ہوم << اہلِ صفہ کے چند اصحاب - عرفان علی عزیز

اہلِ صفہ کے چند اصحاب - عرفان علی عزیز

اصحاب صفہ صحابہ کرام میں ایک ایسا گروہ تھا جنہیں حق تعالٰی نے مال و متاع دنیا کی طرف مائل ہونے اور مال و دولت کے فتنہ میں پڑکر فرائض دینی سے غافل ہونے سے بچائے رکھا۔ اللہ تعالٰی نے انہیں ان لوگوں کے واسطے ایک بہترین نمونہ بنایا جو فارغ ہو کر اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اہل وعیال اور مال و اسباب کو مدعا نہیں بناتے تھے۔ خرید و فروخت یا کوئی دوسری مصروفیت اللہ کی یاد سے انہیں غافل نہیں کر سکتی تھی۔دنیا کے ہاتھ سے جانے اور فوت ہونے پر کبھی انہیں غم نہ ہوا ۔ وہ اس بات پر راضی تھے کہ ان کے مالک از لی نے انہیں آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان کی خوشی اپنے معبود کی یاد میں اور غم اس کی یاد سے غفلت میں تھا وہ وہی بلند مرتبہ لوگ تھے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ”کوئی تجارت یا کسی بھی قسم کی خرید و فروخت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتی ۔“

دنیا کے فوت ہو جانے پر انہیں کوئی افسوس نہ ہوا اور دنیا کے مل جانے پر انہیں کوئی خوشی نہ ہوئی۔ اللہ تعالی نے دنیا میں منہمک ہو جانے اور دولت کی فراوانی سے ان کی حفاظت فرمائی تا کہ وہ تاثیر دنیا کی وجہ سے بغاوت اور سرکشی پر نہ آمادہ ہوں ۔ کسی چیز کے فوت ہو جانے ، چلے جانے، پراگندہ ہو جانے اور بالیدہ ہونے پر انہیں قطعاً کوئی ملال نہ تھا۔

اصحاب صُفّہ کی تعداد
یہ تعداد کم وبیش ہوتی رہی ہے ۔ چار سو تک بھی پہنچی ہے۔ ان نفوس قدسیہ میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
حضرت ابوهريرة ، ابو بشر کعب بن عمر ، حضرت عمیر بن عوف ، حبیب بن سیان ، حضرت ثوبان، عبداللہ بن انیس ، حضرت معاذ بن حارث، جنب بن جنادہ ، حضرت ثابت بن دریعہ، عتبہ بن مسعود، عدیم بن ساعد ، عبد اللہ بن عمر ، سلمان فارسی ، سالم بن حمیر ، حذیفہ بن یمان مسطح بن اثاثہ ، ابودرداء ، سالم مولىٰ ابو حذیفہ ،عبداللہ بن زید ، صفوان بن بیضا ، عکاشہ بن محض، ابوعبیس ، حجاج بن عمر، جناب بن ارت ، مسعود بن ربیع ، عبداللہ بن مسعود، مقداد بن عمر ، عمار بن یاسر، ابو عبیدہ ، عامر بن جراح ، بلال بن رباح صہیب بن سنان، زید بن خطاب، ابومرثد ، ابو کبشہ ، ابوعبس ، اوس بن ثابت، مجذر بن دمار، عامر بن فہیرہ ،ابورجانه، ذو الثمالين ، ابوالہیثم ، رافع بن معلی ، سعد بن خیثمه ،عبد اللہ بن رواحہ، عاصم بن ثابت، عبد اللہ بن جحش ، عویم بن ساعدة ، حاطب بن ابی بلتعہ ، ابو رویحہ عباد بن بشر، ابوایوب خالد بن زید، عتبان بن مالک ، سلامہ بن سلامہ ، مقداد رضی اللہ عنہم اجمعین علیہ السلام
ان میں چند ایک مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

بلال بن رباح
سیدنا بلال بن رباح کا شمار بھی اہل صفہ میں ہوتا ہے۔ آپ انتہائی عبادت گزار، تجرد پسند صدیق اکبر کے آزاد کردہ فضل و احسان کے دلدادہ، دین کی خاطر آزمائشوں اور ابتلاء میں پڑنے والوں کے سردار رسول امین وسید المرسلین ﷺ کے خازن، اسلام میں سابق دین سے غایت درجہ کی محبت رکھنے والے، اللہ تعالی پر سراسر توکل اور بھروسہ کرنے والے تھے کہا گیا ہے کہ تصوف اس بات کا نام ہے کہ انسان تمام ذرائع اور وسائل کو چھوڑ کر ( حضرت بلال کی طرح) محض اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرلے۔ زید بن ارقم کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”بلال کس قدر اچھا آدمی ہے وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے ۔“ عمر فاروق فرمایا کرتے تھے۔ ”ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار حضرت بلال کو آزاد کرایا۔“

ورقہ بن نوفل حضرت بلال کے پاس سے گزرے جبکہ انہیں اسلام کی پاداش میں اذیت دی جارہی تھی اور وہ (بلال) ”احد احد“ کہے جارہے تھے۔ ورقہ بن نوفل امیہ بن خلف کی طرف متوجہ ہوئے جو حضرت بلال کو اذیت پہنچا رہا تھا اور فرمانے لگے۔ میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے اسی طرح اذیت پہنچاتے ہوئے اس (بلال) کو قتل کر دیا تو میں اس پر نوحہ کروں گا ۔ ایک دن ابوبکر صدیق گزرے تو بھی یہ ظالم حضرت بلال کے اسی طرح کر رہا تھا۔ آپ نے اُمیہ سے فرمایا کیا تو اس مسکین کے سلسلہ میں اللہ سے نہیں ڈرتا ؟ کب تک تو اسے تکلیف پہنچا تا رہے گا؟ اس نے کہا.” اگر آپ کو اس کی یہ حالت پسند نہیں تو اسے اس حالت سے نجات دلا دیں۔“ آپ نے فرمایا۔ ”ہاں میرے پاس ایک سیاہ فام غلام ہے جو اس ( بلال ) سے زیادہ قوی ہے اور تیرے دین پر ہے وہ تجھے بلال کے بدلے میں دیتا ہوں ۔“ امیہ نے کہا..”مجھے یہ سودا منظور ہے۔“ چنانچہ آپ نے وہ غلام دے کر حضرت بلال کو آزاد کر دیا۔ بلال کے ساتھ چھ اور غلاموں کو بھی آپ نے آزاد فر مایا۔

حضرت عبداللہ کہتے ہیں پہلے پہل سات آدمیوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ بذات خود رسول مقبول ﷺ، ابو بکر صدیق ، عمار بن یاسر، ان کی والدہ سمیہ ، صہیب رومی ، بلال اور مقداد۔ آنجناب کی اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے اور ابو بکر کی ان کی قوم کے ذریعہ حفاظت فرمائی۔ باقی تمام کو مشرکین پکڑ کر آہنی لباس پہنا دیتے پھر دھوپ میں ان کو پگھلاتے ۔ حضرت بلال کو سب سے زیادہ تکالیف پہنچائی گئیں۔ اللہ کے راستے میں انہیں بہت ذلیل کیا گیا۔ کفار مکہ انہیں لڑکوں کے سپرد کر دیتے۔ لڑکے انہیں مکہ کی گلیوں میں گھماتے مگر وہ احد احد ہی کہے جاتے ۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ بلال حبشہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ حضرت بلال سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا اے بلال فقیر ہو کر مرنانہ کہ غنی ہو کر. میں ( بلال ) نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ یہ کس طرح ہوگا ؟
فرمایا۔” تجھے جو کچھ رزق عطا کیا جائے اسے چھپا کر نہ رکھ اور جو کچھ تجھ سے مانگا جائے اسے روک کر نہ رکھے۔ میں نے عرض کیا۔ ”یا رسول اللہ ﷺ! ایسا میرے واسطے کیسے ممکن ہو گا ؟“ آپ نے فرمایا۔” یہ چیز ہو گی یا پھر آگ ۔“

حضرت انس روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جتنی اذیت مجھے پہنچائی گئی دنیا میں کسی کو نہیں پہنچائی گئی۔ پورا پورا مہینہ گزرجاتا تھا مگر میرے اور بلال کے کھانے کے واسطے کوئی شے نہ ہوتی ۔ حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ، میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے پاؤں کی آہٹ سنی ۔ میں نے جبریل سے پوچھا۔ یہ کون ہے؟ جبریل نے بتایا کہ یہ بلال ہے۔“ سعید بن مسیب کہتے ہیں۔ خلافت ابوبکر صدیق “ کے زمانے میں حضرت بلال شام کی طرف جانے کی تیاری فرمانے لگے۔ حضرت ابو بکر کو معلوم ہوا تو بلال سے فرمانے لگے: ”اے بلال تو ہمیں اس حال میں چھوڑ کر جا رہا ہے اگر تو یہاں آکر ہماری اعانت کرتا تو اچھا ہوتا ۔ بلال کہنے لگے یا خلیفۃ الرسول! اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے جانے دیجئے اور اگر آپ نے اپنے لیے آزاد کرایا ہے تو بے شک مجھے اپنے پاس روک لیں ۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر نے اجازت دے دی۔ بلال شام کی طرف روانہ ہو گئے اور پھر وہیں وفات پائی۔

ابوذر غِفاری
حضرت ابوذرغفاری انتہائی قدیم الاسلام ہیں یہاں تک کہ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔ آپ ظہور اسلام سے قبل کے توحید پرست اور عبادت گزار تھے ۔ آپ اہلِ صفہ کے ساتھ انس و محبت کی وجہ سے اکثر وقت انہی کے پاس گزارتے اس لیے اہل صفہ میں بھی ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت یزید روایت کرتی ہیں کہ ابوذر ہمیشہ خدمت نبوی میں مشغول رہتے ۔ جب فارغ ہوتے تو مسجد میں چلے آتے کیونکہ مسجد ہی آپ کا گھر تھا۔ مسجد میں آکر لیٹ جاتے ۔ ایک رات رسول کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ نے انہیں مسجد کے ریتلے فرش پرسوئے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے اپنے پاؤں مبارک سے ہلایا تو اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم مسجد میں سورے ہو ؟ ابوذر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اور کہاں لیٹوں مسجد کے سوا میرا کوئی گھر ہی نہیں ۔ حضور نے یہ سن کر خود بھی انہی سے پاس جلوہ فرما ہوئے۔ حضرت ابوذر بیان فرماتے ہیں کہ میں اصحاب صفہ میں موجود ہوتا ۔ جب شام ہوتی تو ہم تمام حضور اللہ کے در اقدس پر حاضر ہو جاتے ۔ آپ ﷺ ہر آدمی کو حکم فرماتے کہ وہ اہل صفہ میں سے ایک کو لے جائے چنانچہ ہم میں سے دس افراد یا اس سے کچھ کم و بیش بیچ رہتے۔ جب آپ ﷺ کا کھانا آتا تو ہم سب مل کر آپ ﷺ کے ساتھ کھاتے ۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو جاتے تو آپ ﷺ فرماتے ۔ جا کر مسجد میں سو جاؤ ۔ حضرت ابوذر بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ان کے پاس سے گزرے جبکہ وہ منہ کے بل اوندھے سوئے ہوئے تھے۔ آپ نے انہیں پاؤں سے ٹھوکر ماری اور فرمایا : اے جندب ( یہ ابوذر کا نام ہے ) اس طرح منہ کے بل شیطان لیٹتا ہے۔“

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
مشہور صحابی ابوہریرہ کا اسم شریف عبد شمس اور ایک قول کے مطابق عبد الرحمن بن صخر الدوسی ہے۔ آپ وہ خوش بخت اور بلند ہمت انسان تھے کہ حضور ﷺ کی تمام ظاہری حیات میں حصہ کو ٹو کا نہ بنائے رکھا اور اس سے کہیں دوسری جگہ منتقل نہ ہوئے ۔ آپ صفہ میں مستقل مقیم اور مسافروں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ حضور ﷺ جب کبھی کھانے یا کسی دوسری حاجت کے واسطے اہل صفہ کوجمع کرنے کا ارادہ فرماتے تو نہیں کو بھیجتے کہ ان کو لالا ئیں کیونکہ یہ ان کے منازل اور مراتب سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان مشہور فقراء ومساکین میں سے تھے جنہوں نے ہمیشہ سخت فقرد تنگدستی میں بھی دامن صبر کو نہ چھوڑا کھیتی باڑی اور اغنیاء اور تاجروں سے ہمیشہ دور ر ہے ۔ دُنیائے فانی کو چھوڑ کر باقی اور ابدی زندگی کے ہمیشہ منتظر اور خواہش مندر ہے۔ نرم و نازک اور ریشمی لباس سبھی پسند نہ فرمایا . اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی اور فطانت و ذہانت عطا فرمائی۔
حضرت ابو ہریرہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب میں بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس رستے پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ باہر نکلا کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر میرے پاس سے گزرے۔ میں نے ان سے قرآن کریم کی ایک آیت کی بابت پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد محض یہ تھا کہ وہ مجھے ساتھ لے جائیں گے اور کچھ کھلائیں پلائیں گے۔ وہ میرا مدعا نہ سمجھ پائے اور یوں ہی گزر گئے ۔ پھر حضرت عمر گزرے وہ بھی میرا مطلب نہ سمجھ سکے اور گزر گئے۔ بعد میں ابو القاسم کا گزر ہوا۔ آپ نے مجھے دیکھتے ہی تبسم فرمایا کیونکہ آپ ﷺ نے میری دلی خواہش کو جان لیا تھا. فر مایا اے ابو ہریرہ! میں نے عرض کیا ”لبیک یا رسول اللہ ﷺ فرمایا۔”آؤ میرے ساتھ چلو.“ چنانچہ میں آپ ﷺ کے پیچھے ہولیا۔ آپ کے گھر میں داخل ہو گئے تو میں بھی اجازت لے کر اندر چلا گیا۔ آپ ﷺ نے ایک پیالہ میں دودھ دیکھا تو پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا ہے۔گھر والوں نے عرض کیا ” یہ فلاں آدمی نے بطور ہدیہ ارسال کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔”اے ابوہریرہ! جاؤ اور تمام اہلِ صفہ کو بلا لاؤ۔ حضرت ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان تھے، ان کا کوئی ماں اور جائیداد وغیرہ نہ تھی۔ جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ کی کوئی شے آتی تو تمام کی تمام اہل صفہ کی طرف بھجوا دیتے اور خود اس سے کچھ نہ لیتے اور جب ہدیہ کی کوئی شے آتی تو خود بھی لیتے اور اہل صفہ کو بھی اس میں شریک کرتے۔ حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ان ستر (70) اصحابِ صُفّہ میں سے تھا جن کے پاس سوائے ایک چادر کے اور کوئی کپڑا نہ ہوتا تھا جسے وہ گلے میں پہنے رکھتے۔
مضارب بن حزن بیان کرتے ہیں کہ میں رات کے وقت چل رہا تھا اچانک میں نے سُنا کہ ایک آدمی نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا۔ میں نے اونٹ کو اس کے قریب کیا اور پوچھا۔”کون مکبر ہے؟“ اس نے بتایا ”ابو ہریرہ میں نے کہا ”یہ تکبیر کیسی؟“ فرمایا۔” باری تعالیٰ کے شکرانے کی۔“ میں نے پوچھا۔”کس بات پر شکریہ؟“ فرمایا.”اللہ کی اس نعمت پر کہ ایک وقت وہ تھا جبکہ میں برہ بنت غزوان نامی عورت کا نوکر تھا. جب لوگ سوار ہوتے تو میں ان کے آگے آگے چلتا۔ جب وہ کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو میں ان کی خدمت کرتا. اللہ تعالیٰ نے یہ کرم فرمایا کہ اسی عورت کے ساتھ میرا نکاح کرا دیا۔ اب وہ میری بیوی ہے. لوگ جب سوار ہوتے ہیں تو مجھے بھی سواری پر بٹھایا جاتا ہے اور جب کسی جگہ اترتے ہیں تو میری خدمت کی جاتی ہے ۔“

سلمان فارسی
حضرت سلمان فارسی کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ۔ آپ کا شمار بھی اہل صفہ میں ہوتا ہے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چار آدمی سبقت لے جانے والےہیں، میں اہل عرب ہے۔ صبیب اہلِ رُوم ہے۔ سلمان اہل فارس سے۔ اور بلال اہل حبشہ ہے۔ آپ انتہائی عابد ، زاہد، صابر ، شاکر اور قلت و شدائد پر صبر فرمانے والے تھے۔ آپ سے متعدد روایات مروی ہیں مثلاً آپ نے بیان کیا کہ رسول الله لعل الله نے فرمایا " " جب مومن کا قلب اللہ کے راستے میں کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح کھجور کے درخت سے کھجور کے خوشے گرتے ہیں ۔“ ایک حدیث میں بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں ان ہر دو آدمیوں کے لیے قیامت کے دن شفاعت کروں گا جو محض اللہ کے واسطے ایک دوسرے کے بھائی بنے رہے ۔“

سعد بن ابی وقاص
حضرت سعد سابقین اولین اور مہاجرین میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ تیسرے اور ایک روایت کے مطابق آپ ساتویں ایمان لانے والے ہیں۔ اسلام کی پاداش میں آپ کو متعدد شدائد و آلام سے دو چار ہونا پڑا۔ قبیلہ ، برادری اور مال و جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑے گا مگر آپ نے دامن اسلام کو نہیں چھوڑا ۔ حضور ﷺ نے آپ کے لیے دعا فرمائی تھی کہ اللہ سعد کے نشانہ کو ٹھیک بیٹھنے والا بنا اور اس کی دعاؤں کو قبول کرے ، یعنی اس کو مستجاب الدعوات بنا۔ چنانچہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ بیماری کے دوران ایک مرتبہ انہیں اپنی موت کا خدشہ ہوا تو حضور ﷺ نے پیش گوئی فرمائی کہ ابھی تیری زندگی باقی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو تجھ سے نفع اور بہت سارے لوگوں کو تم سے نقصان بھی پہنچے گا ۔ چنانچہ عراق و مصر وغیرہ کے علاقے آپ ہی کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ حضرت سعد بتاتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے سنا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو پسند فرمایا ہے جو پر ہیز گار ہو غنی ہو اور صاحب علم و کرم ہو ۔

جُرہد بن خویلد
جُرہد بن خویلد الاسلمی بھی ساکنان صفہ میں سے ہیں۔ وہ صلح حدیبیہ میں موجود تھے۔ موصوف بیان کرتے ہیں ۔”یارسول اللہ ﷺ! آج رات آپ ﷺ نے ایسی نماز پڑھی کہ پہلے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ آپ ﷺ نے جواب دیا۔ ہاں یہ امید و خوف کی نماز تھی۔ میں نے اپنے رب کریم سے تین چیزوں کا سوال کیا جن میں سے دو مجھے عنایت فرمادی گئیں اور ایک سے منع کر دیا گیا۔“ میں نے سوال کیا تھا ایک تو میری اُمت اس طرح نہ ہلاک ہو جائے جس طرح دوسری اُمتیں ہلاک ہوئیں، دوسرا میری اُمت پر ایسا دشمن نہ مسلط کر دے جو ان کو ہلاک کر دے۔ تیسرا یہ کہ میری اُمت مختلف گروہوں میں نہ بٹ جائے ۔ پہلے دو سوال منظور کر لیے گئے اور تیسرا روک لیا گیا۔ بیٹی بن جعدہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام حضرت خباب کی عیادت کے واسطے گئے ۔ صحابہ نے کہا اے خباب تجھے بشارت ہو کہ تو عنقریب نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچ جائے گا۔ خباب کہنے لگے یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے جبکہ میرا دو منزلہ مکان ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا کہ تمہارے واسطے دنیا کی اتنی مقدار کافی ہے جتنا کہ مسافر کے پاس زاد راہ ہوتا ہے ۔“

خنیس بن حذافہ
خنیس بن حذافہ سہمی بھی اہل صفہ اور مہاجرین اولین میں سے ہیں ۔ ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمرفاروق " پہلے آپ کے عقد نکاح میں تھیں۔ وہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے. ابتدائے اسلام میں ہی فوت ہو گئے۔ حضرت حفصہ سے آپ کی کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ آپ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حفصہ سے نکاح فرمالیا۔

خالد بن یزید ( ابوایوب الانصاری)
محمد بن جریر کے بیان کے مطابق خالد بن یزید المعروف ابو ایوب انصاری اہل صفہ میں شامل ہیں ۔ یہ ابوایوب وہی خوش نصیب صحابی ہیں جن کے گھر میں ہجرت کے موقع پر رسول اللہ تشریف فرمائے ہوئے اور اس وقت تک ان کے گھر میں رہے جب تک کہ مسجد ور آپ کا حجرہ تعمیر نہ ہو گیا۔ ابو ایوب کا مبارک مکان آج بھی مدینہ منورہ میں موجود ہے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔ آپ قسطنطنیہ میں فوت ہوئے اور وہیں فصیل کے ساتھ دفن ہوئے۔ آپ سے مروی روایات میں سے ایک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ دو آدمی اکٹھے مسجد میں جاتے اور نماز پڑھتے ہیں مگر جب لوٹتے ہیں تو ان میں سے ایک کی نماز دوسرے سے زیادہ وزنی ہوتی ہے اور دوسرے کی نماز ذرہ برابر بھی نہیں ہوتی ۔ ابوحمید الساعدی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیسے ہوتا ہے ( حالانکہ نماز تو بظاہر دونوں کی ایک جیسی ہے ) آپ ﷺ نے فرمایا ” جبکہ ایک عقل کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہو ۔ عرض کیا گیا ۔ وہ کس طرح ؟ فرمایا ” جبکہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بچنے والا اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے پر حریص ہوں۔ اگر چہ وہ نوافل میں کم ہی ہو ۔ “ ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ مجھے کوئی متری تعلیم دیجئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب نماز پڑھنے کو یوں پر ھو گیا یہ تمہاری زندگی آخری نماز ہے ایسی بات نہ کرو جس سے بعد میں معذرت کرنا پڑے اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مایوس ہو جاؤ ۔ یعنی لوگوں سے کسی چیز کی امید نہ کرو۔“

خریم بن فاتک
احمد بن سلیمان المروزی نے کہا کہ خریم بن فاتک الاسدی بھی اہل صفہ میں شامل ہیں۔ وہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔ انہیں رات کے وقت جبکہ یہ عراق میں تھے ایک ہاتف غیبی نے آواز دی اور کہا۔ لوگ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ہوں اور تو چاہے کہ تیرا اجر بھی ان کے برابر ہو تو مسجد کو لازم پکڑ لے اور اس میں بغیر معاوضہ کے اذان دیا کر۔ یہی ابورزین بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا: ” اے ابورزین ! کیا میں تجھے ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو ؟ وہ یہ کہ ذکر الہی کرنے والوں کی مجالس میں بیٹھا کر ۔ جب تنہائی میں ہو تو مقدور بھر اپنی زبان کو ذکر اللہ میں مشغول رکھا کر۔ کسی کے ساتھ محبت رکھے تو اللہ کی وجہ سے اور بغض رکھے تو بھی اللہ کی وجہ سے یعنی اللہ کی رضا کی خاطر۔ اے ابور زین! کیا تو اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب آدمی اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لیے نکلتا ہے توستر (70) ہزار فرشتے اس کو رخصت کرنے کے لیے اس کے ساتھ نکلتے ہیں اور اس کے لیے دُعا کرتے ہیں ۔ اے ابور زین! اگر تجھ سے یہ عمل ہو سکے تو کیا کر ۔“

زید بن خطاب
ابوعبد الله الحافظ النیشاپوری کے بیان کے مطابق حضرت زید بن خطاب بھی اہل صفہ میں شامل ہیں ۔ آپ مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں لڑی گئی جنگ میں شہید ہوئے ، غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔ ان کی کنیت عبدالرحمن تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے دن والد محترم حضرت عمر نے چچا جان حضرت زید سے کہا ” میری یہ زرہ پکڑ رکھو میں جنگ میں شریک ہوتا ہوں ۔ انہوں نے جواباً کہا " جس طرح آپ شہادت کی تمنا رکھتے ہیں میں بھی رکھتا ہوں ۔ چنانچہ دونوں بھائی زرہ کو چھوڑ کر جہاد میں شریک ہو گئے ۔

سعید بن عامر
واقدی کے بیان کے مطابق سعید بن عامر بن جذیم الحیمی بھی اہل صفہ میں شامل تھے۔ مدینہ میں ان کی کوئی دکان نہیں تھی۔ دنیا سے انتہائی بے رغبت اور ایثار و قربانی کے پیکر تھے۔ جو کچھ ہاتھ آتا فقراء و مساکین میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کو ان کی فقرو تنگ دستی کی حالت معلوم ہوئی تو ہزاروں دینار ان کی خدمت میں برائے ضروریات بھیجے ۔ وہ دینار لے کر زوجہ محترمہ کے پاس گئے اور کہا عمر نے یہ دینا ر ہمارے واسطے بھیجے ہیں۔ بیوی نے کہا بہتر ہے کہ آپ تھوڑا سا کھانا اور سالن وغیرہ خرید لیں اور باقی پیسوں کو جمع کر کے رکھ لیں تا کہ بعد میں کام آئیں ۔ فرمایا۔”کیا میں اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں وہ یہ کہ ساری رقم ایک اسے مخص کے ہاں رکھ دیتے ہیں جو ہمارے لیے تجارت کرے گا۔ ہم اس کے منافع سے کھاتے رہیں گے اور راس المال محفوظ رہے گا۔ بیوی نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے کھانا ، سالن ، دو غلام اور باقی رتم مند میں فرمادیں۔ اور دو اونٹ خرید لیے باقی تمام رقم مساکین اور حاجت مند لوگوں میں تقسیم فرمادی۔

سفینه ابو عبد الرحمن
یحیی بن سعید القطان کے بیان کے مطابق حضور ﷺ کے غلام حضرت سفینہ بھی اہل صفہ میں شامل ہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں اس شرط پر آزاد کیا تھا کہ وہ ساری زندگی نبی کریم ﷺ کی خدمت کریں گے چنانچہ انہوں نے پورے دس برس آپ ﷺ کی خدمت کی۔ حضرت سفینہ خود بیان کرتے ہیں کہ مجھے ام سلمہ نے خریدا اور مجھے اس شرط پر آزاد کیا کہ میں تادم حیات نبی کریم ﷺ کی خدمت میں رہوں چنانچہ میں نے زندگی بھر نبی اکرم ﷺ سے جدا ہونے کو پسند نہیں کیا۔“ سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے ان کی وجہ تسمیہ پوچھی (یادر ہے سفینہ کا لغوی معنی کشتی ہے ) آپ نے فرمایا میرا یہ نام یعنی سفینہ نبی اکرم ﷺ نے رکھا ہے۔ سعید کہتے ہیں میں نے پوچھا حضور ﷺ نے آپ کا یہ نام کیوں تجویز فرمایا؟ سفینہ نے بتایا کہ ایک دن حضور مع دیگر اصحابہ کے ایک سفر پر نکلے تمام لوگوں کا ساز و سامان ان پر بھاری ہونے لگا۔ حضور ﷺ نے مجھے سے فرمایا ! اپنی چادر پھیلاؤ۔ چنانچہ میں نے چادر پھیلا دی۔ آپ نے تمام لوگوں کا ساز و سامان اس میں رکھ دیا اور وہ گٹھڑی میرے سر پر رکھ دی اور فرمایا اس سامان کو لے کر چلو تم سفینہ ہو۔ حضرت سفینہ " کہتے ہیں اگر اس دن چھ اونٹوں کا بوجھ بھی مجھ پر لاد دیا جاتا تو مجھے معلوم نہ ہوتا ۔

الاغر المزنی
موسیٰ بن عقبہ سے بلا سند ذکر کیا گیا ہے کہ الاغر المزنی اہل صفہ سے تھے۔ الاغز المزنی سے بعض احادیث بھی مروی ہیں۔ ایک حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ رسول مقبول نے ارشاد فرمایا بعض اوقات میرا قلب غافل ہو جاتا ہے تو میں اللہ سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔“ حضرت الاغرالمزنی سے ایک اور روایت بھی منقول ہے، فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا " اے لوگو اپنے رب کی طرف اپنے گناہوں سے توبہ کرو کیونکہ میں روزانہ سو مرتبہ تو بہ کرتا ہوں۔“

رضی اللہ عنہم اجمعین

Comments

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment