ہوم << ہیلمٹ اک زندگی بخش احتیاط -عاصم نواز طاہرخیلی

ہیلمٹ اک زندگی بخش احتیاط -عاصم نواز طاہرخیلی

شیخ سعدیؒ کی حکایت ہے کہ ’’ ایک شخص طوفان کے ڈر سے ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا،ایک دوسرا شخص وہاں سے گزرا تو اس نے کہا کہ جب طوفان آتا ہے تو سب سے پہلے بجلی درختوں پر گرنے کا امکان ہوتا ہے اس لئے یہاں سے ہٹ جاؤ ،اس شخص نے جواب دیا کہ جیسے میرا رب چاہے، اس کے بعد دو مزید بندے وہاں سے گزرے اور انہوں نے اس شخص کو یہی نصیحت کی مگر اس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ اللہ مالک ہے۔ المختصر طوفان آیا، اسی درخت پر بجلی گری اور وہ آدمی فوت ہوگیا۔ کوئی بندہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے شیخ سعدی سے پوچھا کہ اتنا زیادہ ایمان ہونے کے باوجود اللہ نے اسے کیوں نہیں بچایا؟ شیخ سعدیؒ نے جواب دیا کہ وہ تین بندے بھی اللہ ہی نے بھیجے تھے مگر اس شخص نے اس بات کو نہ سمجھا اور ہلاک ہوا۔

یہ حکایت ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور زندگی موت کا مالک اللہ کو کہتے ہوئے احتیاط نہیں کرتے۔ یوں وہ خود سمیت گھر والوں کو بھی ہلاکت یا پریشانی میں ڈال دیتے ہیں۔ بےشک موت اور زندگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے لیکن اللہ نے اسلام میں حکمت و دانائی کو بھی زندگی کا اہم جزو قرار دیا ہے۔ اک پُرانی کہاوت ہے کہ: ’’احتیاط علاج سے اور پرہیز افسوس سے بہتر ہے۔‘‘ یہ کہاوت سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے، محتاط آدمی بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے جبکہ غیر محتاط شخص آگے چل کر بہت سی پریشانیوں میں گھِر جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات وہ دوسروں کے لئے بھی نقصان کا سبب بنتا ہے۔

احتیاط سے مراد کسی بھی کام سے قبل اس کے مثبت و منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ایسا طریقہ اختیار کرنا ہے کہ جس سے وہ کام بخیر و خوبی تکمیل کو پہنچے اور کسی نقصان و شرمندگی کا سبب نہ بنے۔ انسانی زندگی کے تحفظ کے لئے اسلام نے ’’احتیاط‘‘ پر بہت زور دیا ہے، قرآن پاک میں غفلت اور بے احتیاطی کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے ،ارشاد ہے : ترجمہ: ’’ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.‘‘ (البقرہ:۱۹۵) اس آیت مبارکہ میں اپنے اختیار سے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جو احتیاط کے خلاف بلا سوچے سمجھے کیا گیا ہو اور آگے چل کر کسی نقصان و تباہی کا سبب بن جائے درحقیقت وہ اپنے ہاتھوں ہلاکت کے زمرہ میں آتا ہے۔

رسول پاکؐ نے بھی کئی غزوات میں غلط نتائج سے بچنے کے لیے احتیاط کی تاکید کی۔اسی طرح جہاں دشمن اور مرض کا خوف ہو وہاں کنویں سے پانی لینے اور وضو کرنے کے بجائے تیمم کرنے اور حالتِ سفر میں مسافر کو تکلیف سے بچانے کے لیے فرض عبادات تک میں مسافر کی آسانی کے لیے قصر کا حکم دیا گیا ہے۔ انسان کے پاس اسکی جان اللہ کی طرف سے امانت ہے جس کی حفاظت انسان پر فرض ہے۔ اسی لئے اسلام نے انسانی زندگی کو بہت اہمیت دیتے ہوئے ہر پل حکمت و احتیاط کو اول جانا ہے۔

ہمارے شہروں میں ٹریفک حادثات کے باعث ہونے والی 60 فیصد اموات بغیر ہیلمٹ سفر کرنے والے موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثریت اسلامی تعلیمات کے برعکس احتیاط کا دامن چھوڑ کر ہیلمٹ کو غیر ضروری سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ مساجد، تعلیمی اداروں اور میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم کے زریعے اسلام کی اصل روح اجاگر کی جاتی رہے۔ حکمت و احتیاط کو اسلامی پیرائے میں عوام تک پہنچانا حکومت اور علماء کا اولین فرض ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق پاکستان کے تمام شہروں میں موٹر سائیکل پر بیٹھنے والے تمام افراد کے لیے بلا تفریقِ جنس ہیلمٹ لازم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ حفاظت سب کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح جرمانے اور بغیر ہیلمٹ پیٹرول نہ ملنا بھی موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ کا پابند کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہیلمٹ پہننے کے فوائد بھی اجاگر کیے جانے چاہییں مثلاََ :-

1۔۔ہیلمٹ پہننے سے نفسیاتی طور پر آپ خود کو محفوظ تصور کرنے لگتے ہیں۔
2۔۔انسانی جسم میں سر اور چہرہ بہت اہم ہیں۔ہیلمٹ کسی بھی حادثے میں آپ کا سر اور آنکھیں محفوظ رکھتا ہے۔
3۔۔ہیلمٹ پہننے سے دھول، مٹی اور خصوصی طور پر دھوپ سے بچا جاسکتا ہے- جس کی وجہ سے چہرہ فریش رہتا ہے۔
4۔۔ہیلمٹ اگر آپ چاہیں تو آپ کی شناخت بھی چھپا کر رکھتا ہے-
5۔۔ ہیلمٹ غیر ضروری شور، ہوا اور گرد و غبار سے بچا کر مسافر کو تھکاوٹ سے بچاتا ہے۔

مندرجہ بالا باتوں کا مقصد یہ ہے کہ اگر قانون کی سختی موجود نہ بھی ہو تب بھی موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننا بہت ضروری ہے تاکہ آپ حادثہ کی صورت میں اپنے سر اور چہرے کو محفوظ رکھ سکیں۔ درحقیقت ہیلمٹ اپنی جان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال سے محبت کی علامت بھی ہے کیونکہ آپ اپنے کنبے والوں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔

اگر آپ غور کریں پوری دنیا کے ترقی پزیر اور غریب ممالک میں کثیر عوام موٹر سائیکل پر ہی سفر کرتے ہیں۔ امیر لوگ زاتی گاڑیوں میں تمام سہولیات کے ساتھ سفر کرتے ہیں جبکہ غریب عوام بسوں اور ویگنوں میں دھکے کھانے سے بچنے کے لیے پیسے جوڑ جوڑ کر موٹر سائیکل خریدتے ہیں۔ ان کے لیے یہ امیروں کے بچوں جیسا شوق نہیں بلکہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے اک مجبوری ہوتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی سے نڈھال عوام پیسے بچانے کے لیے کئی اہم چیزوں کو بھی غیر ضروری سمجھ کر خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان اہم ترین چیزوں میں سے ایک چیز ہیلمٹ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موٹر سائیکل حادثات میں کثیر تعداد متوسط و غریب طبقے کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ صبح وقت پر نوکری کو پہنچنے یا واپسی پر گھر آنے کے لیے بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور اپنی یا کسی کی بےاحتیاطی کا نشانہ بن کر زندگی یا اعضاء سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔یوں وہ یا ان کا کنبہ زندگی بھر کے پچھتاوے کا شکار ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کے حالیہ شدید ترین طوفان نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ آئے دن مہنگائی سے لڑائی میں تھک کر کئ لوگوں کی خودکشیوں کے واقعات تواتر سے سننے کو مل رہے ہیں۔ ایسے حالات میں زندگی کی جنگ میں مصروف لوگوں کے لیے تین چار ہزار کا ہیلمٹ خریدنا تقریباََ نا ممکن ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہمارے ملک اور علاقوں کے مخیر حضرات، برانڈ بزنس کرنے والےتاجر، ادارے اور سیاسی حضرات توجہ دیں تو وہ پیسہ جو ان کی جیب سے اپنی مشہوریوں کے لیے ضائع ہوتا ہے وہی پیسہ ان کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بہت بڑے اجر کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیواروں پر لکھائی اور پمفلٹ و میڈیا کے زریعے مشہوری کے بجائے اسی پیسے سے اپنےنام، برانڈ بزنس کی نام، ادارے یا سیاسی پارٹی کے جھنڈے و مشہوری سے مزین ہیلمٹ بنوا کر موٹر سائیکل سواروں میں بانٹیں۔ اس طریقے سے کسی کی عزت نفس بھی مجروع نہ ہوگی اور لوگوں کی مدد کے ساتھ ساتھ مشہوری اور دنیاوی و اخروی عزت بھی ملے گی۔شاعر حفیظ بنارسی نے کیا خوب شعر کہا ہے:
تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوششِ انساں ہوتی ہے

اب اس دعا کے ساتھ تحریر کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ میرے وطن کے غریب کی مشکلات اپنے خصوصی کرم سے ختم کرے۔۔