ہوم << ابے اسمعیل ! سعد احمد

ابے اسمعیل ! سعد احمد

اسمعیل میرادوست ہے۔ میری اور اس کی دوستی ان دنوں کی ہے جب ہم عنابی چہروں، لطیف جسموں اور جاذب نظر دوشیزاوں کود یکھنے کے لئے ہاسٹل سے نکلا کرتے تھے۔ ہماری عمریں ایسی تھیں کہ ہم کب کس پگڈنڈی میں چل ُ پڑیں اور کب کس راہ داری میں جا نکلیں ہمیں خود نہیں معلوم ۔ ہاں ہمارے شعورمیں ایک تاحد نگاہ دیوار تھی جسے ہم نے کبھی پھلانگنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ کہ دیواریں تو پھلانگی جا سکتی ہیں خواہ اقدار کی ہوں یا ہاسٹل کی؛ شعور کو فراموش کیا جاسکتا ہے خواہ تربیت کا ہو یا اندررونی بیداری کا۔

اسمعیل کے ساتھ پچھلے کئی مہینوں سے ڈھیروں مضامین پر گفتگو ہوتی رہی ہے جس میں وفا داری، پاسداری، لحاظ، افہام و تفہیم، حق پسندی، ذمہ داری، احسان شناسی، نیازمندی، اصلاح پسندی، تعمیری روش اگر خاصے اہم ہیں تو تجربات، دینییت، غربت، جدو جہد، بہتر زندگی کی تلاش بھی اہم ہیں۔ ساتھ ہی، کمینگی، معاشرے کی بے درد نفسیات، مولوی کی بکھان، ملا کی چڑھان اور علامہ صاحب کی ابجد ہوز کے عناصر ترتیب سے واقفیت بھی ہماری گفتگو کا محور رہا ہے۔ ان سب سے قطع نظر اسے معلوم ہے حقیقی زندگی میں انسانی جبلت کس حد تک اپنی اصل کی تلاش میں سر گرداں پھر سکتی ہے اور کس طور سے اپنے ہی ہونے کے ارد گرد روشنی کا ہالہ تیار کر سکتی ہے، یقینا اگر خدا توفیق نہ دے تو کمینہ، بد خصلت، رذیل، شریر، سفلہ اپنی پوری زندگی صراط مستقیم پر چلتا رہے مگر اس کی ماہیت اور اصلیت ہر ساعت اسے اس کی اصل تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے جس پر اس کی جبلت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔اسی لئے کہاوت مشہور ہے” کمینہ سے خدا کام نہ ڈالے”۔ اسمعیل کو اس بات کا خاصا ادراک بھی ہے کہ اصل کی تلاش ہی انسان کو ایک خول اتار کر کئی نئے خول پہننے کی ترکیب سُجھاتی ہے ، ایسا انسان کبھی ہدایت کے دائرے میں آیا بھی توبرضائے الہی وہ مٹی مٹھی میں لئے ڈھے بھی جاتا ہے۔

اسمعیل کہتا ہے انسان نے ترقی کی معراج کو پالیا مگر اگر اسے اپنا پرانا کوٹ یاد نہ رہا تو یقینا ایسا شخص نا قابل اعتماد ہے۔ اگر اس کی آنکھیں اپنے پرانے کوٹ کو دیکھ کر اشک بار نہ ہوئیں تو اس سے زیادہ حقیر مویشی کوئی نہیں، اگر اسے یہ یاد نہیں کہ اس نے اپنی غیر ت مندی اور دین کے معیار کے معاملے میں سمجھوتہ کرنے پر پیٹ پر پتھر باندھنے کو ترجیح دے گا تو وہ حشرات الارض سے زیادہ کمتر اور بے قیمت ہے۔ ایسا شخص شہرت کا ایسا بھوکا ہے جو اپنی شہرت کی بھوک مٹاتے مٹاتے خود کو کھا جانے والا سانپ بن جاتا ہے۔ ایسا شخص ایسا ننگا ہے جو اپنی دانست میں اپنے متبعین کی واہ واہی پر ناچنے والا جمورا بننا پسند کرتاہے۔ وہ مجھ سے برابر کہتا رہا ہے کہ علم والوں کے اندر نہ جانے کس طور کا شخصی آسیب اتر آیا ہے کہ وہ منبر و محراب پر بھی حرافاوں کی طرح ناز و نخرے دکھا کر میدان لوٹنا چاہتے ہیں۔ اور اگر اپنے زعم میں تھوڑا بڑے ہوئے تو اپنے آپ کو پوپ سے کمتر سمجھتے نہیں، میرا لقمہ بھی تو سنیے “اور ہمارے عہد کے جام جہاں نما نے ان کے اس خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کردیا۔ یعنی وہ سوشل میڈیا پر ایک ایسا پوپ بنا بیٹھا ہے جس کی ہر بات اس کی مَیں سے شروع ہوتی ہے اور مَیں پر ہی ختم۔ وہ کسی کی سننا نہیں چاہتا، وہ کسی کو دیکھنا نہیں چاہتا اس لئے کہ اس کے پاس ایک بہت بڑا فینڈم ہے”۔ وہ ایسا بابھن ہے جو یہی چاہتا ہے کہ لوگ اس کے پاس جوق در جوق آئیں اور وہ ہر کس کو دھتکارتا پھرے، لوگ سہم جائیں، عاجزی سے سرکار صاحبِ علم و حرفت کے سامنے اپنےمنتخب ہو جانے کےلئے سِپاس نامے پیش کریں، جوابا وہ ہرکس کو راندہ درگاہ کرتا پھرے۔

چونکہ اسمعیل تجربات کی دھونکنی سے نکلا ہوا ایک جفا کش مرد ہے ،اس نے زندگی کو بہت پاس سے دیکھنے کے بجائے برتنے کی کوشش کی ہے۔ میری اسمعیل سے دوستی مابعد الطبیعاتی نوعیت کی ہے، اصطلاح کے لئے معافی مگر اسمعیل سے کسی قسم کا مادی انضباط نہیں، میں اس کے لئے خلیل و مقفع کی مثال بھی کبھی نہیں دے سکتا۔ میں اسے کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے لئے ابن طفیل یا ابن باجہ ہے اور میں اس کا ابن رشد۔ میں ایسا متنبی بھی نہیں جو ہمدانی کی اجلال میں اٹھ کھڑا ہو۔ وہ نہ ابن زیدون ہے جس کی کسی ابن حزم نے محبت کے چکروں میں مدد کی ہو۔وہ نہ میرا تبریزی ہے اور نہ میں اسکا ابن عربی۔نہ وہ علامہ قزوینی ہے اور نہ میں غزالی کی خاک۔ وہ ذہبی اور مقدسی کی گرد کو پہونچنے کا خواب بھی نہیں دیکھتا تو میں سب سے زیادہ اپنے “حقیر سیاسی”مقصد کے لئے استعمال ہونے والے رحمان کے ولی ابن تیمیہ ہونے کا گمان کیوں کر اپنے گمان میں رکھ سکوں گا۔ یہ تو چھوڑیں، وہ نہ حاتم طائی ہے اور نہ میں ابن منذر،ابی سلمہ اور امرو القیس کی دوستی کو اپنی دوستی پر بھی منطبق کرنے کی ہمت میں نہیں جٹاسکتا، وہ اشعث ابن قیس بھی نہیں ہو سکتا اور میں خاک کی راکھ مالک ابن عمرو کیا بنوں گا۔ ہم دونوں اکیسویں صدی میں مادی حقیقتوں میں گمشدوہ نفوس میں سے ہیں جو طبقاتی چکیوں میں پِس پِس کر اپنے طبیعاتی دائرے کی طرف بڑھ رہیں ہیں۔ ایک دوست ہونے کی حیثیت سے میں نے اسے اور اس جیسے بہت سے دوستوں کو ایسا انسان پایا ہے جس کی گردن میں پِلوری چڑھا کر چنگیز خان کی طرح صحرا میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہو کہ خان ہو تو سر کرو صحرا! خان ہو توتجربات کے ریگزاروں پر ننگے پاوں چل کر اپنی قسمت کے پھول منتخب کرلو۔ ہاں شیخ بچہ ہوں مگر خان کی تعریف کرتا ہوں۔ میں حلف اٹھا لوں کہ وہ نہ لکھنے پڑھنے میں علامہ الدھر ہے اور نہ بننا چاہتا ہے، وہ علمی مسائل اور ان سے متعلق رطب و یابس سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ جانتا ہے علم کی رات رانی جب آپ کی پگڑی کی زینت بننے لگے تو کبر و غرور کا ناگ آپ کی گردن سے ضرور لپٹے گا۔ علم سے نسبت رکھنے کا چسکہ جب آپ کو لگے گا صاحب! تو آپ اپنی شخصیت کو علم سمجھیں گے اور علم کو اپنے گھر کی لونڈی۔ آپ چاہیں گے کہ عوام الناس آپ کو نوارانی پیکر مان لیں، خواص آپ کو اکابر میں شمار کرنے لگیں اور آپ کے علم کا چرچا خواتین جیسی معصوم خلق خدا میں بھی خوب ہو۔ لہذا آپ اپنی نفسانی بے راہ روی اور ٹیڑھے پن کو امت کا مسئلہ بناتے پھریں اور طرہ یہ کہ کوئی سمجھے بھی نہ!
ہائے !

مسلم معاشر ے تعمیر کے اس دور میں ہیں جس کا پہلا زینہ تخریب ہے۔ ہمارا مسلم دور تخریبی دور ہے۔کہتے ہیں جون ایلیا کو احتلام نہ ہوا کرتا توہ الحاد کے قریب بھی نہ جاتے ۔ وہ ایک شرمیلے آدمی تھے اور انہیں یہ ڈر لاحق تھا کہ بار بار ٹھنڈے پانی سے نہانا ان کے لئے بدنامی کا سبب نہ بن جائے لہذا انہوں نے تہیہ کیا کہ بڑا ہوں گا تو بڑا سرکش باغی بنوں گا۔ اسمعیل کہتا ہے مولوی اکبر کو علم سے مصنوعی نسبت رکھنا عزیز نہ ہوتا تو وہ جہل کی چھنالوں سے ربط نہ بڑھاتے۔ ایسے مولویوں نے یہ تہیہ کیا ہوتا کہ جتنا بڑا ہوں گا اتنی بڑی علم کی صنعت پھیلاوں گا جو کہ قابل استہزا عمل ہے۔ علم کی صنعت نہیں ہوتی، فضیلت ہوتی ہے ۔ ایسے مولوی پرانے کوٹ اور اس احسان کو چکانے کی تڑی دیتے وقت غریب کا غریب پر احسان کو ضرور یاد رکھتے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک امیر دوست اپنے غریب دوست کے پاس آیا اور کہا کہ میری جان، مانگو کیا مانگتے ہو، میں تمہارا احسان ادا کرنا چاہتا ہوں اسلئے کہ اب میں دنیا کا اول درجے کا امیر آدمی ہوں اور مین اس احسان کو نہیں بھولا جو تم نے مجھ پر اس وقت کیا جب میں غربت کے دہانے پر منھ کے بل گھسٹ گھسٹ کر جا رہا تھا۔ غریب دوست دل کا امیر تھا جو امیر کی دانست میں آج بھی وہیں کا وہیں تھا۔اس نے کہا، میں نے تم پر اس وقت احسان کیا جب میرے پاس بھی کچھ نہیں تھا تو کیا تم میرے اس احسان کا بدلہ ادا کرسکتے ہو اب جب کہ تم راجہ بھوج بنے بیٹھے ہو؟ اچھا اب یوں بھی نہ ہو کہ آدمی کسی پر احسان کر کے اس پر تلوار لٹکا دے اور ہر کسی خاص و عام سے اپنے احسان کی سبیل کی کہانیاں سناتا پھرے۔ نتیجتا احسان کا مقروض آدمی خود کو ملامت کے قعر مذلت میں ڈھکیل دے۔

پچھلے ۲ برس سے اپنی علمی تراش خراش میں شاید اور حالیہ دنوں میں اسعمیل سے بھی بھیڑئے کی فضیلت پر خاصہ لیکچر دیتا رہا ہوں۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ ابے اسعمیل سن تو۔ بھڑیا کو تم نے عجب درندہ بنا رکھا ہے۔ ہر مثال میں اس کی قباحت بیان کرتے ہو جب کہ اس سے زیادہ غیرت مند جانور انسانی تاریخ نے آج تک نہ دیکھا نہ سنا۔ ابے اسمعیل تیرے اندر کی بعض عادتیں بھیڑئے جیسی ہیں مثال کے طور پر تو حد درجہ کنبہ پرور ہے، بھیڑیا بھی کنبہ پروری میں اپنی مثال آپ ہے۔جوان بھیڑیا بوڑھوں بچوں کے لئے غذا خود لاتا ہے اور ایک مادا پر اکتفا کرتا ہے۔ اس کی وفاداراپنی مادا سے ازل سے ہی مشہور ہے۔ اسے پالتو نہیں بنایا جاسکتا اس لئے کہ جو بھیڑیا پالتو ہوا وہ بعد میں کتا کہلایا۔یہ شیر ویر کی کہانی بس تین چار سو سال پرانی ہے۔ شیر انتہائی مغرور جانور ہے ، اس کے اندر تعاون اور مواخات کا کوئی عنصر پایا نہیں جاتا، شیر کا شکار کبھی سور کرلیتا ہے تو کبھی بھینسے اسے مار گراتے ہیں۔ نہ اس کی اجتماعیت کی کوئی خصوصیت ہے اور نہ انفرادیت کی کوئی مثال۔ آواز اور خوفناکی کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں۔ اور بھڑیئے کو دیکھو کتنا قرینے سے اپنے کنبے کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ اپنی موت آپ مرتا ہے۔ شیر کو اپنی طاقت کا علم ہے مگر بھڑئیے کو اس کا علم بھی نہیں ۔ بھیڑیا کے ساتھ ایک اعجاز یہ ہے کہ وہ ان خوش نصیب جانوروں میں سے ہے جس نے نبی ﷺ سے گفتگو کی ہے، بکریوں کی نگرانی کی ہے، جہاد کے لئے تبلیغ بھی کی ہے اور قسام ازل کی تخلیق پر مشکور و ممنون بھی رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ نادیدہ عفریت و جنات پر ان کی شر انگیزیوں کے عوض حملے بھی کر دیا کرتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک وہ دن قیامت میں روئے گا کہ خداوند کریم تو نے مجھے اس بات کا علم کیوں نہ دیا کہ میں کتنی اونچی دیواریں پھلانگ سکتا ہوں۔ میں اپنی باتیں کہتا رہا اور یہ بھول گیا کہ اسمعیل جو کہ بہترین سامع ہے اس کی آنکھیں تن رہی ہیں اور چہرے کی بناوٹ بگڑ رہی ہے ۔ اس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں میں میں نے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ میں پسینے سے بھیگ چکا تھا اور پھر ٹھنڈی ہوا مجھے مزید حیران کئے دے رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک بھیڑیا نما انسان ہے جو مسکرا رہا ہے۔۔۔۔۔تھر تھر کاپنتے ہونٹوں نے آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا، ہلکی سی اذان سنائی پڑی اور آنکھ کھل گئی۔ صبح فون کر کے اسےسارا ماجرا سنایا اور وہ دیر تک ہنستا رہا ۔ میں صرف اتنا کہہ سکا ابے یار اسمعیل۔