ہوم << بہتی ہے گنگا جہاں - رقیہ اکبر چوہدری

بہتی ہے گنگا جہاں - رقیہ اکبر چوہدری

گزشتہ مہینوں میں کچھ کتب پڑھیں مگر بوجوہ ان کا ریویو نہ لکھ سکی۔ ریویو اگرچہ عموماً لوگ پڑھتے بھی کم ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں ایک مصنف کا حق ہے کہ اگر اس کی کتاب آپ کو اچھی لگے تو اپنی رائے ضرور لکھیں۔ شاید کسی کو ایسی ہی کتاب کی تلاش ہو اور آپ کا تبصرہ اسے کتاب پڑھنے یا پھر نہ پڑھنے کا فیصلہ کرنے میں معاونت کرے۔ سو آج آپ کے سامنے برادرم شکور پٹھان کا سفر نامہ ہندوستان "بہتی ہے گنگا جہاں" کا ریویو پیش کرتی ہوں۔ باقی کتب کا تعارف بھی ان شاءاللہ ایک ایک کر کے آپ کے سامنے پیش کر دوں گی۔

جیسا کہ نام سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت پہ مبنی سرگزشت ہے ۔مصنف کا آدھا خاندان تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر آیا تو آدھے نے وہیں ہندوستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ تقسیم ہند کی یہ "تقسیم" کئی گھرانوں کئی دلوں کیلئے مستقل روگ بن چکی ہے‌. اپنوں سے دوری کا غم دونوں طرف کے رہنے والوں کو اذیت میں مبتلا رکھتا ہے، دوریوں کا یہ دکھ کسک بن کر دل میں چبھتا رہتا ہے، لیکن دونوں اپنے اپنے مقام اور گھر چھوڑنے کو تیار بھی نہیں مگر ملنے کو بےتاب بھی رہتے ہیں۔

ہائے یہ تقسیم ۔۔۔کیسا اذیت ناک لفظ ہے اس کا درد صرف وہی جانتے ہیں جن کے اپنے خونی رشتے ایسے کسے بھی بٹوارے کی نظر ہو گئے۔ کشمیر کے لوگوں کو ای کدوسرے کے لیے تڑپتا دیکھتی تھی تو دل سے دعا نکلتی تھی کہ الٰہی انہیں ایک کر دے۔ فاصلوں کی صلیب پہ لٹکے یہ لوگ روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں، الٰہی ان کی مشکل آسان فرما۔۔اور جب شکور بھائی کا سفرنامہ پڑھا تو اس دعا میں اور شدت آ گئی۔

میں نے یہ سفرنامہ پڑھا نہیں بلکہ ان بٹے ہوئے لوگوں کے درد کو محسوس کیا، اپنوں سے دوری کے کرب کو ان کے مکالموں میں صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اپنے وطن کی محبت اپنے ہی سگے رشتوں سے کچھ رنجش پیدا کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے. سچ کہتے ہیں مٹی کی محبت خون کے رشتوں سے بھی زیادہ گہری ،پائیدار اور شدید ہوتی ہے، اس کا اندازہ مجھے یہ سفرنامہ پڑھ کر ہوا۔ آپا کے بابو اور راجہ کے بیٹے نے جہاں اپنی دھرتی ماں کے حوالے سے ذرا نخوت بھرا لہجہ محسوس کیا ، سارا لام لحاظ بالائے طاق رکھ اپنی سرزمین کا مقدمہ لڑنے کےلیے کمر بستہ ہو گئے. آپ بھی پڑھیے :
"اب تک میں باجی, خالہ اماں, خالو ابا اور خالہ زاد بہن بھائیوں کی محبت کے شیرے میں لتھڑا ہوا تھا. یوں لگ رہا تھا کہ چھٹی پر اپنے گھر آیا ہوں، اور امی ابا اور بہن بھائی آس پاس بیٹھے ہیں. اب اچانک احساس ہوا کہ میں ہندوستان میں آ گیا ہوں، وہ ہندوستان جس میں کبھی پاکستان بھی شامل تھا، اور جس سے الگ ہو کر ہم نے اپنا ملک بنا لیا، اور یہ کہ وہ اب تک ان کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا."

ہم پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں. اپنے ملک کی جتنی چاہے برائی کر لیں، لیکن کوئی اور میلی آنکھ سے دیکھے یا برے نفرت انگیز رویے کا اظہار کرے توکبھی برداشت نہیں کر سکتے، بلکہ ہم ہی کیا شاید ہر ملک کے باسی اپنی سرزمین کےلیے ایسے ہی حساس ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر مجھے اپنی سرائیکی زبان کی ایک کہاوت یاد آ جاتی ہے: "مارے ماء ــــ تیں مارن نہ ڈیوے" ، یعنی ماں اپنے بچے کو خود جتنا چاہے برا بھلا کہہ لے، مار پیٹ لے، لیکن کسی دوسرے کو ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس کے بچے کو انگلی بھی لگائے۔ یہی رویہ مصنف کا بھی تھا جب ہندوستان میں اپنی برادری کے لوگوں نے پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے قدرے حقارت اور نخوت کا مظاہرہ کیا۔
آگے کا مکالمہ پڑھیے:
" آپ پاکستان گئے ہیں کبھی؟" میں نے نرم آواز میں پوچھا. میرا لہجہ لیکن میری آواز کا ساتھ نہیں دے رہا تھا.
" نہیں ہمیں کرنا بھی کیا ہے وہاں جا کر۔ ہمارے رشتہ دار آتے رہتے ہیں، وہ تو بڑے خوش ہوتے ہیں یہاں آ کر.
جی, مجھے بھی بہت اچھا لگا یہاں آ کر لیکن ایک بار آپ پاکستان آ کر دیکھیں.
کیا ہے کراچی میں ؟ یہ بزرگ اب تک خاموش بیٹھے تھے۔
آپ پاکستان آئیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ آزاد ملک کسے کہتے ہیں۔
خالو ابا نے بے چینی سے پہلو بدلا. مہمان بزرگوں کے چہرے تمتمائے ہوئے تھے۔ سوچ رہے تھے کہ کس قدر گستاخ اور منہ پھٹ لڑکا ہے راجہ کا۔
یہاں آپ کو مکان لینے سے پہلے دیکھنا پڑتا ہے کہ آس پاس مسلمانوں کی آبادی ہے یا نہیں۔۔ پاکستان میں ہمیں ایسا کچھ نہیں سوچنا پڑتا۔"

یہ مکالمہ پڑھ کر میرے چہرے پہ مسکراہٹ اور دل میں یک گونہ مسرت امڈ آئی تھی۔ واضح رہے یہ سفرنامہ بوقت اشاعت تقریباً سنتیس برس قبل کے اسفار کی سرگزشت تھی ،اسی لیے آگے چل کر مصنف نے کچھ اعترافی وضاحت بھی کی، جو تحریر کے آخر میں آپ پڑھ سکیں گے÷
آگے کا سفرنامہ بھی ایسے ہی کئی دلچسپ مکالموں سے لبریز ہے۔ اس سفرنامے کی خاص بات ایک تو لکھاری کی سادہ زبان اور مکالماتی اسلوب ہے. دوسرا چونکہ ہم سب ہندوستان کے کلچر ،رہن سہن اور علاقوں سے بذریعہ فلم و ڈرامہ خاصی آگاہی رکھتے ہیں، اس لیے مصنف کے ساتھ ساتھ قاری بھی سفر سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔

کراچی کا بابو جب ممبئی ،اجمیر، جے پور، آگرہ اور دہلی کی سڑکوں پر محو سفر ہوتا ہے تو ساتھ والی نشست پہ اپنے قاری کو بھی بٹھا لیتا ہے. یوں لگتا ہے مصنف اور قاری ایک دوسرے سے باتیں کرتے ،مقامات و نظاروں کو ڈسکس کرتے آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں انھیں اپنے لباس و وضع قطع کو اس لیے بدلنا پڑا تاکہ بھارت کے فقیروں سے جان چھڑائی جا سکے، جو غالباً پاکستانیوں کو دیکھ کر پھیل جاتے تھے( ان دنوں ہماری کرنسی بھارت کے مقابلے میں زیادہ ویلیو ایبل تھی)

تاج محل کے بارے میں یہ انکشاف میرے لیے نیا تھا جو مصنف نے کہیں سنا تھا اور پھر خود بھی مشاہدہ کیا کہ : "بارش کے بعد ہمیشہ دو قطرے قبر کی پیشانی پہ آ گرتے ہیں۔ حالانکہ چھت کے اوپر ایک وسیع و عریض ہال ہے اور اس کے اوپر اصل چھت اور گنبد ہے، اور یہ ناممکن ہے کہ چھت کے ٹپکنے سے مقبرہ پر پانی ٹپک سکے۔آج اتفاق سے بارش ہوئی تھی اور میں نے بےساختہ قبر کے سرہانے دیکھا، آپ شاید یقین نہ کریں. وہاں دو قطرے نظر آ رہے تھے، میں نے ہاتھ بڑھا کر انگلیوں سے چھو کر دیکھا میری انگلیوں پر نمی تھی۔ اللہ جانے یہ بارش کے قطرے تھے یا کچھ اور."
ایک نہایت دلچسپ سفرنامہ ہے جسے پڑھتے ہوئے سچ مچ بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ عبد الشکور پٹھان کا یہ سفرنامہ ادب کے خزانے میں ایک بیش قیمت موتی ہے۔ مصنف کو بہت بہت مبارک باد ۔

اور آخر میں ان کی وہ اعترافی وضاحت جس کا اوپر ذکر کیا گیا : "یہ 1982 کے واقعات ہیں۔ ہندوستان بتدریج بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف جیسا کراچی اس وقت تھا، آج اس کی پرچھائیں بھی نظر نہیں آتی۔ ہم بسرعت تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں."

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ اور کالم نویس ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment