ہوم << بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ - علیشبہ فاروق

بچوں میں بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ - علیشبہ فاروق

اولاد اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی بہترین پرورش کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نہ صرف ایک کامیاب انسان بنے ،بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک کرامت انسان ثابت ہو۔

بعض اوقات بچوں کی تربیت کے دوران والدین بچوں کے کچھ روئیوں سے نالاں نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں جارحانہ رویہ جنم لیتا ہے ۔جس کی وجہ نے بد مزاجی، زبانی اور جسمانی جارحیت کا مظاہرہ ،چڑچڑا پن اور اپنے اوپر قابو نہ پانا اور بے چینی جیسی کیفیت شامل ہوتی ہیں۔ ان پیچیدہ روئیوں کی وجہ سے بچوں کے اندر پریشانی اور ڈپریشن بھی پایا جاتا ہے ۔ایسے بچے کسی بھی سرگرمی میں خوش نظر نہیں آتے۔ ان میں عزت نفس کی کمی ہو جاتی ہے کچھ بچوں میں بھوک اور نیند بھی متاثر نظر آتی ہے۔ اگر پیچیدہ رویے زیادہ شدت اختیار کر لیں تو بچوں کے ذہن میں خود کشی جیسے خیالات بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

بچوں میں جارحانہ رویے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ جن میں ذہنی صحت کے مسائل نمایاں ہیں۔ اگر بچہ مستقل طور پر غصہ کرتا ہے ،چیزیں توڑتا ہے ،مار پیٹ کرتا ہے یا بد زبانی کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی دباؤ ،گھریلو مسائل، یا والدین کی لڑائی جھگڑے بچوں میں ذہنی تناؤ پیدا کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر بچے کو پیار، توجہ یا تسلی نہ ملے تو وہ اپنے جذبات کو جارحیت کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔اگر بچہ ایک ایسے ماحول میں پرورش پا رہا ہے جہاں تشدد عام ہے تو وہ بھی اس کو اپنانے لگتا ہے ،اور اس کو اپنے مسائل کا حل صرف اور صرف تشدد کے ذریعے حل کرنا ہی نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ سے ڈپریشن، انیگزائٹی اور دیگر ذہنی بیماریاں بھی بچوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔

ان سب کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بہت سے معاشی مسائل میں گھرے ہوتے ہیں ۔بچوں میں ایسے رویہ اختیار کرنے کی ایک وجہ ان کے سماجی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ جب بچے دوسرے بچوں کو اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی خواہشات کو پورا کیا جائے ۔لیکن جب والدین اپنی معاشی تنگی کی وجہ سے ان کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتے تو بچہ بد مزاجی، غصے اور چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔والدین کی پریشانی بچوں میں بھی منتقل ہوتی ہے، اور وہ ذہنی و جسمانی دباؤ میں آ جاتے ہیں ۔والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ حد سے زیادہ فکر بچوں کو باغی بنا دیتی ہے۔

والدین اکثر اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے فکر مند رہتے ہیں، لیکن اگر ان کی یہ فکر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ان کو بھی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، جو ان کی زندگی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سمجھیں اور ان سے کھل کر بات کرنے کی کوشش کریں، تاکہ بچوں میں سے جارحیت جیسے رویے کا خاتمہ کر سکیں۔ بچوں میں جذباتی توازن پیدا کرنے کے لیے ان کی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ والدین کو اپنے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں اختیار کرنی چاہیے جن کی وجہ سے ان کا ذہنی دباؤ ختم ہو جائے ۔جیسے ان کو ورزش ،عبادت وغیرہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ بچوں کے اس رویے کو قابو میں رکھنے کے لیے انہیں پیار اور سمجھداری سے سمجھانا چاہیے نہ کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے، کیوں کہ سختی کرنے سے اکثر اوقات بچوں میں مختلف اور چیزیں جنم لے لیتی ہیں ۔

اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آنے کے باوجود اور ان کو ایک پرسکون ماحول فراہم کرنے کے باوجود ،ان کے بچے میں سے جارحیت جیسی عادت کا خاتمہ نہیں ہو رہا تو والدین کو چاہیے کہ وہ بہترین ماہر نفسیات سے مدد لیں ،تاکہ ان کا بچہ ان کی اولاد اور وہ خود بھی ایک پرسکون زندگی جی سکیں۔

Comments

علیشبہ فاروق

علیشبہ فاروق تخلیقی آرٹسٹ اور لکھاری ہیں۔ فیڈرل اردو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں زیرِتعلیم ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی امور پر نظر رکھتی ہیں۔ معاشرتی و سماجی موضوعات میں گہری دلچسپی ہے۔ ان کی تحریر تجزیاتی انداز لیے ہوتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کے ذریعے بھی خیالات و احساسات کا اظہار پسند ہے۔ ڈرائنگز اور شاعری تخلیقی ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment