ہوم << ملازمین کے ساتھ برتاؤ، ایک قابلِ غور پہلو - رانا اویس

ملازمین کے ساتھ برتاؤ، ایک قابلِ غور پہلو - رانا اویس

میں ایک عالمِ دین کی ویڈیو دیکھ رہا تھا، جس میں وہ ایک نہایت بڑے عالمِ دین کا واقعہ سنا رہے تھے۔ ان کے پاس ایک ملازم ڈرائیور تھا، جو کئی سال سے ان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اچانک وہ بیمار ہو گیا، اور بیماری اتنی شدید ہو گئی کہ اسے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ وہ اپنے گھر چلا گیا۔

اس کی بیماری کے متعلق جاننے کے لیے اس کے سابق مالک، شیخ صاحب، بارہا فون کرتے رہے اور اس کی خیریت دریافت کرتے رہے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ جاری رہا۔ بیماری نے شدت اختیار کر لی، یہاں تک کہ اسے برین ہیمرج ہو گیا۔ ملازم نے اپنے محترم شیخ صاحب کو اطلاع دی کہ وہ ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔ شیخ صاحب نے اسے تسلی دی، دعا دی، اور اللہ تعالیٰ سے بہتری کی امید دلائی۔ پھر فرمایا، "میں آپ کی عیادت کے لیے خود حاضر ہو رہا ہوں۔"

جب ملازم نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ شیخ صاحب عیادت کے لیے آ رہے ہیں، تو بیٹے نے حیرت سے کہا، "وہ تو بہت بڑے عالمِ دین اور مشہور شخصیت ہیں، وہ ہمارے گھر کیسے آ سکتے ہیں؟ شاید ان کے کوئی ساتھی آ جائیں گے۔" یہ کہہ کر وہ شیخ صاحب کو ایئرپورٹ سے لینے چلا گیا۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ شیخ صاحب خود تشریف لا چکے ہیں۔ وہ گاڑی میں بیٹھے اور سیدھے اپنے بیمار سابق ملازم کے گھر پہنچے۔

شیخ صاحب نے نہ صرف اس کی عیادت کی، بلکہ اسے دعاؤں سے نوازا اور مالی مدد بھی فراہم کی۔ پھر رخصت ہو گئے۔ غور کریں کہ یہ ملازم اب شیخ صاحب کے پاس ملازمت نہیں کر رہا تھا، مگر پھر بھی شیخ صاحب نے اس کے ساتھ کیسا اعلیٰ برتاؤ کیا!

ہمارے معاشرے میں ملازمین کے ساتھ سلوک
اب ذرا ہمارے معاشرے پر نظر ڈالیں، جہاں ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک عام بات ہے۔
ان کی تنخواہ وقت پر ادا نہیں کی جاتی۔
کام کے اوقات کا کوئی تعین نہیں ہوتا، وہ وقت پر آتے ہیں، مگر واپس جانے کا کوئی پتہ نہیں۔
جو کام ان کی ذمہ داری میں آتا ہے، وہ تو انہیں کرنا ہی ہوتا ہے، مگر ان سے دیگر کام بھی زبردستی کروائے جاتے ہیں، جن کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
چھٹی کی اجازت نہیں دی جاتی، اور اگر کوئی مجبوری میں چھٹی کر بھی لے، تو اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔
انہیں ذہنی دباؤ میں رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات ان کی عزتِ نفس کو بھی مجروح کیا جاتا ہے۔

اچھی باتیں کرنا سب جانتے ہیں، مگر اکثر لوگوں کے اندر ایک خودغرضی چھپی ہوتی ہے۔ اگر کسی ملازم کو وقت پر اس کی جائز تنخواہ ہی دے دی جائے، تو یہی ایک بہت بڑی نیکی سمجھی جاتی ہے! یہاں تو ملازم اگر ملازمت چھوڑ جائے، تو کوئی اسے پوچھتا تک نہیں۔

سوچنے کی بات
یہ ملازمین بھی انسان ہیں، ان کی عزتِ نفس بھی ہے، ان کے بھی خواب اور ارمان ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں، ان کے حقوق ادا کریں، اور ان کی عزت کریں، تو یہ نہ صرف ہمارا فرض ہے بلکہ ایک بڑی نیکی بھی ہے۔

ملازم بھی ہے انسان، ذرا سوچ کے دیکھو
یہ بھی رکھتا ہے ارمان، ذرا سوچ کے دیکھو
محنت کا ہے طلبگار، عزت کا ہے حقدار
دے دو اسے بھی پہچان، ذرا سوچ کے دیکھو

Comments

Click here to post a comment