خدا کے وجود کے منکر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسان کو کسی Conscious Being یعنی "باشعور وجود" نے نہیں بنایا. اگر ایسا ہوتا تو انسانی رنگ ، نسل ،زبان ، رویوں ، جذبات اور اعمال میں کبھی الگ نہ ہوتا ۔ بلکہ ایک Uniform Society میں رہ رہا ہوتا جہاں پر کسی قسم کی کوئی برائی نہ ہوتی ۔؟ ایسا اعتراض ملحد اویس اقبال نے مفتی یاسر واجدی کے ساتھ مناظرے میں بھی کیا ۔
اصل میں ملحدین خیر و شر کے فلسفے کو خدا کے وجود پر تھونپ کر اپنے نفس کو پابندی ، اتباع اور اطاعت سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔
ایک انسان نے اینڈرائیڈ موبائل ایجاد کیا ہے ۔ اس پر ایک عالم دین حصول علم کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔ اور ایک بے حیاء انسان اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے " پورنو گرافی " دیکھتا ہے ۔ تو کیا ملحد صاحب یہ کہنا شروع کر دیں گے چونکہ انڈرائیڈ فون انسان کو ایک اخلاقی برائی کی طرف راغب کر رہا ہے اس لئے اس کو کسی Conscious Being یعنی باشعور وجود نے نہیں بنایا۔؟ یا وہ یہ آرگومنٹ سامنے رکھے گا کہ موبائل تو انسان کی سہولت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ اب انسان کے سامنے دو راستے ہیں کہ وہ اخلاقی برائی کی طرف مائل ہو جائے یا علم کے حصول کے لئے اسے استعمال کرے ۔ پس ثابت ہوا کہ " اختیار دینا برا نہیں ہے برائی کو اختیار کرنا برا ہے۔"
ایک انسان نے " کلاشنکوف " ایجاد کی ۔ اب ایک انسان کلاشنکوف " ڈکیتی کرنے ، راہزنی کرنے کے لئے خریدتا ہے ۔ اور دوسرا انسان اس کلاشنکوف کو اپنے تحفظ اور دفاع کرنے کے لئے خریدتا ہے اس کا مقصد کسی انسان کو قتل کرنا نہیں ہوتا ۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اس کائنات میں " کلاشنکوف " کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ یا اسے کسی Conscious Being یعنی باشعور وجود نے نہیں بنایا کیونکہ اس کے سبب انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔ ؟
یہاں پر ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں اسلحہ تیار ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے متوقع اور غیر متوقع دشمن سے اپنا تحفظ کرے ۔ اب اگر کوئی انسان اس ایجاد سے شر پھیلاتا ہے ۔ فساد کرتا ہے تو کیا جس نے یہ ایجاد کی وہ برا انسان کہلائے گا ۔؟ برا انسان تو وہ ہو گا جو اس ایجاد کو انسانیت کی بقا کی بجائے انسانیت کے قتل عام کے لئے استعمال کرے ۔ برائی ہمیشہ وجود میں ہی تب آتی ہے جب انسان اس برائی کو اختیار کرتا ہے ۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ برائی کو پیدا کرنے کا مقصد معاشرے میں اچھائی کی نشاندہی اور پہچان ہے ۔ اگر صرف اچھائی ہی پیدا کر دی جاتی تو آزمائش کا فلسفہ ہی ختم ہو جاتا ۔ گناہ و ثواب کا وجود ختم ہو جاتا ۔ سزا و جزاء کا فلسفہ بے معنی ہو جاتا ۔
دنیا میں قوانین بنائے گئے ہیں آخر کیوں ! ایک شخص یورپ کی سڑک پر کوڑا کرکٹ پھیلاتا ہے تو اس کو جرمانہ کیا جاتا ہے کس لئے اس لئے کہ آئندہ وہ یہ عمل کرنے سے رک جائے ۔ اور اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو تکلیف نہ ہو ۔ دنیا میں اکثر ممالک میں قتل کی سزا موت ہے ۔ دنیا میں یہ ملحدین تو کہتے ہیں کہ مقتول اور اس کے ورثاء کو انصاف ملنا چاہیئے ۔ وہ انصاف کس بنیاد پر دیا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ ایک انسان نے برائی اختیار کی کسی بے گناہ کو قتل کیا ۔ اب ایک قاضی ایک جج ایک اچھائی اختیار کرے گا جب وہ عدل و انصاف کر کے قانون پر عمل درآمد کرے گا اور مقتول اور اس کے ورثاء کو اس دنیا میں انصاف دے گا۔ اب دنیا کی جن جمہوریتوں میں قتل کی سزا موت ہے یہ قانون بھی انسان کا بنایا ہوا ہے تو کیا ہم اس قانون بنانے والے انسان کو Unconscious Being کہیں گے ؟
نہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ انسان کا قاتل برا ہے ۔ چونکہ قتل ایک برائی ہے اور قاتل نے اس برائی کو اختیار کیا ۔ انسان کو قاتل بننے سے روکنے کے لئے سزائے موت کا قانون وضع کیا گیا کہ وہ اس خوف سے قتل نہ کرے کیونکہ جب وہ کسی قاضی ، کسی قانون اور کسی عدالت کی گرفت میں آئے گا تو اس کو بھی اس قتل کرنے کے بدلے موت دے دی جائے گی ۔
اب کہنے کو موت بری ہے لیکن معاشرے کی بقا اور حیات کے لئے قاتل کو سزائے موت دیا جانا اصل میں ایک حکمت اور دانائی ہے ۔ اللہ نے سورہ الملک میں ارشاد فرمایا کہ
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ
وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی بہت عزت والا،بہت بخشش والا ہے۔
انسان کا پیدا کیا جانا اور اس کو موت کا دیا جانا یہ سب اللہ نے اس لئے پیدا کیا کہ وہ خیر و شر کے فلسفے کو انسانوں کے ذریعے آزما سکے ۔ وہ دیکھ سکے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے کون برے ۔ اللہ نے کسی انسان کو یہ علم نہیں دیا کہ اس نے تقدیر میں اس کو جنتی لکھا ہے یا جہنمی ۔ اس نے یہ علم اپنے لئے خاص کر رکھا ہے ۔ لیکن یہ نصاب ضرور سمجھا دیا ہے ۔ یہ ضرور بتا دیا ہے کہ بھلائی کیا ہے اور برائی کیا ہے ۔ کس عمل سے ثواب ملے گا کس عمل سے گناہ ملے گا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان کی تخلیق کے پیچھے باشعور وجود یعنی Conscious Being نہ ہوتی ؟ تو وہ انسان کو یہ کیوں بتاتا کہ فلاں عمل اچھا ہے فلاں برا ہے ۔ فلاں عمل سے ثواب ملے گا فلاں سے گناہ۔
شر کو پیدا کرنے کے بعد شر سے بچنے کا حکم بھی دیا ۔ اب اگر کوئی ملحد شر کو خیر بنا دے اور خیر کو شر بنا دے تو اس میں خالق کائنات کا کیا قصور؟ اللہ نے قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّـهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٢٣﴾
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔( الجاثیہ)
انسان خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے ۔ تبھی تو اسے ہر برائی ہر شر میں خیر نظر آتی ہے ۔ ایک مثال یوں دیکھ لیجیئے کہ اللہ نے قرآن و حدیث میں شراب کو حرام قرار دیا ۔ لیکن ملحد کا نفس شراب پینے کو برائی نہیں سمجھتا ۔ اب ملحد شراب کے نشے میں جب وہ اپنے حواس کھو دیتا ہے
تو کسی خاتون سے جبری زنا کر بیٹھتا ہے اور بد حواسی میں ہی اس کا قتل بھی کر دیتا ہے تو کیا وہ بد حواسی کو برائی کہے گا یا شراب کو ؟
کوئی بھی باشعور انسان اس بد حواس انسان کو برا کہے گا جس نے شراب پی ، بد حواس ہوا ، جبری زنا کیا اور بدنامی اور قانون کے شکنجے سے بچنے کے لئے اس نے قتل کیا ۔ شراب پینا ، جبری زنا کرنا ، اور نا حق قتل کرنا تینوں برائیوں کو پیدا ضرور کیا گیا ۔ لیکن یہ تینوں برائیاں ، یہ تینوں گناہ ، یہ تینوں ظلم تب ہی وجود میں آتے ہیں جب کوئی انسان ان کو اختیار کرتا ہے۔
اب ملحدین جواب دیں کہ برائی پیدا کرنے والا بے شعور Unconscious Being ہے جس نے برائی کی نشاندہی کی ، اس کو گناہ قرار دیا اور اس سے بچنے کا حکم دیا ؟ یا وہ جس نے برائی اختیار کی ؟ اس سوال کا جواب ملحد تب تک نہیں دے سکتا جب تو وہ یہ تسلیم نہ کر لے کہ انسان خواہشات نفس کو جب بھی اپنا معبود بناتا ہے اور حقیقی معبود کی کی نفی کرتا تو معاشرے میں شر پھیلتا ہے ، معاشرے میں اس برائی کی بنیاد پر نا انصافی پھیلتی ہے ۔ اور وہ آزمائش کے فلسفے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ۔
تبصرہ لکھیے