عمران خان، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم، نے حالیہ ہفتوں میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام متعدد خطوط ارسال کیے ہیں۔ ان خطوط میں انھوں نے ملک کی سیاسی، معاشی، اور سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
عمران خان کے حالیہ خطوط اور ان کے ردعمل پر جو سیاسی ماحول بن رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت یا کم از کم اپنے مؤقف کی شنوائی کے خواہاں ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملنے والے جوابات میں کسی مفاہمت یا نرمی کے بجائے طنز اور سختی جھلکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں عمران خان کی یہ حکمتِ عملی ایک بڑی سیاسی غلطی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ان کی جماعت کے حامیوں کی توقع تھی کہ وہ سخت مؤقف پر قائم رہیں گے اور مزاحمتی سیاست کو مزید تیز کریں گے، مگر اس طرح کے خطوط نے ایک مختلف تاثر پیدا کیا ہے۔ اس سے ایک طرف ان کے حامیوں میں مایوسی اور اضطراب بڑھ رہا ہے، تو دوسری طرف مخالفین اسے ایک کمزور قدم قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پارٹی قیادت احتجاجی تحریک منظم کرنے میں ناکام رہی، اور عوامی ردعمل بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ حقیقت کہ عمران خان بار بار کال دینے کے باوجود وہ عوامی دباؤ پیدا نہیں کر پا رہے جو 2022 میں نظر آیا تھا، اس بات کی علامت ہے کہ یا تو لوگ تھک چکے ہیں، یا ان میں خوف اور غیر یقینی صورتحال نے جگہ بنا لی ہے۔ اس وقت عمران خان کو ایک واضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر وہ اسی طرح غیر مؤثر خط و کتابت اور بے سمت کالز پر انحصار کرتے رہے، تو یہ ان کی سیاسی ساکھ کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پہلا خط (3 فروری 2025):
اس خط میں عمران خان نے چھ نکات اٹھائے، جن میں 8 فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ پر کنٹرول کی کوشش، پیکا قانون کے تحت اظہارِ رائے پر پابندیاں، اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر جبر و تشدد شامل ہیں۔ انہوں نے عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔
دوسرا خط (8 فروری 2025):
اس خط میں عمران خان نے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گن پوائنٹ پر 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی قید کی سختیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں 20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔
تیسرا خط (13 فروری 2025):
اس خط میں عمران خان نے 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ دوبارہ اٹھایا اور کہا کہ منی لانڈرز کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے رول آف لا کی عدم موجودگی کو اس کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ 18 لاکھ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں اور 20 ارب ڈالر کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو چکا ہے۔
سیاسی نقصان اور عمومی تاثر:
تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے ان خطوط سے ان کی مایوسی اور پریشانی ظاہر ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ان خطوط کو فوج کے بارے میں عمران خان کی پرانی سوچ کی عکاسی قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے خطوط لکھنا، جب فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، افسوسناک ہے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
مزید برآں، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان خطوط کے ذریعے عمران خان اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ تاہم، اس طرح کے اقدامات سے ان کی اعصابی اور نفسیاتی کمزوری کا تاثر ملتا ہے اور یہ سیاسی و جمہوری اصولوں کے خلاف سمجھے جا رہے ہیں۔ قیادت کا تقاضا ہے کہ وہ ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرے، نہ کہ مفاہمت اور پسپائی کا۔ عمران خان کے یہ خطوط ان کی سیاسی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور ان کی قیادت کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
یہ نکتہ واقعی بہت اہم ہے کہ عمران خان ہمیشہ نیلسن منڈیلا کی استقامت اور عزیمت کی مثالیں دیا کرتے تھے، لیکن حالیہ خطوط میں وہ ایک مختلف رویہ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں منڈیلا کی جدوجہد سے متاثر ہوتے، تو وہ مشکلات کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہتے اور کسی قسم کی “رحم کی اپیل” یا فوجی مداخلت کی امید نہ رکھتے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید کاٹی، لیکن انہوں نے کبھی اپنے جابروں سے رحم کی درخواست نہیں کی، بلکہ ہر مشکل کو اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھا اور بالآخر عزت و وقار کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ عمران خان اگر واقعی اسی اصول پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، تو انہیں بھی استقامت، صبر اور غیر متزلزل مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر شکوہ کریں اور مداخلت کی امید باندھیں۔
یہ خطوط اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ وہ دباؤ میں آچکے ہیں اور اب ایک راہِ فرار یا کسی نرم گوشے کی تلاش میں ہیں۔ جو لوگ انہیں ایک “بہادر اور ناقابلِ تسخیر لیڈر” کے طور پر دیکھتے تھے، ان کے لیے یہ رویہ مایوس کن ہو سکتا ہے۔ سیاست میں نظریاتی جنگیں استقامت اور مضبوط اعصاب سے لڑی جاتی ہیں، نہ کہ رحم کی درخواستوں یا مفاہمتی پیغامات سے۔
تبصرہ لکھیے