ہوم << مصری منصوبہ، پھر وہی یوسف پھر وہی بھائی -نواز کمال

مصری منصوبہ، پھر وہی یوسف پھر وہی بھائی -نواز کمال

غزہ میں جنگ بندی کا پہلا دور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے. دو ایک بار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھڑکیلے بیانات بھی داغے. کچھ امور کی انجام دہی میں عملاً بھی روڑے اٹکائے گئے. شمالی غزہ کے باشندوں کی واپسی کے عمل میں بلاوجہ تاخیر کی جاتی رہی. بھاری تعمیراتی مشینری کو رفح کراسنگ کے راستے غزہ میں لانے نہیں دیا جاتا رہا. غزہ کے لوگوں پر فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوئے ، جن میں لوگ شہید بھی ہوئے. یہ تمام حربے معاہدے کی خلاف ورزی کےزمرے میں آتے ہیں، چنانچہ ایک مرحلے پر حما.س نے مزید یرغمالی چھوڑنے سے انکار بھی کیا. اس موقع پر اسرائیل کی جانب سے فوج کے ریزرو دستوں کو ایک بار پھر غزہ کی سرحد پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ تیز و تند بیانات کے ذریعے بھی دھمکانے کی کوشش کی گئی، مگر تمام حربے اکارت گئے. مجبوراً پسپا ہونا پڑا. شمالی غزہ کے لوگوں کو ان کے علاقوں تک جانے دیا جانے لگا. ملبہ ہٹانے اور تعمیراتی کاموں کے لئے بھاری مشینری بھی غزہ کے تمام علاقوں میں پہنچنے لگی.

دوسری طرف حماس نے موقع بہ موقع اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا. جنگ بندی کے دو ایک دن بعد ہی مختلف علاقوں کے گورنرز اپنی اپنی ذمےداریاں سنبھال چکے تھے. اٹھارہ ہزار رضاکار عوام کی خدمت کے لئے غزہ کی گلی کوچوں میں پھیل چکے تھے. ملبہ ہٹانے، خیموں کی تنصیب اور عوام میں امدادی اشیاء کی تقسیم کے تمام معاملات بغیر کسی افراتفری کے انجام دیے جانے لگے. حماس نے قیدیوں کی رہائی کی ہر تقریب اپنی بلند حوصلگی کے اظہار اور قیدیوں سے اعلی اخلاقی برتاؤ کے مظاہر میں بدل دیا. اس سے عوام کو اطمینان انگیز پیغام گیا، دنیا کو دکھایا گیا کہ مشکل ترین حالات میں بھی جنگی اصولوں کی پاسداری کیسے کی جاتی ہے اور حریف کو بتایا گیا کہ ابھی ہم زندہ اور ہمارے حوصلے تابندہ ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ تمام رنگ ڈھنگ دیکھ کر اسرائیل کے سرکردہ رہنما کہہ اٹھے کہ جو کچھ غزہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم واضح طور پر ناکام ہوگئے ہیں.

ابھی جنگ بندی ہوئی ہی تھی کہ صدر ٹرمپ نے اہلِ غزہ کی غزہ سے بےدخلی کی شرلی چھوڑی. مصر اور اردن سمیت تمام عربوں نے اسے مسترد کر دیا. اسی دوران اردنی بادشاہ عبداللہ دوم نے امریکا کا دورہ کیا. جہاں ان کے ساتھ ایک ملازم کا سا سلوک کیا گیا. ویڈیوز اور تصاویر میں شاہِ اردن جس ذلت آمیز انداز میں ٹرمپ کے روبرو پائے گئے، اسے ساری دنیا نے دیکھا . شاہِ اردن کے ساتھ اس پست درجے کے برتاؤ کو دیکھتے ہوئے مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے امریکا کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں اپنے منصوبے کا پتہ پھینک دیا.

مصر نے تجویز پیش کی ہے کہ غزہ میں حماس کو مائنس کرکے ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے. یہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی کی زیرِ نگرانی غزہ کی تعمیرِ نو کی ذمےداری سنبھالے گی. تعمیرِ نو کے اس منصوبے میں مصر اور دیگر عرب ممالک سمیت کچھ یورپی ممالک بھی شریک ہوں گے.
آج بروز جمعہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک اہم اجلاس منعقد کیا جارہا ہے، جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، خلیج تعاون کونسل کے دیگر ارکان بحرین، کویت اور اومان سمیت فلسطینی اتھارٹی کی قیادت شریک ہوگی. اس اجلاس میں مصر کے پیش کردہ منصوبے پر تفصیلی گفت و شنید ہوگی. اس کے بعد 27 فروری کو قاہرہ میں عرب سربراہی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں مصری منصوبے کو حتمی شکل دے کر اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا جائے گا. اس اقدام کے بعد مصری صدر امریکا کے دورے پر روانہ ہوں گے اور ٹرمپ کے سامنے عرب ریاستوں کا متفقہ متبادل منصوبہ رکھیں گے.

جنگ بندی معاہدہ اچھی پیش رفت تھی مگر اس کا کمزور ترین پہلو یہ ہے کہ مجوزہ تین مراحل میں سے صرف پہلے مرحلے کی مکمل تفصیلات طے کی گئیں اور ان پہ اتفاق کیا گیا ، جبکہ دوسرے مرحلے کی تفصیلات کے بارے میں باقاعدہ گفت و شنید ہونی ہے. تین مارچ سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے بارے میں مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا. یہ مرحلہ نہایت اہم ہے. اس مرحلے سے حماس بخیریت گزر گئی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی. ذرا سی اونچ نیچ دوبارہ جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہے.دوسرے مرحلے پر اسرائیلی مرد فوجیوں کو رہا کیا جائے گا. بدلے میں مزید فلسطینی آزاد کیے جائیں گے. اس مرحلے پر اسرائیلی افواج کا انخلا بھی مکمل ہو جائے گا. جنگ کے خاتمے کا اعلان تیسرے اور آخری مرحلے پہ کیا جائے گا.

جہاں تک معاملہ ہے غزہ کی تعمیرِ نو کا، تو وہ اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے. مصر غزہ کی تعمیرِ نو کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سطح کی کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہا ہے. اس مہم میں دیگر عرب ممالک بھی ہم دوش و ہم قدم ہوں گے. یورپ کے اہم ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں. مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس وقت یورپ کا جذباتی جھکاؤ اہلِ فلسطین کی جانب ہے.

اسرائیل کی جانب سے بار بار معاہدے کی خلاف ورزی اور حما.س کی جانب سے موقع بہ موقع اپنی طاقت کا اظہار دراصل آئندہ ہونے والے مذاکرات کے لئے میدان تیار کرنے کی جستجو ہے. تاکہ نفسیاتی طور پر ایک دوسرے پہ حاوی ہوا جاسکے. حما.س ابھی تک نہیں جھکی اور نہ ہی آئندہ سپر ڈالے گی. اسے حریف کا کوئی خوف نہیں. اسے حقیقی معنوں میں سعودی عرب، اردن اور مصر جیسے ممالک سے خطرہ ہے، جو فلسطین اور اہلِ فلسطین کی بات تو کرتے دکھائی دے رہے ہیں، مگر قدم قدم پر حما.س پہ کراس لگاتے چلے جارہے ہیں. غزہ کے بارے میں مصری منصوبہ دراصل مائنس حما.س منصوبہ ہے. ریاض اجلاس میں حما.س کی بجائے فلسطینی اتھارٹی کو بلایا جارہا ہے. بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک ٹرمپ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہے. حقیقت یہ ہے کہ عرب ریاستوں کے چوہدری حماس کی ایرانی کیمپ میں جانے کی جسارت کو بھول نہیں پائے ہیں. قطر کی بلے بلے بھی حماس کی وجہ سے ہو رہی ہے اور سعودی عرب کے مقابلے میں اس کا قد کاٹھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے. دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی عرب ممالک اور اسرائیل کی مشترکہ باندی ہے. اس لیے عربوں کی جانب سے ہر معاملے میں فلسطینی اتھارٹی کو مقدم رکھا جارہا ہے. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کا مقبولیت کے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو فلسطین کے تمام علاقوں میں حما.س کی مقبولیت اوجِ ثریا پر دکھائی دے گی ، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کو اس کے گھر اور گڑھ رام اللہ میں بھی کوئی نہیں پوچھتا. آج اگر الیکشن کرائے جائیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ حماس غزہ اور مغربی کنارے دونوں علاقوں میں کلین سویپ کر جائے گی.

عرب متحد اور متفق ہو کر حماس کو منہا کرتے ہوئے ٹرمپ کے منصوبے کا جواب دینے جارہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک کے ایسے کسی بھی منصوبے کو حماس خوشی خوشی تسلیم کر لے گی جو دراصل اسرائیل کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتا ہو؟ اگر امریکا اور عرب ممالک مصر کے تجویز کردہ منصوبے پر اتفاق کر لیتے ہیں تو کیا حماس کے جانباز مہر بہ لب، خمیدہ سر اور دست بستہ غزہ سے نکل جائیں گے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے عوام حماس کو یوں پسپا ہونے کی اجازت دے دیں گے؟ یقیناً ایسا نہ ہو سکے گا. جنہوں نے اپنی بستی تاراج کروا لی اور جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے ہزاروں چلتے پھرتے پھولوں کو مسل دیا گیا ہو، وہ کبھی بھی آخری مورچے کے سپاہی کو مورچہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی حماس ایسے کسی بھی منصوبے کو قابلِ اعتنا سمجھے گی . اول تو امید ہے کہ عرب ممالک اس قبیل کی حماقت سے اپنا دامن بچائے رکھیں گے، جو حماس جیسی مزاحمتی قوت کے نشیمن پہ بجلی بن کر گرے. اور اگر انہوں نے ایسی کوئی حماقت کی تو فلسطینیوں پہ آئندہ نازل ہونے والی مصیبت کے ذمے دار بھی وہی ہوں گے.

مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے