شام ہوتے ہی ہلکے سرمئی لباس میں ملبوس وہ لڑکی باغ کے ایک خاموش کونے میں بیچ پر جا بیٹھی اور کتاب پڑھنے لگی ۔ یہ عمل آدھا گھنٹہ جاری رہا۔ اُس کا ہلکے سرمئی رنگ کا لباس سادہ اور عام سا تھا۔ وہ وہاں مقررہ وقت پر معمول کے مطابق آئی تھی اور یہ بات صرف ایک نوجوان جانتا تھا۔
وہ نوجوان آج پھر قسمت آزمانے لڑکی کے قریب آیا۔ آج اس کا صبر کام آیا کیونکہ ورق الٹتے ہوئے لڑکی کے ہاتھ سے کتاب پھیلی اور بیچ سے تقریباً ایک گز دور جا گری۔
نوجوان وقت ضائع کیے بغیر کتاب پر جھپٹا اور چہرے پر امید کا تاثر لاتے ہوئے کتاب لڑکی کو لوٹا دی۔ ساتھ ہی دھیمے لہجے میں موسم کے بارے میں اظہار خیال کر کے اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کا انتظار کرنے لگا۔ لڑکی نے نوجوان پر اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی وہ معمولی مگر صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھا۔ لڑکی کو اُس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔
" آپ چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں۔“ اُس نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔” بلکہ میں چاہتی ہوں کہ آپ بیٹھ جائیں۔ روشنی اتنی کم ہے کہ وقت گزارنے کے لیے بات چیت کرنا ہی بہتر ہے۔“
نوجوان خوش ہو کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا۔”آپ جیسی حسین لڑکی میں نے عرصہ دراز بعد دیکھی ہے۔ در حقیقت میں نے کل بھی آپ کو دیکھا تھا ۔ شاید آپ نہیں جانتیں کہ کوئی آپ کے تیرِ نظر کا شکار ہو چکا ہے۔“ ۔
لڑکی سرد مہری سے بولی ۔” آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک شریف خاتون ہوں ۔ بہر حال ابھی آپ نے جو کچھ کہا میں اُسے درخود اعتنا نہیں سمجھتی ۔ مجھے علم ہے کہ آپ جیسے لوگوں کے طبقے میں یہ عام سی بات ہے۔ میں نے آپ کو بیٹھنے کا کہا تھا، اگر آپ کو کوئی خوش فہمی ہو گئی ہے تو میں اپنی دعوت واپس لیتی ہوں ۔“
”میں معافی کا خواست گار ہوں۔“ نوجوان لجاجت سے بولا ۔ اُس کے چہرے پر طمانیت کے بجائے پچھتاوے اور بے چارگی کے رنگ پھیل گئے ۔ ” آپ جانتی ہیں کہ انسان بعض اوقات دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے ۔“
”یہ قصہ چھوڑئیے آپ ؟ آپ جو کچھ مجھے بتانا چاہتے تھے میں جان گئی ہوں ۔ آپ ادھر اُدھر آتے جاتے لوگوں کے یہ جھمگٹے دیکھئے یہ لوگ کیا کر رہے ہیں، انہیں کس بات کی جلدی ہے کیا یہ خوش ہیں ؟“
نوجوان کے سر سے عشق کا بھوت اتر چکا تھا وہ کچھ دیر ٹہلتے لوگوں کو گھورتا رہا پھر کہنے لگا ”ہاں انہیں دیکھنا دلچسپ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا عجیب و غریب ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ اب کچھ لوگ رات کا کھانا کھانے چلے جائیں گئے کچھ کہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا ماضی حال اورمستقبل کیسا ہے ۔“
”میں یہ جاننا بھی نہیں چاہتی“۔ لڑکی نے کہا ” مجھے ایسا کوئی تجسس نہیں، میں تو یہاں صرف اس لیے آتی ہوں کہ انسانیت میں رچی دھڑکنیں قریب سے سن سکوں۔ میں زندگی کے ایسے چوکھٹے میں رہ رہی ہوں جہاں ایسی دھڑکنوں کا کوئی وجود نہیں۔ آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ میں آپ سے گفتگو کیوں کر رہی ہوں مسٹر ؟“
”پارکنسن اسٹیکر“ نو جوان نے اپنا نام بتایا۔
”نہیں نا!“ لڑکی نے اپنی نازک انگلی اوپر اٹھاتے اور قدرے مسکراتے ہوئے کہا.” آپ جلد جان جائیں گے۔ در اصل زیادہ دیر اپنی پہچان چھپائے رکھنا ناممکن ہے۔ میں نے بھی ملازمہ والا نہ نقاب اور ٹوپی پہن کر اپنی شخصیت چھپا رکھی ہے۔ میری اس ہیئت کو میرے شوفر نے جس حیرانی سے دیکھا وہ قابل دید تھی۔ اس شہر میں پانچ چھ خاندان ہی شریف دیدگی۔ سمجھے جاتے ہیں اور انہی میں سے ایک میرا بھی ہے۔مسٹر سیکن پاٹ ! آپ سن رہے ہیں نا ؟
”پارکسن اسٹیکر ..“نوجوان نے تصحیح کی۔ اس کا لہجہ مودبانہ تھا۔
”مسٹر پارکنسن اسٹیکر میری بڑی خواہش تھی کہ کسی ایسے شخص سے بات کروں جس میں کوئی بناوٹ نہ ہو جو دولت کی ملمع کاری سے آزاد اور احساس برتری سے بالاتر ہو۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ میں اپنے خول سے کتنی عاجز آگئی ہوں ۔ پیسہ پیسہ پیسہ ! مجھے ان لوگوں سے وحشت ہے جو کٹھ پتلیوں کی طرح میرے گرد ناچتے پھرتے ہیں۔ میں ہیرے جو ہرات سیر و تفریح، لذیز کھانوں اور ہر قسم کی تعیشات سے تنگ آچکی ہوں ۔“
”میرے خیال میں تو...“ نوجوان اٹک اٹک کر بولا۔”دولت ایک اچھی چیز ہے۔“
ہاں ایک حد تک، لیکن جب آپ کروڑوں کے مالک ہوں تو انسان اُکتا جاتا ہے ! لڑکی کے لہجے میں مایوسی تھی۔ کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے بات بڑھائی.
” اسی اکتاہٹ نے میری زندگی کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ تفریحات دعوتیں تھیٹر رقص کی محفلیں عشائیے سب پر دولت کی تہ چڑھی ہوئی ہے۔ بعض اوقات تو شمسپین کے گلاس میں برف گرنے کی آواز مجھے پاگل کر دیتی ہے ۔“
پارکنسن اسٹیکر کے چہرے پر آسودہ مسکراہٹ کھیلنے لگی وہ کہنے لگا۔”میری ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ میں دولت مند اور فیشن ایبل لوگوں کے بارے میں سنوں اور پڑھ سکوں۔ میں ایک غبی انسان ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ مجھے اس سلسلے میں صحیح معلومات حاصل ہوں۔ اب دیکھیے نا میرا خیال تھا کہ شمپین کو بوتل میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے نہ کہ گلاس میں۔“
لڑکی اس بات سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ہنسی پھر وضاحت کرتے ہوئے بولی۔” آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے امرا جدت پسندی اپنا کر روایات سے انحراف پر تلے رہتے ہیں۔ آج کل یہ رواج بن چکا ہے کہ شمپین ٹھنڈی کرنےکے لئے برف استعمال کی جائے ۔“
اچھا! تو جوان نے عاجزانہ انداز میں کہا۔ ”ہم عوام کو امرا کی ان اندرونی باتوں کا علم نہیں ہو پاتا۔“ لڑ کی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ”بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ کسی کم درجے کے نوجوان سے شادی کر لوں ... ایسا آدمی جو کاہل کے بجائے محنت کش ہو لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ طبقہ بالا اور دولت کا تقدس میری مرضی سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ اس وقت میرے دو امیدوار ہیں۔ ایک جرمنی کی ریاست کا گرینڈ ڈیوک ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی ایک بیوی ہے جو اس کے مزاج اور ظلم کی وجہ سے پاگل ہو چکی ہے۔ دوسرا امیدوار ایک انگریز ہے۔ لیکن یہ شریف زاده اتنا سرد مہر اور دم ہلانے والا ہے کہ میں اس پر ڈیوک کے ظلم کو ترجیح دوں گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ باتیں آپ کو کیوں بتارہی ہوں مسٹر پیکن اسنیکر“
”پارکنسن اسٹیکر“ نو جوان لمبی سانس لےکر دوسری بار اپنے نام تصیح کرتے ہوئے بولا ۔”آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ میں آپ کی ان راز دارانہ باتوں کو کتنی اہمیت دے رہا ہوں۔“
لڑکی نے نوجوان پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی یہ اس بات کی غماز تھی کہ دونوں کے درمیان وسیع طبقاتی خلیج حائل ہے۔
”مسٹر پارکنسن اسٹیکر ! آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟“
”ادنی درجے کا ملازم ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ ایک دن ضرور کچھ نہ کچھ بن جاؤں گا۔ یہ بتائیے آپ نے تھوڑی دیر قبل یہ بات پورے وثوق سے کہی تھی کہ آپ کسی ادنی درجے کے نوجوان سے شادی کرنا پسند کریں گی ؟“ نوجوان نے پوچھا۔
”بے شک لیکن میں نے کہا تھا شاید۔ میں نے بتایا نا اس وقت ایک ڈیوک اور ایک انگریز شریف زادہ مجھ سے شادی کے امیدار ہیں۔ تاہم میری خواہش یہی ہے کہ میں کسی عام آدمی کی بیوی بنوں ۔“
”میں ایک ریستوران میں ملازمت کرتا ہوں۔“ پارکنسن اسٹیکر نے اُسے بتایا۔
لڑکی قدرے کسمسائی، پھر پوچھا. ”بیرے کے طور پر تو نہیں وہ پھر شاید کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی محنت میں عظمت تو ہے لیکن نوکر چاکر ہرکارے اور ...“
”میں بیرا نہیں بلکہ اس ریستوران میں خزانچی ہوں ۔“
نوجوان باغ کی مخالف سمت واقع ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جہاں لفظ ریستوران روشنی میں نمایاں تھا۔
لڑکی نے ادھر دیکھتے ہوئے بائیں کلائی پر پہنی اپنی خوبصورت چھوٹی سی گھڑی پر نگاہ ڈالی اور پھر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ اُس نے کمر سے بندھے ایک خوش رنگ تھیلے میں کتاب ٹھونسی مگر وہ صیح طرح سمانہ سکی کیونکہ قدرے بڑی تھی۔
”آج آپ کام پر نہیں گئے ؟“ اس نے نوجوان سے پوچھا۔
” آج میری رات کی ڈیوٹی ہے۔“ نوجوان نے بتایا ”ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔ کیا میں دوبارہ آپ سے مل سکتا ہوں ؟“
”معلوم نہیں، شاید میں دوبارہ اس ذہنی کیفیت سے نہ گزر سکوں۔ اچھا اب میں چلتی ہوں، مجھے ایک عشائیے میں شرکت کرنا ہے۔ اس کے بعد تھی اور پھر وہی گھسے پٹے معمولات زندگی ۔ آپ نے شاید باغ کے کونے میں کھڑی کار دیکھی ہوگی وہی سفید رنگ والی ۔“
”جس کے پہیوں پر سفید دھاریاں بھی ہیں؟“ نوجوان نے اپنے ابرو سکیڑتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں میں اکثر اسی گاڑی پر آتی ہوں ۔ پیری میرا شوفر انتظار کرتا ہوگا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں باغ کے پار واقع بازار میں خریداری کرنے جاتی ہوں ۔ زندگی کے ڈھنگ کتنے نرالے ہیں کہ ہمیں شوفروں کو بھی دھوکے میں رکھنا پڑتا ہے۔
اچھا شب بخیر !“
”لیکن اب اندھیرا ہو چکا ہے۔“ پارکنسن اسٹیکر نے کہا..”اور باغ میں بد تمیز لوگوں کی کمی نہیں، کیا میں آپ کے ساتھ…“
لڑکی ٹھوس لہجے میں بولی ” اگر آپ کو میری عزت کا ذرا بھی احساس ہے تو میرے چلے جانے کے بعد دس منٹ تک یہیں بیٹھے رہے ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ لوگ ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں..اچھا شب بخیر“
وہ شاہانہ انداز میں تیز تیز چلتی باغ عبور کرنے لگی۔ نوجوان نے باغ کی جھاڑیوں کے پیچھے لڑکی کا حسین سراپا گم ہوتے دیکھا تو اٹھ کر اس کونے کی طرف چل پڑا جہاں سفید گاڑی کھڑی تھی۔ وہ ہوشیاری سے درختوں کے پیچھے چھتے ہوئے لڑکی پر نظریں جمائے اس کا تعاقب کرنے لگا۔
لڑکی جب باغ سے نکلی تو اُس نے سر گھما کر سفید گاڑی کی طرف دیکھا اور پھر سڑک پار کرتے ہوئے سامنے چلی گئی۔
نوجوان کی نظریں لڑکی کا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ پیدل راہ پر چلتے چلتے اس ریستوران میں داخل ہو گئی جہاں نہایت روشن سائن بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہ ریستوران علاقے کے ان چند ریستورانوں میں سے ایک تھا جہاں ستا کھانا ملتا تھا۔ لڑکی اس کے عقب میں پہنچی اور پھر کچھ دیر بعد اس کے اندر نمودار ہوئی۔ اب وہ نقاب اور ٹوپی اتار چکی تھی۔ اُسے دیکھتے ہیں استقبالیے پر کھڑی سُرخ بالوں والی ایک لڑکی نیچے اُتر آئی اور ہلکے سرمئی لباس والی لڑکی نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد نوجوان نے ہاتھ پتلون کی جیبوں پتلون کی جیبوں میں ڈالے اور آہستہ آہستہ پیدل راہ پر چل پڑا۔ اچانک اس کا پاؤں ایک ضخیم کتاب سے ٹکرایا اور وہ لڑھک کر سڑک پر جا گری۔
اُس کے خوبصورت سرورق سے نو جوان پہچان گیا کہ بینچ پر بیٹھی لڑکی یہی کتاب پڑھ رہی تھی۔ اُس نے اسے بے دھیانی سے اٹھایا اور اس کا نام پڑھا New Arabian Night نئی الف لیلہ ) کسی سیٹونسن نامی شخص کی لکھی ہوئی تھی۔ اُس نے کتاب گھاس پر پھینکی اور کچھ تذبذب کے عالم میں آگے چل پڑا۔ وہ جیسے ہی اپنی سفید گاڑی میں بیٹھا اس کے ہونٹوں سے صرف دو لفظ نکلے.
” ہنری ! کلب۔“
تبصرہ لکھیے