ہوم << پنجابیوں سے نفرت کیوں ؟ چند سوالات - ثاقب انور

پنجابیوں سے نفرت کیوں ؟ چند سوالات - ثاقب انور

گزشتہ دنوں بلوچستان میں سات پنجابیوں کو ایک بار پھر سے شناختی کارڈ دیکھ کر شہید کردیا گیا . کچھ عرصہ قبل اسی بلوچستان سے ۲۳ غریب پنجابی مزدوروں کی لاشوں کا تحفہ'' غیور '' پنجاب کے عوام کو دیا گیا اور مجموعی طور پر ۴۳ افراد شہید ہوئے. یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں اور نہ ہی یہ پہلی بار ہوئے ہیں کہ شناختی کارڈ دیکھ کر ایک مخصوص قوم کو نشانہ بنایا گیا.

اس وقت کہنے والوں نے کہا کہ یہ اکبر بگٹی کی برسی پر انتقامی کارروائی تھی تو ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ اکبر بگٹی کے قتل میں کیا ان غریب پنجابیوں کا ہاتھ بھی تھا ؟ کیونکہ اس وقت طاقت ایک اردو سپیکنگ شخص کے پاس تھی جبکہ اس دوران ایک گجرات کا پنجابی ہی بیچ میں آخری وقت تک صلح صفائی اور مذکرات کی کوشش کرتا رہا، لیکن ایک ڈکٹیٹر کے فیصلوں پر اس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ پنجابی جو بلوچستان کے وسائل کھاتے ہیں تو اس ناانصافی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے تو میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوگیا کہ اگر ان عام پنجابیوں نے بلوچیوں کے وسائل کھائے ہیں تو اپنوں اور گھر سے کوسوں دور ایک ایسے علاقے میں مزدوری کیوں کرنے جاتے ہیں ؟ جہاں کی شاید ان کومقامی زبان بھی نہ آتی ہو۔

کہنے والوں نے کہا یہ کسی بلوچی نے پنجابی کو نہیں دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے، تو پھر ایک سوال ذہن میں اٹھا کہ اگر ایسے ہی پنجاب میں ''دہشت گرد'' بلوچوں کو مارتے ہیں تو کیا یہی دلیل دی جائے گی ؟ یا پھر جگہ جگہ پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف منہ پھاڑ پھاڑ کر نفرت انگیز تقاریر کی جائیں گی ؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ مسنگ پرسنز کردیے جانے کا ری ایکشن ہے تو ایک معصومانہ سوال انگڑائی لیتا ہے کہ سن ۴۸ میں کون سا شخص مسنگ ہوا تھا، یا پنجاب نے بلوچستان کے کون سے وسائل پر قبضہ کیا تھا ؟ یا کون سا پنجابی اس وقت طاقت میں تھا ؟ کہ جن کے خلاف کوئی احتجاج یا جلسہ نہیں، بلکہ عبدالکریم کی سربراہی میں پہلی بار ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے لیے گئے تھے اور فوج پر حملے کیے گئے. عجیب دیس ہے میرا کہ پھر بھی ہتھیار ڈالنے پر عام معافی کا اعلان کردیا گیا۔ جن ملکوں کی ترقی اور قانون و انصاف کے شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں وہاں ریاست کے خلاف اس طرح ہتھیار اٹھانے والوں کو صرف غدار تصور کیا جاتا ہے، اور سزا موت کے سوا کچھ نہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ لوگ ناراض ہیں، ان معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ دماغ میں مختلف کیمکلز نے حرکت کی اور نتیجہ سوال کی صورت آیا کہ کیا واقعی یہ ناراض لوگ ہیں؟ نہیں یہ بیرونی طاقوں کے پے رول پر علیحدگی پسند گروہ ہے. مذاکرات اس سے کیے جاتے ہیں جو کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پہ چلنے والے ہوں. یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وہ گریٹر بلوچستان کی بات کرتے ہیں، جس کو پاکستان کی ریاست سے چھینا جائے گا ۔دورِ حاضر میں وطن عزیز کے سوا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو اس قسم کی علیحدگی پسند تحریک کے باوجود نرمی سے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کررہا ہے، جبکہ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ چین نے ۲۰۲۰ میں ہانگ کانگ میں نیشنل سیکورٹی لا نافذ کیا جس کے تحت ریاست مخالف سرگومیوں میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایران نے مہسا امینی کی موت کے بعد اٹھے طوفان کو طاقت کے زور سے کچلا اور سخت ترین سزائیں دیں۔ ایسے ہی آپ کو امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، سپین،جرمنی اور دیگر مغر بی ممالک میں نظر آتا ہے کہ جب جب وہاں کسی نے حکومت کی رٹ کو چیلیج کیا تو ریاست نے بلاتفریق ان پر اپنی زمین تنگ کردی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ مظلوم لوگ ہیں، ان کے حقوق ان کو نہیں پہنچائے گئے۔ ہم پھر جوابی سوال کریں گے کہ مملکت کے آغاز میں ہی ۶۳،۶۲،۵۹،۵۸،۴۸ میں ان سے کون سے ایسی زیادتی ہوگئی تھی؟ مہذب شہری کی طرح احتجاج کی صورت اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کی بجائے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، فوج پر حملے شروع کردیے.

پھر ان دہشت گردوں کا نشانہ صرف پنجابی ہی کیوں؟ یہ جن ادوار کی بغاوت کا میں نے ذکر کیا ہے، اس میں طاقت کس پنجابی کے پاس تھی ؟ پہلا بھرپور آپریشن بھٹو کے دور میں کیا گیا . بھٹو پنجابی تھا نہ اس وقت کا آرمی چیف پنجابی تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے کا بہانہ ہے کہ پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف نفرت پیدا کردی جائے. کلبھوشن یادیو پنجاب سے نہیں پکڑا گیا تھا. اگر ان دہشت گردوں اور ان ترجمانوں کو توفیق ہو تو سابقہ بھارتی انٹیلی جنس افسر کی کتاب میں پڑھ لیں کہ کیسے بھارت ان دہشت گردوں کی افغانستان کے ذریعے مالی و جدید اسلحے اور تربیت سے معاونت کررہا ہے۔ افغانستان تو قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی پاک مخالف عناصر کی آماجگاہ و تربیت گاہ ہے، سوائے ملا عمر کے دور کے، لیکن آج کل اکثر صحافیوں کو صرف ریٹنگز اور ویوز سے دلچسپی ہے،اور دشمن کا دشمن ہمارا دوست کے فارمولے پر اپنا منجن بیچتے ہیں۔ فوج کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ دہشت گردوں اور حقیقی مظلوموں میں تمیز کرنے سے بھی گئے۔

کہنے والےکہتے ہیں کہ پنجابی مزدور وہاں جاتے کیوں ہیں ؟ بھائی اگر یہی سوچ پنجاب میں اپنائی جائے تو تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے دیگر صوبوں کے طلبہ کو پنجاب بدر کردیا جائے تو کیا پنجابی حق بجانب ہوں گے ؟ یہاں صدیوں سے آباد بلوچ جو کاروبار، تعلیم، زراعت اور سیاستدانوں سے بھی پنجابیوں کو یہ مطالبہ کرنے کا حق دیتے ہیں ؟ ایک منصف انسان کا پیمانہ کم از کم ایک ہی ہوتا ہے۔ میں عام بلوچ عوام اور ان دہشت گردوں میں فرق کا قائل ہوں، اور حقیقت بھی یہی ہے، لیکن عام بلوچ بھائی سے یہ شکایت ضرور ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا اس حد تک شکار ہوگئے کہ عام پنجابیوں کے قتل پر زبانیں بند کیے بیٹھے ہیں جبکہ اس کے برعکس پنجابیوں نے ماہ رنگ بلوچ کو بھی بھرپور سپورٹ کیا ، منظور پشتین کی رائے کو بھی تحمل سے سنا. پنجاب میں جگہ جگہ آپ کو کوئٹہ ہوٹل کے نام سے بورڈ لگے نظر آئیں گے. مختلف سڑکیں بلوچوں کے نام پر ہیں. بلوچ سجی، یا بلوچ دمپخت آب گوشت جیسی روایتی کھانے عام ملتے ہیں، لیکن بلوچستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے . وہاں آپ کو کبھی بھی پنجاب فورڈز، پنجاب لسی، لاہوری چرغہ نہیں ملے گا. اور تو اور بلوچستان کی ہر فلور مل میں گندم پنجاب سے جاتی ہے لیکن پنجاب فلور ملز کے نام کبھی کوئی مل نظر نہ آئے گی۔

بلوچستان میں ایک کثیر پنجابی اساتذہ کی تعداد نے وہاں کے دور داراز علاقوں میں بلوچ عوام کو علم سے روشناس کروایا ، مگر آج وہاں عام پنجابی کو اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے، جبکہ پنجاب میں بلوچ، پختون بے خوف اور امن و اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں۔ ریاست مخالف اس پروپیگنڈے نے یہ رنگ بھی دکھایا کہ صدیوں سے بلوچستان میں آباد اقلیتی برادریاں بھی نقل مکانی کرگئیں، آج اکا دکا گھر ہی بلوچستان میں رہ گئے ہیں۔ عام بلوچ عوام نے بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کو بھی پنجاب سے ہی منسلک سمجھ لیا جبکہ انھوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے قبائلی سردار، وڈیرے، سیاستدان کس طرز کی زندگی گزارتے ہیں اور ان کی اولادیں کہاں کہاں اور کس کس ملک میں گھومتی ہیں۔ پنجاب کے چودھری اور زمیندار نے عام عوام کا خون ایسے ہی چوسا ہے جیسے بلوچ سرداروں اور وڈیروں نے، ان کی کرپشن کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل غیر بلوچی ہڑپ کررہے ہیں. اس میں کچھ حقیقت بھی ہے، لیکن پڑھے لکھے بلوچ افراد سے درخواست ہے کہ یہ مکمل سچ نہیں ہے. پنجاب ہو یا خیبرپختونخوا، سندھ ہو یا بلوچستان، ان سب کے عوام کو ان کے اپنوں نے مفادات کی خاطر لوٹا ہے۔ ان کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے جو اقتدار، طاقت ، پیسہ، زر، زمین ہے، اپنے عوام کے سامنے تو شاید وہ پنجابی، بلوچ، پٹھان، سندھی ہوں، لیکن درحقیقت وہ اس نسل سے ہیں جسے عرف عام میں حکمران یا صاحب طاقت کہا جاتا ہے. اس پڑھی لکھی بلوچ کلاس کے لیے عرض ہے کہ بلوچستان کے ایک سردار نے ۱۸۸۵ میں اپنے علاقے میں تیل اور معدنیات کے ذخائر صرف ۲۰۰ روپے ماہانہ پر برطانوی حکومت کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ ۱۸۶۱ میں جام صاحب آف لسبیلہ نے ۹۰۰ روپے ماہانہ کے عوض برطانوی حکومت سے معاہدہ کرتے ہوئے اپنے علاقے سے انگریز کی تار اور ٹیلیفون لائنوں کی تنصیب اور ان کی حفاظت کی کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ۱۸۸۳ میں خا ن آف قلات نے دشت میں بیٹھ کر ۲۵۰۰۰ روپے کے عوض انگریز سے معاہدہ کرتے ہوئے کوئٹہ اور اس سے ملحقہ علاقے ان مکمل عملداری میں دے دیے تھے. ۱۸۸۳ میں ہی انگریز نے بگٹی سردار مہراب خان کو خدمات انجام دینے کے عوض ۵۵۰۰ ادا کیے. یہ سب انگریز کے انڈیا ریکارڈ میں آج بھی درج ہیں. ان میں سے عام عوام پر کیا لگایا گیا ؟ کچھ نہیں۔

دورِ حاضر کا یہ حال ہے کہ بلوچ صحافی اکبر نوتیزئی کے مطابق تربت کے علاقے میں ایک ۳۳ کلومیٹر سڑک کی تعمیر کا آغاز ۱۹۹۰ میں کیا گیا، کئی بار اس کا افتتاح ہوچکا ہے مگر قصہ مختصر سڑک تاحال زیرِ تعمیر ہے، اور اس پہ لاگت ۲ ارب ۸۰ کروڑ کی ہوچکی ہے، جبکہ اب تک مکمل نہیں ہوئی۔ ۲۰۱۶ میں ایک فنانس سیکرٹری پکڑا جاتا ہے جس کے گھر سے ۹۰ کروڑ کیش پکڑے گئے تھے، اپنا حصہ رکھ کے باقی آگے فنانس منسٹر کو بھیجنے تھے۔یہاں بلوچستان کے عوام سے کہنا چاہوں گا کہ یہ آپ کے اپنے بلوچ لیڈرز ہیں جو دراصل بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار ہیں، اور یہ واقعی بلوچ عوام کے خیر خواہ ہوتے تو قیام پاکستان سے اب تک جتنے فنڈز بلوچستان کو دیے جاچکے ہیں، وہ عوام کے مسائل کے حل میں صرف کیے جاتے تو آج بلوچستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ پنجاب یا عام پنجابی اس کے ذمہ دار نہیں۔

بلوچستان اور پنجاب میں فرق یہ ہے کہ یہاں قیامِ پاکستان سے قبل ہی اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود تھے، جن کا دائرہ مزید پھیلتا رہا، جبکہ بلوچ سرداروں نے تعلیم کے شعبے میں بلوچستان کے لیے کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہ دکھائی، جس میں ان کا اپنا مفاد شامل تھا . خود ان کے بچے پنجاب یا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن عوام کو اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ آپ کا حصہ نہیں دیا گیا. جہاں تعلیم ہو گی، وہاں سوالات بھی ہوں گے، اس سے طاقتور طبقہ ہمیشہ گھبراتا آیا ہے. جہاں تعلیم نہ ہو وہاں ہنر مند افراد کی قلت کا سامنا رہتا ہے جس کو پر کرنے کے لیے ملک کے دوسرے شہر وں سے لوگ وہاں جاتے ہیں. شاید بلوچستان میں ہنر مند افراد کی قلت کا ذمہ بھی پنجاب یا پنجابی ہی ہوں گے۔

میری گزارش ہے کہ غیر جانبداری سے اپنے نمائندوں اور سرداروں کا احتساب کیجیے. پنجاب یا پنجابیوں کونشانہ بنا کر لوگوں کے اذہان سے تو کھیل لیں گے لیکن مسائل جوں کے توں موجود رہیں گے،اور کوئی دوسرا اٹھ کر آپ کے مسائل حل نہیں کیا کرتا۔