سسٹین ایبل ڈولپمنٹ سے مراد وہ ترقی ہے جو آنے والی نسلوں کی ضروریات پر سمجھوتہ کئے بغیر موجودہ نسلوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، پائیدار ترقی کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جہاں انسانی ضروریات کو ایک ایسے انداز میں پورا کیا جاتا ہے جہاں قدرتی وسائل کا ضرورت کے عین مطابق استعمال ہوتا ہے اور ضیاع سے حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے، پھر اس کا بحیثیت مجموعی اس کرہ ارض اور آنے والی نسلوں پر ایک مفید و خوشگوار اثر پڑتا ہے ۔
پائیدار ترقی ایک ہمہ گیر نوعیت کا عنوان ہے جو کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہے، اور ہر شعبہ زندگی میں اس کا گہرا عمل دخل ہے اور اگر ان پر عمل درآمد ہو تو بحیثیت مجموعی پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔
روزمرہ زندگی میں پائیدار ترقی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، برقی توانائی کی ہی مثال لے لیتے ہیں، ہم اپنے گھروں میں برقی توانائی کا استعمال کر کے بہت سے کام سرانجام دیتے ہیں، ہم استعمال کے ساتھ ان کا ضیاع بھی کرتے ہیں، اگر کوئی کمرہ ایک یا دو بلبوں سے روشن ہوتا ہے تو تیسرا بلب روشن نہیں کرنا چاہیے، ایسے بلب کا استعمال کرنا چاہیے جو روشنی کے ساتھ کفایت بھی مہیا کرے، دن کے وقت سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جس سے برقی توانائی کی بچت بھی ہوتی ہے، اور ماحول اور انسانی صحت پر ایک قدرتی اثر پڑتا ہے۔
ہمارے زیادہ تر گھروں میں برقی توانائی کا منبع واپڈا یا ڈسکوز کی طرف سے ہوتا ہے جنہیں ہم بھاری بھرکم بل ادا کرتے ہیں، پس اگر استطاعت ہو تو شمسی توانائی کا انتظام گھروں میں ضرور کرنا چاہیے جو کہ گرین انرجی یعنی سبز توانائی ہے، جبکہ ڈسکوز کی بجلی زیادہ تر فوسل پیول اور دوسرے غیر ماحول دوست ذرائع سے بنتی ہے اور اسکا استعمال بحیثیت مجموعی نہ صرف ماحول پر پڑتا ہے بلکہ نیشنل گرڈ پر بھی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، پس اگر گرین انرجی کا استعمال زیادہ ہو تو نہ صرف انفرادی بچت ہے بلکہ سسٹم کو بجلی کی بچت مہیا کر کے لوڈشیڈنگ میں کمی لائی جا سکتی ہے اور اس میں پورے ملک و قوم کا بھی فائدہ ہے، مزید اب گرین میٹرز کا بھی اجرا ہو چکا ہے جو نیٹ مییٹرنگ کے اصولوں پر چلتی ہیں، یعنی کوئی بھی صارف مطلوبہ مقدار سے زیادہ توانائی برقی کمپنی یا گرڈ سسٹم کو بیچ سکتا ہے، پس یہ صارفین کے لیے بھی سودمند ہے، برقی توانائی کے پیداواری صلاحیت میں بھی ایک مثبت اضافہ ہے اور پائیدار ترقی کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔
دوسری مثال سبز عمارات یعنی گرین بلڈنگز کی لی جا سکتی ہے، یہ ایسی عمارتیں ہوتی ہیں جنہیں پائیدار ترقی کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کیا جاتا ہے، وہاں کھڑکیوں کا ایسا نظام ہوتا ہے جہاں مد مقابل سمتوں سے تازہ ہوا داخل و خارج ہوتی ہے اور کمرے ہوادار ہوتے ہیں، چھتوں اور دیواروں میں تھرموسٹیٹ میکانزم ہوتا ہے جو درجہ حرارت کو موسمی تقاضوں کے عین مطابق معتدل رکھتا ہے اور معمول کے مطابق سردی یا گرمی سے بچنے کیلئے برقی آلات کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے، گرین بلڈنگز کیلئے ایسا رقبہ بروئے کار لایا جاتا ہے جو زرعی نہ ہو، گرین بلڈنگز کے اندر معقول گرین بلٹس کا انتظام ہوتا ہے جس میں پھولدار اور سدا بہار پودے لگائے جاتے ہیں جو آکسیجن فراہمی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار احساس بھی دلاتے ہیں ۔
پائیدار ترقی ایک وسیع عنوان ہے، جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں بالکل ناممکن ہے، اس ضمن میں اقوام متحدہ نے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے جسے ویژن 2030 کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، 2015 میں اقوامِ متحدہ نے کچھ اہداف رکھے تھے جو تعداد میں سترہ ہیں، مختصر طور پر ان کو سترہ ایس ڈی جیز (سسٹین ایبل ڈولپمنٹ گولز) کہا جاتا ہے، ان اہداف پر تمام ممبر ممالک نے 2030 تک عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، یہ سترہ اہداف بالترتیب یہ ہیں، غربت کا خاتمہ، بھوک یعنی غذائی قلت کا خاتمہ، اچھی صحت، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی، قابل استطاعت توانائی، معیاری کام اور معاشی ترقی، صنعتیں ایجادات و انفراسٹرکچر، عدم مساوات کا خاتمہ، پائیدارشہر اور کمیونٹی، ذمہ دارانہ پیداوار و مصرف، موسمیاتی عملدرآمد، آبی جانداروں کا تحفظ، زمینی جانداروں کا تحفظ، امن انصاف اور مضبوط ادارے، ان اہداف کے حصول کیلئے باہمی تعاون ۔
یہ تمام وہ اہداف ہیں جن کے اندر آنے والی نسلوں کی ترقی مضمر ہے، اور ہماری زمین اور اس کے باسیوں کی بقا کیلئے بہت ہی اہم ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں ان پر کافی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے جبکہ ترقی پذیر اور تھرڈ ورلڈ ممالک میں ان اہداف پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، ترقی پذیر ممالک میں ان اہداف کے حوالے سے آگاہی کا بھی شدید فقدان پایا جاتا ہے، اور پہلا قرینہ ایک پر اثر آگاہی مہم کا ہے جسے حاصل کرکے ہی عملی طور پر ان اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے