلکہ پوری قوم کے حوصلے کو مضبوط کرتی ہیں۔ یہاں دیواریں گر بھی جائیں، تو ارادے کھڑے رہتے ہیں۔
یہ تصویر ہمیں سکھاتی ہے کہ جنگ صرف دھماکوں اور ملبے کا نام نہیں، بلکہ یہ صبر، استقامت اور قربانی کی وہ داستان ہے جو رہتی دنیا تک سنائی جاتی رہے گی۔ یہ وہ سبق ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ جب دیواریں گر جاتی ہیں، تبھی اصل ارادے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سب کچھ چھن جاتا ہے، تبھی مضبوطی کا امتحان ہوتا ہے۔
خاموش چیخیں، گونجتے سوال
یہ تصویر ہم سب سے سوال کرتی ہے—ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہے؟ کیا ہم نے ان ویران دیواروں کے پیچھے چھپے آنسوؤں کو محسوس کیا ہے؟ یا ہم صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے سمجھ بیٹھے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا؟
یہ تصویر گواہ ہے کہ ظلم کے اندھیرے میں بھی روشنی کی ایک کرن باقی رہتی ہے۔ یہ تصویر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اگرچہ غزہ کی دیواریں ویران ہو چکی ہیں، لیکن وہاں کے ارادے آج بھی مضبوط ہیں۔
یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں جنگیں جیتنے والے وہ نہیں ہوتے جو طاقتور ہوتے ہیں، بلکہ وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں ایمان اور عزم کی شمع جلتی ہے۔ وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ دیواریں گر سکتی ہیں، لیکن حوصلہ کبھی نہیں گرتا!
ویران دیواریں، مگر پختہ ارادے! یہی غزہ کی پہچان ہے، یہی اس امت کی طاقت ہے۔ اور اگر ہم نے آج یہ سبق نہ سیکھا، تو کل شاید ہماری دیواریں بھی ویران ہوں، اور کوئی ہمیں دیکھ کر بھی نظر انداز کر دے! اللہ ہمیں بیداری عطا کرے، اور غزہ کے مظلوموں کی مدد فرمائے۔ آمین!
تبصرہ لکھیے