رحمت گل نے اپنے بچپن کے شوق کو حالات کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا۔ محنت مزدوری کے ساتھ پینٹنگ بھی جاری رکھی۔ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے جیسے تیسے وقت نکال ہی لیتا۔ اپنی پینٹنگز اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھیں۔
اس کے لیے بہت اچنبھے کی بات تھی کہ اس کے جگری دوست نے شہر میں ہونے والی پینٹنگز کی نمائش میں اس کی پینٹنگز بھی رکھوانے کا بندوست کر لیا تھا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ ایک عام سے آرٹسٹ کی تخلیقات کو بھی اتنی بڑی نمائش میں جگہ مل سکتی ہے۔ اس کے دوست نے بتایا تھا کہ نئے یا مضافات میں بسنے والےلوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔
وہ اپنے دوست کی محبت کو کسی طور پر بھی ٹھکرا نہیں سکتا تھا، اسی لیے کام سے تین دن کی چھٹی لے لی۔ اسے جو سب سے اچھی پینٹنگز لگیں، نکال کر صاف کیں اورانہیں نمائش میں رکھنے کے لیے تیار کرنے لگا۔ اس کی بیوی کہتی رہی کہ دوست سے کسی طرح معزرت کر لیتے، یہ تین دن کام پر لگاتے تو چار پیسے ہی آجاتے۔ اس نے اس کی باتیں سنی ان سنی کر دیں اور اپنی تیاریاں جاری رکھیں۔
نمائش میں ہر طرح کی پینٹنگز شامل تھیں۔ ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے گئے تھے کہ انہیں دیکھنے کے لیے شائقین جوق در جوق آ رہے تھے۔ اسے نمائش میں جانا بہت اچھا لگا تھا، مگر اپنے حوالے سے مایوسی بھی ہوئی تھی۔ اس کی پینٹنگز کو کوئی خاص توجہ نہیں ملی تھی۔ چند لوگ ہی انہیں دیکھنے آئے۔ بس ایک بچے نے ویڈیو بنانے والے سے ان کے متلعق کچھ کہا۔
رحمت گل شام کو گھر واپس آیا تو اس کی چپ سے اس کی بیوی کو سارا معاملہ سمجھ آ گیا۔ اس نے اس کا ہاتھ تھام کر بس اتنا کہا " رحمت گل، اللّٰہ سے مایوس نہیں ہوتے، ہنسی مزاق اپنی جگہ، سچ یہی ہے کہ تو ایک سچا فنکار ہے، تجھے تیرے فن کا کوئی نہ کوئی قدردان ضرور ملے گا".
نمائش میں رکھی پینٹنگز کا معیار جانچنے کے لیے شائقین کی رائے کو ہی کسوٹی قرار دیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ لوگوں سے ان کی رائے کیمرہ کے سامنے لے کر بطور ریکارڈ منصفین کے لیے محفوظ کی گئی تھی۔ لوگوں نے کئی ایک پینٹنگز کو شاہکار قرار دیا تھا، ان کے بارے میں زبردست جملے کہے تھے۔ منصفین کسی حتمی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے آخری ویڈیوز بھی دیکھنے کے منتظر تھے۔ اسی دوران ایک ویڈیو نے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا، یہ ایک چھ سات سالہ بچے کی ویڈیو تھی، منصفین بار بار اسے دیکھ رہے تھے، اس کے بعد ان کے لیے حتمی فیصلہ کرنا یکسر مشکل نہیں رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو اس بات کا ثبوت تھے کہ سب ایک فیصلہ پر متفق ہو گئے تھے۔
بچہ، رحمت گل کی ایک پینٹنگ کے پاس کھڑا اپنے آنسو صاف کر رہا تھا۔ پینٹنگ میں ایک تھکا ماندہ مزدور اپنے بوسیدہ لباس میں موجود تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پولی تھین کا بٹوا سا تھا، جو خالی تھا، اس نے کچھ پیسے دوسرے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے۔ اس کے سامنے دو دکانیں تھیں، ایک پر کھانے پینے کی چیزیں نظر آرہی تھیں، دوسری دکان میں کھلونے لٹک رہے تھے، مزدور کے قدم کھلونوں کی دکان کی طرف اٹھ رہے تھے۔ پینٹنگ کے پاس کھڑا بچہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا " مجھے آج سمجھ آئی ہے کہ میرے بابا میرے لیے کھلونا کیسے لے کر آتے ہیں".
تبصرہ لکھیے