آبادی میں اضافہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں معاشرتی اور اقتصادی نظام کو متاثر کرتا رہا ہے۔چونکہ قیام پاکستان کے وقت مغربی اور مشرقی پاکستان متحدہ پاکستان کا حصہ تھے چنانچہ ہم ان دونوں ممالک کی آبادی کے حوالے سے بات کریں گے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اس حوالے سے اہم مثالیں ہیں، جہاں 1971 کے بعد منفرد آبادیاتی رجحانات دیکھے گئے۔ یہ مضمون ان دونوں ممالک میں آبادی کے رجحانات، اضافے کی وجوہات، ضروری احتیاطی تدابیر، اور حکومتی کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔
پاکستان: چار گنا اضافے کا سفر
انیس سو اکہتر میں پاکستان کی آبادی تقریباً چھ کروڑ تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 2024 تک یہ 24 کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ پچھلے 50 سالوں میں تقریباً چار گنا اضافے نے پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں شامل کر دیا ہے۔ یہ اضافہ صرف ایک عدد نہیں بلکہ ایک بڑے سماجی اور اقتصادی بحران کی طرف اشارہ ہے۔
بنگلہ دیش: چھوٹا ملک، بڑا چیلنج
انیس سو اکہتر میں آزادی کے وقت بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً 7 کروڑ تھی۔ جغرافیائی طور پر پاکستان سے چھوٹے ہونے کے باوجود، 2024 تک بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ سے بڑھ گئی۔ بنگلہ دیش میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کی کثافت پائی جاتی ہے، جو اسے ایک منفرد چیلنج سے دوچار کرتی ہے۔
آبادی میں اضافے کی وجوہات: کیا ہے بنیادی محرک؟
زیادہ شرح پیدائش
دونوں ممالک میں 1971 کے بعد پیدائش کی شرح زیادہ رہی۔ خاندانی منصوبہ بندی کی محدود سہولیات اور بڑی فیملیز کی معاشرتی ترجیحات اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔
بہتر صحت کی سہولتیں
صحت کے نظام میں بہتری نے بچوں اور بالغوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی کی۔ ویکسینیشن پروگرامز، زچگی کی بہتر دیکھ بھال، اور صفائی کے نظام نے اہم کردار ادا کیا۔
ثقافتی اور مذہبی اثرات
پاکستان اور بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی پر ثقافتی اور مذہبی اثرات نے منفی اثر ڈالا۔ بڑی فیملیز کو خوشحالی اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
معاشی عوامل
غربت کی وجہ سے زیادہ بچوں پر انحصار کیا جاتا ہے تاکہ وہ معاشی مدد فراہم کر سکیں۔
آبادی کے مسائل کا حل
کیا ہو سکتا ہے؟
آبادی پر قابو پانے کے لیے تعلیم، صحت، اور اقتصادی اصلاحات پر مشتمل حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی
حکومتوں کو مانع حمل ادویات اور تولیدی صحت کی خدمات سستی اور دستیاب بنانی چاہئیں۔ عوامی آگاہی مہمات کو ثقافتی حساسیت کے ساتھ ترتیب دینا ہوگا۔
تعلیم
خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر توجہ دی جائے، کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین بہتر خاندانی فیصلے کرتی ہیں۔
صحت کی سہولتوں میں بہتری
بچوں کی شرح اموات کم کرنے کے لیے صحت کے نظام میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔
معاشی ترقی
روزگار کے مواقع اور غربت کے خاتمے کے پروگرامز سے بچوں پر انحصار کم ہوگا۔ کیونکہ اس وقت غربت کے باعث لاتعداد اسکول جانے والی عمر کے بچے اور بچیاں گھروں، ورکشاپوں اور فیکڑیوں وغیرہ میں بہت تھوڑی اجرت پر کام کر رہے ہیں
حکومتی کردار: کامیابیاں اور ناکامیاں
پاکستان
پاکستان نے خاندانی منصوبہ بندی کے کئی منصوبے شروع کیے ہیں، لیکن سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی مزاحمت نے ان کی کامیابی کو محدود کر دیا۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے دیہی علاقوں میں صحت کے کارکنوں اور مذہبی رہنماؤں کو شامل کرکے آبادی کے مسائل پر قابو پایا۔ مسجد کے منبر سے مثبت پیغامات نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ ماڈل پاکستان میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
مستقبل کے اندازے اور چیلنجز
اگر پاکستان کی آبادی موجودہ رفتار سے بڑھتی رہی، تو 2050 تک یہ تقریباً 38 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس قدر آبادی میں اضافے سے کئی سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، مثلا
پانی کی قلت: پہلے سے محدود پانی کے وسائل مزید دباؤ کا شکار ہوں گے۔
خوراک کی کمی: اتنی بڑی آبادی کو کھانا مہیا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
رہائش کی قلت: شہروں میں بے ہنگم آبادکاری میں اضافہ ہوگا، اور کچی آبادیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
روزگار کی کمی: اتنے بڑے ورک فورس کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
کیا ہو سکتا ہے؟
پاکستان اور بنگلہ دیش میں 1971 کے بعد آبادی میں اضافہ ثقافتی، معاشی، اور سیاسی عوامل کی عکاسی کرتا ہے۔ بنگلہ دیش نے آبادی کے مسائل پر قابو پانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ پاکستان کو ابھی بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کا حل حکومتوں، سول سوسائٹی، اور بین الاقوامی تنظیموں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔ تعلیم، صحت، اور معاشی اصلاحات پر توجہ دے کر یہ ممالک پائیدار ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے، تو 2050 تک بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کی تقسیم اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑا بحران بن سکتی ہے۔ کیا ہم وقت سے پہلے جاگ سکیں گے؟ یہ سوال ہر شہری اور حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔
تبصرہ لکھیے