ہوم << انسان کو کتنا مذہبی ہونا چاہیے؟ محمد قاسم مغیرہ

انسان کو کتنا مذہبی ہونا چاہیے؟ محمد قاسم مغیرہ

ایک صاحب سے انٹرویو سکلز کے بارے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے مفید مشوروں سے نوازتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امیدوار کو چاہیے کہ اپنے مذہبی رجحان کے بارے میں بات نہ کرے کیوں کہ انٹرویو پینل اسے پسند نہیں کرتا۔

سوال یہ ہے کہ ایک شخص جب کسی نظریہ حیات کا قائل ہے تو کیا انٹرویو کے دوران اس پر اسے شرمندہ ہونا چاہیے؟ اپنی شناخت چھپا لینی چاہیے؟ کسی مستعار نظریے کا پیرہن اوڑھ لینا چاہیے؟ ایک نوکری کے حصول کے لیے اپنے نظریات کی ردا تار تار کر دینی چاہیے؟ مذہب کے بارے میں کچھ لوگوں کی یہ روش کیوں ہے؟ کیا ایک انٹرویو روم میں ایک مذہبی انسان کو اپنی مذہبیت سے دست بردار ہوجانا چاہیے؟ یہ مشورہ کسی سوشلسٹ کو کیوں نہیں دیا جاتا کہ انٹرویو کے دوران زیادہ سوشلسٹ نہ بنے؟ کوئی لبرل دوران انٹرویو اپنا لبرل ازم چھپالے؟ ایک مذہبی آدمی ہی اپنی شناخت کیوں چھپائے؟ ایک انسان کو کتنا مذہبی ہونا چاہیے؟ کہاں کہاں مذہبی ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان گوشوں ، جن کے بارے میں مذہب نے آزادی دے رکھی ہے ، کے سوا ایک انسان کی عبادت ، معاشرت ، اخلاق ، خانگی و عائلی زندگی ، تجارت و معیشت - سب کس سانچے میں ڈھلنی چاہئیں؟ انسان کو کتنا مذہبی ہونا چاہیے؟ مذکورہ بالا شعبہ ہائے زندگی میں مذہبی اور غیر مذہبی ہونے کی شرح کیا ہونی چاہیے؟

اسلام کے دعوے دار ہر شخص کو خدا کا حکم ہے کہ اسلام میں پورا پورا داخل ہو جائے یعنی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کے احکامات پر عمل پیرا رہے۔ ایک بندہ خدا کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ کچھ معاملات میں خدا کے احکام پر عمل پیرا رہے اور کچھ معاملات میں نفس کی بندگی کرلے۔ ایک مسلمان کے دن کا آغاز اللہ کی کبریائی کے نغمے سے ہوتا ہے۔ یہ ترانہ کبریائی سنتے ہی اسے مسجد کی طرف دوڑنا چاہیے کہ فوز و فلاح کا مستحق قرار پائے۔ بندگی کا یہ سلسلہ ہر روز طلوع سحر سے لے کر تب تک جاری رہتا ہے جب رات زمیں کو اپنے سیاہ پردے میں لپیٹ لیتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد انسان معاش کی جدو جہد کے لیے نکل پڑتا ہے۔ حصول رزق میں بھی انسان درہم و دینار کا بندہ نہیں ہے بلکہ خدا کا بندہ ہے ، وہاں بھی انسان کچھ ضابطوں کا پابند ہے۔ اسلام ایسی دوئی کا قائل نہیں ہے کہ نماز اپنی جگہ ، تجارت اپنی جگہ۔ یہ معیارات اتنے سخت ہیں کہ اگر ان میں کچھ کجی ہوئی اور رزق میں حرام کی آمیزش ہوئی تو نمازیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ اور ان معیارات پر پورا اترنے والے تاجر کو روز حشر انبیاء اور شہداء کی رفاقت میسر آئے گی۔ ایک مسلمان کو " حی الصلاح" کے حکم ساتھ ساتھ " ولا تخسرو المیزان" کا حکم بھی ہے۔ ان دونوں احکامات کا منبع ایک ہی ہے۔ ان کا ماخذ اور مرکز و محور ایک ہی ذات ہے۔ نماز میں خدا کے حضور سربسجود مسلمان بھی اللہ کی اطاعت میں مصروف ہے اور ایک دیانت دار تاجر کے روز و شب بھی خدا کی بندگی میں شمار ہوتے ہیں۔ مسجد ہو یا دکان - کسی بھی جگہ بندگی سے فرار کی اجازت نہیں ہے۔

بندگی کا تقاضا ہے کہ ہم سایوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ مصیبت زدگان کو دیکھ کر دل بھر آئے اور انسان ایثار کے لیے آمادہ ہو جائے، راہ خدا میں خرچ کرے ، بھوکوں کو شریک طعام کرے، یتامیٰ و مساکین کے سر پر دست شفقت رکھے ، کم زوروں کا دست و بازو اور بے سہاروں کا سہارا بن جائے۔

مذہب پر عامل ہونے کا تقاضا ہے کہ ایک انسان سچ کا گواہ اور علم بردار بن جائے۔ سچ کی گواہی کی تاکید اتنی سخت ہے کہ کوئی رشتہ ، کوئی تعلق ،کوئی بندھن اس کی راہ میں حائل ہوگیا تو دامن انصاف ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ دشمنی اور اختلاف کے معاملے میں بھی حدود انصاف سے سرمو تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ایک بندہ خدا کے لیے حکم ہے کہ اگر کہیں برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے، یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں برا جانے۔ اور اسے ایمان کا کم زور ترین درجہ قرار دیا گیا ہے۔ غور کیجیے کہ یہ مرحلہ سب سے آخر میں آیا ہے۔

ایک بندہ خدا کی ذمہ داری ہے کہ مظلوم کی حمایت کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ مظلوم کی حمایت میں کھڑے ہوجانا اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ نماز کے سجود و قیام بھی خدا کی بندگی کا مظہر ہیں اور مظلوم کی حمایت میں کھڑے ہونا بھی اسی بندگی کا پرتو ہے۔ ان دونوں اعمال کے سوتے ایک ہی جگہ سے پھوٹتے ہیں، ان کا سر چشمہ ایک ہی ہے۔ دونوں جگہوں پر ہی انسان کو مذہبی ہونا چاہیے۔

مذہبی ہونے کا تقاضا ہے کہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھا جائے، جبری شادیوں کا رجحان ختم کیا جائے، وراثت میں خواتین کو حصہ دیا جائے، عورت دشمن رسوم و رواج کا خاتمہ کیا جائے، خواتین سے حسن سلوک کی روش عام کی جائے، غیرت کے نام پر قتل ایسے قبیح فعل کا قلع قمع ہو۔

مذہبی ہونے کا تقاضا ہے کہ انسان کی سوچ علاقائی و لسانی تعصبات کی اسیر نہ ہو ، انسان کشادہ دل، وسیع المشرب اور وسیع النظر ہو۔

ملک میں بسنے والی اقلیتوں سے حسن سلوک کیا جائے اس لیے نہیں کہ مغربی دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے بل کہ اس لیے کہ یہ ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔
مسجد سے لے کر دکان تک ، دفتر سے کچہری تک، عائلی زندگی سے سماجی معاملات تک- ہر جگہ انسان خدا کا بندہ ہے، ہر جگہ اسی کی بندگی ہونی چاہیے۔ جس خدا کا حکم ہے کہ فلاح کے لیے مسجد کی طرف دوڑے چلے آئے ہو، اسی خدا نے تجارت ، معاشرت ، معیشت ، خاندان سمیت زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں واضح احکامات دئیے ہیں تو انسان کو کہاں کہاں خدا کی بندگی کرنی چاہیے اور کہاں کہاں عبودیت سے رخصت لے لینی چاہیے؟ تو کیا خیال ہے پھر؟ انسان کو کتنا مذہبی ہونا چاہیے؟