مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں مغرب کی جانب بنی فصیل کے اندر کئی مدرسے اور عمارتیں قائم تھیں۔ انھی مدرسوں میں سے ایک مدرسہ الخاتونیہ ہے جو باب القطانین Cotton Merchants' Gate کے بائیں جانب قائم ہے۔ اس مدرسے کے ایک کمرے میں شریف مکہ حسین بن علی کی قبر ہے، جبکہ دوسرے کمرے میں مولانا محمد علی جوہر دفن ہیں۔ میں مولانا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھائے اپنی سوچوں میں مگن گمُ سم سا کھڑا تھا کہ حمزہ کی آواز سنائی دی. وہ پہلو کے کمرے کی کھلی کھڑکی کے سامنے کھڑا بےتابی سے مجھے بلا رہا تھا ۔ میں نے ایک بار پھر فاتحہ پڑھی اور اٹھے ہوئے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر پھیرنے کے بعد اس طرف بڑھ گیا۔ اس کمرے کی کھلی کھڑکی کے اوپر اردن کا شاہی نشان بنا تھا۔ اندر نگاہ ڈالی تو اس کمرے کی شان ہی نرالی تھی۔ اس کی سجاوٹ اور آن بان دیدنی تھی۔ سنگ مرمر کا فرش ، دیواروں پر بہت خوبصورت خطاطی میں آیت قرآنی کندہ تھیں۔ چھت پر بھی بہت دلکش نقش ونگار بنے تھے۔
کھلی کھڑکی سے اندر جھانک کر دیکھا تو اندر کمرے کے عین درمیان میں سنگ مرمر سے بنی ایک شاندار قبر نظر آئی، جس پر چار رنگوں کا انتہائی قیمتی مخمل لپٹا ہوا تھا، اس کپڑے پر سونے کی تاروں سے آیات قرآنی کی کشیدہ کاری کی گئی تھی ۔
”یہ کس کی قبر ہے؟ “
میں نے حمزہ سے پوچھا
”بابا ! یہ شریف مکہ حسین بن علی کی قبر ہے۔“
اس نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ، جہاں اس کا نام لکھا تھا۔
میں نے بے یقینی سے حمزہ کی جانب دیکھا تو اس نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں بابا ! یہ تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ حسین بن علی اور مولانا محمد علی جوہر آج ایک ساتھ دفن ہیں۔“
نیرنگی گردش دوراں تو دیکھیے کہ الخاتونیہ مدرسے کے ان دو کمروں میں دفن دونوں شخصیات ایک ہی دور میں پیدا ہوئیں، دونوں ایک ہی عہد میں جیے، جوانی میں بھی ہم عصر رہے اور دونوں آگے پیچھے چند مہینوں کے وقفے سے ایک ہی سال اس جہان فانی سے رخصت ہوئے، لیکن دونوں کی دنیا بھی مختلف تھی اور افکار واعمال بھی۔ دونوں ایک بالکل مختلف مقصد کے لیے جیے ، دونوں کی پرواز دو مختلف آسمانوں میں رہی بالکل ویسے ہی جیسے کرگس اور شاہین ہیں تو ایک جیسے پرندے لیکن دونوں کا جہان بھی مختلف ہوتا ہے ۔ اور مشاغل بھی مختلف:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
ایک وحدت اسلامیہ [english] Pan Islamism کا علمبردار تھا تو دوسرا نیشلزم ، اور پین عرب ازم[english] Pan Arabism کا دعویدار . مولانامحمد علی جوہر نے اپنی ساری زندگی انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی نذر کر دی. اپنی ساری صلاحیتیں اور ساری توانائیاں انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے میں صرف کر دیں، اپنی جوانی کا بہترین حصہ خلافت عثمانیہ کی بقا کی جنگ لڑتے گزار دیا ۔ اپنا سب کچھ خلافت کو بچانے کے لیے نچھاور کر دیا. اور جب مرنے کا وقت آیا تو اس غلام سرزمین میں دفن ہونے سے بھی انکار کر دیا جہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔ جبکہ ان کے پہلو میں چند میٹر کے فاصلے پر دیوار کے پار دوسرے کمرے کے اندر محو آرام حسین بن علی وہی شریف مکہ ہے جس نے 1915/1916ء میں انگریزوں اور فرانسسیوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف گھناؤنی سازش کی۔ سلطنت عثمانیہ کی پشت میں اس وقت خنجر گھونپا جب وہ اپنی تاریخ کے سب سے نازک موڑ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی، اور جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانان عالم کی مرکزیت کا خاتمہ ہوا بلکہ وہ یتیم ہو گئے۔ سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہوگئی اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی بندر بانٹ میں عثمانی سلطنت اپنے مشرق وسطیٰ کے سارے علاقوں سے محروم ہوئی، اور فلسطین و بیت المقدس پر انگریزوں اور شام و لبنان پر فرانس کا قبضہ ہوگیا۔ سر زمین عرب چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بٹ کر رہ گئی۔
سلطنت عثمانیہ شاید اتحادی فوجوں سے تو نمٹ لیتی لیکن اپنی ہی سلطنت کے عرب علاقوں سے اٹھنے والی اپنی رعایا کی بغاوت کی لہر کا مقابلہ نہ کر سکی، اور پہلی جنگ عظیم کے اوائل میں ہی اپنی سلطنت کے سب سے اہم اور بڑے حصے سے محروم ہو گئی۔ آج تاریخ کا یہ جبر بھی دیکھنے والوں کو صاف نظر آتا ہے کہ دو مختلف دنیاؤں کے یہ دو باشندے آج شہر خموشاں میں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں ۔
حسین بن علی کا تعلق ہاشمی قبیلے سے تھا ۔ یہ قبیلہ حضرت حسن رضی تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ 969ء میں جعفر بن محمد الحسنی، جس کا تعلق حضرت حسن علیہ السلام کے بیٹے حسن المثنی کی اولاد سے تھا، مدینہ سے مکہ آیا اور اس نے مکہ فتح کرنے کے بعد فاطمید خلیفہ المعزّ لدين الله کے نام کا جمعہ خطبہ جاری کر دیا، اور خود شریف مکہ کا لقب اختیار کر کے یہاں کا حکمران بن گیا۔ یہاں سے شرافت مکہ کا آغاز ہوتاہے۔ شریف مکہ دونوں مقدس شہروں مدینہ اورمکہ کا والی ونگران ہوتاتھا ، جو حج کے دنوں میں حجاج کرام کی میزبانی کا انتظام کرتا، اوراس دوران اس علاقے کے امن و عامہ کا ذمہ دار ہوتا تھا ۔ بعد میں آنے والے تمام مسلم حکمرانوں نے شریف مکہ کا یہ عہدہ قائم رکھا۔ جو تقریباً ایک ہزار سال 1925ء تک قائم رہا۔ یہ عہدہ ہمیشہ سے حضرت حسن سے تعلق رکھنے والے ہاشمی خاندان کے پاس رہا۔ ابن تاثیر نے بیان کیا ہے کہ 1202 ء میں ہاشمی خاندان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک شخص قتادہ بن ادریس نے امیر مختار کو برطرف کر کے شریف مکہ کے منصب پر قبضہ کیا تو دوسرے ایوبی سلطان اور صلاح الدین ایوبی کے بھائی سلطان العادل نے اسے شریف مکہ تسلیم کر لیا۔ یہی قتادہ بن ادریس حسین بن علی کا جد امجد تھا جس نے بنو قتادہ خاندان کی بھی بنیاد رکھی اور بعد میں آنے والے سارے شریف مکہ بنو قتادہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بنو قتادہ کی مکہ پر حکومت 1925 میں اس دفتر کے خاتمے تک قائم رہی۔ قتادہ ابن ادریس زیدی شیعہ تھا ۔ سبط ابن جوزی اور المنذری نے بھی ابن تاثیر کی تائید کی ہے۔
حسین بن علی یکم مئی 1854ء کو قسطنطنیہ میں پیدا ہوا. چار سال کی عمر میں وہ مکہ آیا ، جہاں اس کا دادا محمد بن عبدالمعین بن عون شریف مکہ تھا ۔ دادا کی وفات کے بعد اس کا چچا عبداللہ بن محمد شریف مکہ بنا۔ وہ مکہ میں ہی بدوؤں کے درمیان پلا بڑھا، اسی ماحول میں اس کی تربیت ہوئی.
اس کی شادی اپنے چچا کی بیٹی عابدہ سے ہوئی۔ عبداللہ بن شریف کے مرنے کے بعد اس کے خاندان میں شریف مکہ کے حصول کی جنگ چھڑی اور یکے بعد دیگرے اس کے کئی چچا اور کزنز شریف مکہ بنتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ اقتدار کی اس جنگ میں جب وہ بھی فریق بننے لگا تو
1892ء میں اسے جلاوطن کرکے دوبارہ قسطنطنیہ بھیج دیا گیا، جہاں سلطان عبدالحمید دوم سے اس کے گہرے روابط اور مراسم قائم ہوگئے.
حسین بن علی کےترکوں سے اختلافات
1908ء میں شریف مکہ عبداللہ پاشا بن محمد کی وفات کے بعد سلطان عبدالحمید دوم نے اسے شریف مکہ مقرر کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب سلطان عبدالحمید دوم اور ترقی پسند ینگ ترک تحریک(سی یو پی) کے درمیان سیاسی کشمکش اور اقتدار کی جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ عوام میں سی یو پی کو پذیرائی حاصل تھی۔ سلطان عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکا تھا۔سی یو پی کے دباؤ پر سلطان عبدالحمید نے اپنے سارے آئینی اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے، اور الیکشن پر رضامندی ظاہر کردی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے حامی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیں گے، لیکن اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب 1908ء میں ہونے والے پہلے الیکشن میں سی یو پی نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ، اور سلطان یلدیز محل تک محدود ہو کررہ گیا۔ اس نے اپنے اختیارات واپس لینے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا.
سلطان عبدالحمید دوم اور سی یو پی کے درمیان اقتدار کی یہ جنگ بالآخر ینگ ترک انقلاب [english] Young Turk Revolution پر ختم ہوئی. سلطان کو بر طرف کر کے سلونیکا میں جلا وطن کر دیا گیا اور اس کے بھائی محمد خامس کو سلطان بنا دیا گیا۔ سید تنویر واسطی نے لکھا ہے کہ 1913 ء میں ینگ ترک کی پارٹی (سی یو پی ) Committee of Union and Progress میں موجود انقلابی افراد نے شب خون مارا اور ایک مسلح بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی حکومت کے روح رواں تین پاشا تھے۔ ترکی پر سی یو پی کے نام پر تین پاشا اسمعیل انور پاشا ، احمد جمال پاشا اور طلعت پاشا حکمران بن گئے، انھوں نے اپنی نئی سیکولر پالیسیاں مسلط کرنا شروع کر دیں جن کی بنیاد نسل، رنگ اور قومیت Turkification پر قائم تھی. ان کی رو سے ترک باشندوں کو ہر لحاظ سے سلطنت عثمانیہ کی دوسری اقلیتوں پر فوقیت حاصل تھی۔ حسین بن علی پرانے خیالات اور مذہبی رجحانات کا حامل شخص تھا۔ وہ سی یو پی کے ساتھ نہ چل سکا اور یوں اس کے اور سی یو پی کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے ۔
افراہیم کارش نے اپنی کتاب empires of Sand میں حسین بن علی کے بارے میں لکھا ہے کہ “ a man with grandiose ambitions" who had first started to fall out with his masters in Istanbul when the dictatorship, a triumvirate known as the Three Pashas, General Enver Pasha, Talaat Pasha, and Cemal Pasha, which represented the radical Turkish nationalist wing of the CUP, seized power in a coup d'état in January 1913 and began to pursue a policy of Turkification, which gradually angered non-Turkish subjects.Hussein started to embrace the language of Arab nationalismonly after the Young Turks revolt against the Ottoman sultan Abdul Hamid II in July 1908.”
سی یو پی نے حسین بن علی کو شریف مکہ کے عہدے پر قائم تو رکھا لیکن تینوں پاشا کے تعلقات حسین بن علی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے چلے گئے۔ آہستہ آہستہ اختلافات کی خلیج گہری ہوتی گئی۔ حسین بن علی اور سی یو پی کے درمیان بڑھتے انھی اختلافات نے عرب بغاوت کی بنیاد رکھی۔ جلد ہی وہ وقت بھی آن پہنچا جب سارے مشرق وسطیٰ میں عرب بغاوت کی چنگاری پھوٹ پڑی، جو پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں ہی اتنی بڑی آگ میں تبدیل ہو گئی کہ پوری سلطنت عثمانیہ اس میں جل کر بھسم ہو گئی۔
تبصرہ لکھیے