والدین کا احترام ہر مہذب اور شائستہ معاشرے کی بنیادی اخلاقیات میں شامل ہے۔ والدین وہ عظیم ہستیاں ہیں جو اپنی اولاد کی پیدائش، پرورش، اور تربیت کے دوران بے شمار قربانیاں دیتی ہیں۔ وہ اپنی خوشیاں، آرام اور حتیٰ کہ اپنی ضروریات بھی اولاد کی خوشیوں پر قربان کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر بڑی مذہبی کتاب، ہر دانشمند انسان، اور ہر اخلاقی اصول والدین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔
اسلام میں والدین کی عزمت کو نہایت بلند مقام دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے، جو ان کے بلند مرتبے کی نشاندہی کرتا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی اور عزت کے ساتھ بات کرو۔" (بنی اسرائیل: 23)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کا احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک ایک دینی فریضہ ہے۔
حدیث مبارکہ میں بھی والدین کے احترام اور ان کی خدمت پر زور دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے والدین کی خدمت کو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ایک مشہور حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا: "جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔" یعنی اگر کوئی شخص جنت کا طلبگار ہے تو اسے اپنی والدہ کی خدمت اور عزت کرنی چاہیے۔ ایک اور حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: "والد اللہ کی رضا کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کو ضائع کر دے یا اگر چاہے تو اسے محفوظ رکھ۔" اس حدیث سے والد کے مقام و مرتبے کی بلندی ظاہر ہوتی ہے۔
والدین کا احترام محض ان کے سامنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کا مفہوم وسیع ہے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، ان کی دعاؤں کا طلبگار رہنا، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، اور ان کے فیصلوں کا احترام کرنا بھی والدین کے ادب میں شامل ہے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کی خدمت اور دیکھ بھال اولاد کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ والدین کی ضروریات پوری کرنا نہ صرف ایک سماجی ذمہ داری ہے بلکہ روحانی طور پر بھی یہ عمل باعثِ رحمت اور برکت ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے، آج کے جدید دور میں کچھ لوگ مغربی ثقافت سے متاثر ہو کر والدین کے احترام میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ بعض نوجوان اپنے والدین کی نافرمانی کو معمولی سمجھتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کے فیصلوں میں غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے خاندانی روابط کو کمزور کر دیا ہے اور اولاد کو والدین سے دور کر دیا ہے۔
تاریخ میں کئی عظیم شخصیات کے والدین کے احترام اور خدمت کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ نے والد حضرت ابراہیمؑ کے حکم پر ان کی ہر بات کو بلا چوں چراں مانا، حتیٰ کہ قربانی کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حضرت یوسفؑ نے جب سلطنت مصر کا اقتدار حاصل کیا تو اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو عزت کے ساتھ اپنے پاس بلایا اور ان کی بھرپور خدمت کی۔ صحابہ کرام اور اولیائے کرام کی زندگیاں بھی والدین کی عزت و تکریم کی اعلیٰ مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔
والدین کی نافرمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں بھیانک ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، انہیں بے شمار مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین کی بددعا انسان کو کامیابی سے محروم کر دیتی ہے۔ کئی ایسے واقعات مشاہدے میں آ چکے ہیں جہاں والدین کی ناراضگی نے اولاد کی زندگی کو برباد کر دیا۔ اس کے برعکس جو لوگ والدین کی خدمت اور ان کا احترام کرتے ہیں، وہ دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت کے مستحق بنتے ہیں۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں والدین کی عزت نہ کی جائے، وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ خاندانی نظام تبھی مضبوط ہوتا ہے جب والدین کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ اگر ہر اولاد اپنے والدین کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت کرے تو ایک خوشحال، پرامن اور مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا۔ جدید دنیا میں جہاں ہر چیز تیزی سے بدل رہی ہے، وہاں اخلاقی اقدار کو محفوظ رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو والدین کی عزت و توقیر کے اسباق دیں تاکہ ہمارا معاشرہ ایک اچھے مستقبل کی طرف گامزن ہو سکے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم والدین کی موجودگی میں ان سے محبت، ادب اور خلوص کا مظاہرہ کریں۔ ان کی زندگی میں ان کی قدر کریں اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کے لیے دعا کریں، ان کے حق میں صدقہ جاریہ کریں، اور ان کے اچھے اعمال کو اپنانے کی کوشش کریں۔ ان کے کہے ہوئے الفاظ، ان کی نصیحتوں اور ان کی دعاؤں کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنائیں۔ اس دنیا میں والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو اپنی اولاد کے لیے بے غرض محبت کرتی ہیں، ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم میں غمگین ہوتی ہیں۔
کہ والدین کا احترام ایک ایسا عمل ہے جو ہر انسان کی زندگی میں برکت اور سکون لاتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے نہ صرف ہماری زندگی میں خوشیاں آتی ہیں بلکہ ہمیں اللہ کی رضا اور آخرت میں کامیابی بھی نصیب ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم والدین کے احترام کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں، ان کی خدمت کریں، ان کی دعائیں لیں اور ان کے ساتھ محبت بھرا رویہ اپنائیں تاکہ ہماری زندگی میں بھی خوشیاں آئیں، ہمارا معاشرہ بھی ایک مثالی معاشرہ بن سکے۔
رب الرحمھما کما ربینی صغیرا
تبصرہ لکھیے