ہوم << ’’ اٹلی کا وینس‘‘ - احسان کوہاٹی

’’ اٹلی کا وینس‘‘ - احسان کوہاٹی

سارے منظر ویسے کے ویسے ہی ہیں، تالاب بنی سڑکیں۔۔۔ مٹیالے پانی سے جھیل بنے میدان اور پارک۔۔۔ گندے نالوں کے کنارے ٹین کی ٹپکتی چھتوں والے گھروں کے باہر سہمے ہوئے چہرے والی مخلوق۔۔۔ بجلی کے کھمبوں سے لگنے والے کرنٹ سے مرنے والوں کے پیلے چہرے۔۔۔ اور ایک آنکھ والے کیمرے سے اس مخلوق کا خوف ٹیلی ویژن کی اسکرین پر پہنچانے والے پیشہ ور رپورٹر۔۔۔ یہ سارے مناظرایک سے ہی ہیں، کوئی بھی تبدیلی تو نہیں آئی، سوائے اس کے کہ پہلے یہ منظر کسی تصویر کی صورت میں کسی اخبار میں جگہ پاتے تھے اور اب یہ اخبارکے ساتھ ساتھ نیوز چینلز کے خبرناموں کا لقمہ بھی بنتے ہیں۔
ساکن تصویروں سے متحرک تصویروں تک برسوں کا سفر بھی یہ مناظر تبدیل نہیں کرسکا۔ میں جب شرارتی بچہ تھا تب کراچی میں برسنے والے بادل ایسے ہی منظروں کا تحفہ دے کر نکل بھاگا کرتے تھے۔ جب میری مسیں بھیگنے لگیں تب بھی بھیگی رت کراچی والوں کے چہروں پر ایسی ہی بے چارگی چھوڑتی تھی اور جب میں مونچھوں کو تاؤ دینے لگا تب بھی مون سون میں کراچی ایسے ہی ’’وینس‘‘ بنا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی سڑکیں وینس کی آبی گلیوں کا سا منظر پیش کرنے لگتی تھیں اور آج جب جوانی کے بخار کے بعد طبیعت میں کچھ افاقہ سا محسوس کر نے لگا ہوں تب بھی میرا کراچی ویسے کا ویسا ہی ہے ۔
karahchi
طلسماتی حسن والے اٹلی کا منفرد شہر وینس کا خیال اب بھی مجھے گدگداتا رہتا ہے۔ یہ عجیب شہر ہے جس کی آبی گلیوں میں ناہنجار موٹرسائیکلوں کے بجائے کشتیوں کے انجن کا شور سنائی دیتا ہے، یہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے آپ ٹیکسی نہیں کشتی پکڑتے اور کرایہ طے کرتے ہیں۔ یہی اس شہر کی انفرادیت ہے جو لاکھوں سیاحوں کو یہاں کھینچ کر ان کے کریڈٹ کارڈوں کو اے ٹی ایم مشینوں سے وصال پر مجبور کرتی ہے ۔
ساون بھادوں میں اپنا کراچی بھی وینس بن جاتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اسے کیش نہیں کراتے۔ سندھ حکومت اس کی مناسب تشہیر کرکے بیرون ملک سے نہیں تو بیرون شہر سے سیاحوں کو کھینچ لاسکتی ہے۔ جمعے کی شب سے ہونے والی بارش نے کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کے چہرے پر بارہ بجا دیئے تھے۔ انہونی جو ہو گئی تھی۔ مون سون کی بارشیں روکنے کے لیے بلدیاتی اداروں نے جس بنگالی عامل کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، اس کے مزید خدمت سے انکار کے بعد ہی بادل گرج چمک کر برسے تھے۔ کمشنر کراچی اور بلدیاتی اداروں کے افسران کا خیال تھا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آنے والی تبدیلی اب انہیں تبدیل کردے گی، انہیں افسر بکار خاص بن کر صرف حق حلال کی تنخواہ پرگذارہ کرنا پڑے گا لیکن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آنے والی تبدیلی نے ہفتے کی صبح انہیں پرسکون کردیا۔
murad ali shah
سندھ کے نئے نویلے جوان العمر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ زمین سے ڈھائی فٹ اونچی لینڈ کروزر میں وزیر اعلیٰ ہاؤس سے باہر نکلے تو صحافیوں کو بھی خبر دے دی گئی۔ خبرنگار بھی کیمروں کے ساتھ سندھ کی مراد کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ مراد علی شاہ نے شہر کا سرپرائز دورہ کیا۔ وہ محمودآباد گئے، لیاقت آباد میں رکے، پرانی سبزی منڈی کا چکر لگایا اور واپسی پر صدر کے کاکڑ ہوٹل میں چائے پراٹھے کا ناشتہ کرکے تاثر دیا کہ تبدیلی آگئی ہے لیکن شکر ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایم اے جناح روڈپر سٹی کورٹس کے اردگرد جیسے پہلے گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہوتا تھا اب بھی ویسا ہی پانی موجود ہے۔۔۔ ایمپریس مارکیٹ کو گاہکوں سے دور رکھنے کے لیے جیسے پہلے پانی حصار باندھتا تھا آج بھی ویسا ہی آبی حصار دیکھا گیا۔۔۔ لیاقت آباد کی سڑکوں پر جیسے پہلے بچے پیراکی کیا کرتے تھے، آج بھی وہاں یہی مشق جاری ملی۔۔۔ انڈر بائی پاس میں تو باقاعدہ غوطہ زنی کی تربیت ہورہی تھی۔
karachi rain 01
مراد علی شاہ صاحب نے کاکڑ ہوٹل پر چائے پراٹھے کا ناشتہ کرتے ہوئے میڈیا سے باتیں بھی کیں اور کہا کہ ذرا بارش رک جائے تو بلدیاتی عملہ صفائی ستھرائی کا کام شروع کر ے گا۔۔۔ یعنی تب تک شہری صبر کے پھل کا تصور کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے متاثر ہیں اور پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے رہبری لیتے رہیںگے۔۔۔ مراد علی شاہ کی اس گفتگو سے مجھے تو بڑی ڈھارس ہوئی اور یک گونہ مایوسی بھی کہ اب کی بار پھر وینس جانے کا ارادہ بنتا نظر نہیں آرہا۔ بھئی جب ہر مون سون میں کراچی کی کا ہر ٹاؤن وینس بن جائے تو مجھے کیا پڑی ہے لاکھوں خرچ کرکے اٹلی جانے کی؟
اللہ سلامت رکھے بھٹو صاحب کو، سدا سلامت رکھے جب تک بھٹو صاحب حیات ہیں یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔۔۔ لیکن ایک منٹ، ایک منٹ! میں معذرت چاہتا ہوں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے شہر میں 70اور80ملی میٹر بارش کے بعد گلیوں میں نہریں بہتی تھیں، اب خیر سے47ملی میٹر کے بعد ہی کراچی وینس ہو گیا ہے۔۔۔ اور یہ اس وقت تک وینس بنتا رہے گا جب تک وزیر اعلیٰ ہاؤس میں قصاب سے گوشت میں ہڈی کم کروانے کے لیے تو تکار کرنے والا۔۔۔بجلی کا زائد بل لے کر کے الیکٹرک کے دفتر کے چکر کاٹنے والا۔۔۔ منی بس ڈبلیو گیارہ میں واہیات گانوں پر کنڈیکٹر سے الجھنے والا اورمحلے کے کریانہ اسٹور سے ادھار چینی لینے والا محمودآباد کا چوہدری محمد مراد، لالوکھیت کا مرزا مراد ،بنارس کا مراد خان اور ملیر کا مراد بلوچ نہیں پہنچے گا، جس کا اتنا ہی چانس ہے جیسے میرا وینس جانے کا !

Comments

Click here to post a comment