پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی جانب سے ایک مخصوص کارٹون ( ڈورے مون) پر پابندی عائد کیے جانے کے لیے قرارداد جمع کروائی گئی ہے۔ ڈزنی چینل پر ہر وقت آن ائیر رہنے اور بچوں کے ہر وقت TV کے سامنے رہنے سے جتنے بھی والدین عاجز تھے سب نے خوشی کا اظہار کیا اور سکون کا سانس لیا ۔ بعض والدین نے البتہ سوال کیا کہ بچے اگر کارٹون بھی نہ دیکھیں پھر دیکھیں کیا؟یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ بچے ان کارٹونز سے مختلف ممالک، خاص کر جاپان جہاں بنائے جاتے ہیں، کا کلچر سیکھ رہے ہیں اور جو خاص اصطلاحات والدین کو بھی نہیں معلوم، بچے اچھی طرح نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس کو روزمرہ زندگی میں استعمال بھی کرتے ہیں، یہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث ہیں. یہی دلیل اس کارٹون کے خلاف بھی ہے کہ بچوں کو اپنا کلچر اور اپنی اصطلاحات سیکھنی چاہییں.
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا غیرتخلیقی رویہ ان کارٹونز کے خاتمے میں ایک رکاوٹ ہے. خاص طور پر بچوں کے حوالے سے میڈیا کسی بھی قسم کے تفریحی اور معلوماتی پروگرامات پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بہت بڑا خلا ہے جو الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کی توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر پاکستانی کارٹون چینلز موجود ہوں گے تو مائیں کیوں اپنے جگرگوشوں کو بھیم، ڈورا، مایٹی، راجو اور ڈورے مون دیکھنے کی اجازت دیں گی؟ جس میں نہ صرف ہندی زبان بلکہ اسلامی عقائد اور اسلامی و معاشرتی سے متصادم باتوں کی ترویج کی جاتی ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور ابلاغ کے شعبے سے وابستہ تمام لوگ آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ کسی پروگرام، تحریر، ڈرامے حتی کی کسی کارٹون میں بھی روایات اور اقدار پامال نہ ہونے پائیں۔ زبانیں اور کلچر اہم ہیں مگر ہماری اپنی اقدار زیادہ اہم ہیں اور معصوم ذہنوں کو آلودہ ہونے سے روکنا ہمارا فرض ہے۔ اقبال ؒ جیسے بڑے شاعر بچوں کے لیے لکھ گئے ہیں، بڑے بڑے ادیب، شعراء اور لکھاری موجود ہیں، پاکستان میں اینیمیٹد انڈسٹری فروغ پا رہی ہے اور سے انتہائی ہونہار لوگ وابستہ ہیں. نجی Tv مالکان کو چاہیے کہ ان وسائل کو استعمال کریں اور اپنی آنے والی نسل کو کچھ دے کر جائیں۔
تبصرہ لکھیے