ہوم << الحاد ، دہریت ، مغربیت اور محنت کا میدان - ڈاکٹر حسیب احمد خان

الحاد ، دہریت ، مغربیت اور محنت کا میدان - ڈاکٹر حسیب احمد خان

بظاہر یہ عنوانات یکسان دکھائی دیتے ہیں گو کہ ان میں ایک مستقل ربط اور تعلق موجود ہے اور یہ تینوں حلقے ایک دوسرے سے نکلتے ہیں لیکن جب ہم اکیڈمک سطح پر یا عملی میدان میں ان کے حوالے سے کوئی مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ مستقل عنوانات ہیں ان کو الگ الگ شعبہ جات کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے اور ان دائروں کے متکلمین و ماہرین بھی الگ الگ استعداد کے ماہر ہوں گے۔

سب سے پہلے تو ہم ان عنوانات کی بنیادی تفہیم سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ اس کے بعد ان دائروں کے ماہرین کی تیاری اور اس تیاری کیلیے ضروری لوازمات حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

پہلا عنوان ہے الحاد
الحاد کا لغوی یا اصطلاحی معنیٰ راستے سے ہٹ جانا یا انحراف ہے موجودہ دور میں اسے دہریت یعنی atheism کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن اصولی اعتبار سے ہر دو میں جوہری فرق ہے شریعت کی نگاہ میں الحاد ضروریات دین کا انکار ہے اگر کوئی عقائد و عبادات کی اس بنیادی روایت کہ جو ہمیں تواتر سے ملی ہے اس روایت کا انکاری ہے تو وہ ملحد شمار ہوگا۔

دوسرا عنوان ہے دہریت
دہریت درحقیقت atheism ہے یعنی خدا کا انکار یا خدا اور مذہب کا انکار اگر اس عنوان کی مزید وضاحت کی جائے تو عقل پرستی اور مادیت کی بنیاد پر مابعد الطبیعیات کا انکار دہریت ہے۔

تیسرا عنوان ہے مغربیت
مغربیت کے دو بنیادی دائرے ہیں اول فلسفہ مغرب ، دوم تہذیب مغرب اس سے مراد موجودہ دور میں اس عالمگیری نظریے اور ثقافت کا غلبہ ہے کہ جو بحیثیت مجموعی مذہب کے انکار کی طرف لے جاتی ہے۔

اگلی سطور میں ہم ان تین دائروں کے سدباب کے حوالے سے محنت کا میدان متعین کرنے کی کوشش کریں گے۔

الحاد کا دائرہ اور اس کے مقابل محنت کا میدان : الحاد کا دائرہ بہت وسیع ہے چونکہ یہ فکر بنیادی سطح پر مذہب سے متعلق اشکالات پیدا کرتی ہے اور اس سے انحراف کی راہ ہموار کرتی ہے اسلیے اس کے متعدد رخ سامنے آتے ہیں درج ذیل میں ہم ان عنوانات کا ایک بنیادی خاکہ پیش کرتے ہیں۔

اول تجدد پسندی
اس دائرے میں روایت یا خاص طور پر دین کی چلتی ہوئی روایت کا انکار کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے اہل علم کے درمیان متفق علیہ ہو یہ رویہ درحقیقت مغرب سے مستعار ہے اور اس کی جڑ جدت پسندی میں ہے جب مغرب سے استشراقی فکر مشرق میں آئی تو تجدد پسندانہ افکار پیدا کیے گئے۔

دوم علوم اسلامیہ کا انکار
جب بھی انکار حدیث ، انکار سنت یا مسلمانوں کی مجموعی فقہی روایت کا سرے سے انکار کیا جائے گا یا پھر اسلام کی تاریخی و فکری روایت کو یکسر رد کیا جائے گا تو یہ الحاد کا ابتدائیہ شمار ہوگا۔

سوم اسلامی شخصیات کا انکار
اس دائرے میں ناصبیت سے رافضیت تک یعنی اولین دور میں صحابہ رض یا اہل بیت علیہم السلام یا پھر خلافت راشدہ کی بابت سوالات اٹھائے جاتے ہیں یہاں تک یہ گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہی سامنے آتا ہے بعد ازاں اس کی بدترین شکل خود انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے اشکالات پیدا کرنا ہے لیکن اس دائرے کے لوگ مکمل دہریے ہوتے ہیں عام طور پر مشاجرات کے حوالے سے بات کرنے والے یا بعد کے ادوار میں اسلامی شخصیات یعنی فقہاء ، اولیاء یا مسلم فاتحین کو یکسر رد کرنے والے چند ایک کی بات نہیں یہاں گفتگو ہے یکسر رد کرنے والوں کی تو یہ گروہ بھی الحاد کی راہ ہی ہموار کرتا ہے۔

الحاد کے مقابل محنت کا میدان
الحاد کے مقابل محنت کا میدان درحقیقت علوم اسلامی ، اسلامی شخصیات اور اسلامی روایات کے دفاع کا نام ہے خاص اس دائرے میں انکار حدیث کے خلافت محنت ہو ، دفاع صحابہ رض و اہل بیت ہو ، مسلم فقہاء کا دفاع ہو ، ختم نبوت ﷺ کی محنت ہو یہ تمام شعبے درحقیت رد الحاد کے ہی شعبے ہیں اس شعبے کے ماہرین بھی مختلف دائروں میں منقسم ہوں گے۔ علوم القرآن اور تفسیر کا علم ، علوم الحدیث اور تاریخ حدیث میں مہارت ، مستشرقین کے اعتراضات کا علم ، مشاجرات صحابہ رض کے حوالے سے اہل سنت کے منہج فکر سے واقفیت ، سلف صالحین اور فقہاء کے منہج سے واقفیت ، تاریخ اسلامی کے گمراہ فرقوں کے حوالے سے معلومات کا حصول ، مسلم تہذیت و تاریخ سے واقفیت وغیرہ۔۔

دہریت کا دائرہ اور اس کے خلاف محنت کا میدان
دہریت کا دائرہ الحاد سے اوپر ہے یہ براہ راست مذہب اور مابعد الطبیعیات کے خلاف اعتراضات کھڑے کرتا ہے اس کا بنیادی جوہر عقل پرستی اور مادیت پرستی ہے اسلیے یہ کبھی معجزات کا انکار کرے گا اور کبھی دیگر معتقدات کا انکار کرے گا یہ مذہب پر مختلف دائروں میں سوالات اٹھائے گا۔ اول مذہب کے مافوق الفطرت امور ، دوم مذہب کی اخلاقی حیثیت ، سوم عصر حاضر میں مذہب کی ضرورت و اہمیت۔

دہریت کے خلاف محنت کا میدان
دہریت کے خلاف کام کرنے والے بنیادی سطح پر اسلامی علم الکلام کے حوالے سے مہارت حاصل کریں اس کے بعد منطق اور فلسفے کا علم بھی ضروری ہے اگر ان علوم پر مہارت نہیں تو پھر رد دہریت آپ کا میدان ہی نہیں ہے اس کے بعد معاصر دہریت کے عقلی اشکالات کا جواب منطقی استدلال کے دائرے میں ماہرین سے سیکھا جائے۔

مغربیت کا دائرہ
مغربیت کا دائرہ دو بنیادی عنوانات پر مشتمل ہے اور ہر دو عنوانات کا علم انتہائی ضروری ہے۔

اول فلسفہ و تاریخ مغرب
چاہے وہ جدیدیت ہو یا ابتدائی ہیومنزم ہو ، قدیم فلسفہ یونان سے متاثر مغرب کی تحریک تنویر ہو ، رومانویت ہو ، عقل پرستی ہو ، مادیت پرستی ہو یا پھر تشکیک و دہریت ہو ان تمام فلسفوں کو ان کی مکمل تاریخ کے ساتھ سمجھنا مغربیت کا میدان ہے اس میدان کے مزید دائرے ہیں۔
الف٭ سیاسی دائروں میں مغربی فکر کی جانچ جیسے نیشنلزم یا سیکولر ازم کو سمجھنا ، عالمگیرت کے مزاج کو سمجھنا ، استعمار و مابعد استعمار کے مزاج کو سمجھنا ، ٹوٹیلی ٹیرین فکر سے واقف ہونا۔
ب٭ معاشی دائروں میں مغربی فکر کی جانچ جیسے سرمایہ داریت یا اشتراکیت کے مزاج کو سمجھنا دنیا کو ایک عالمی منڈی بنا دینے والی فکر سے واقفیت وغیرہ ۔۔
ج٭ معاشرتی دائروں میں مغربیت کے مزاج کو سمجھنا جیسے لبرل ازم ، فیمینزم ، فریڈم آف سپیچ وغیرہ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فکر۔
د٭ عقل پرستی اور سائنس پرستی کے مزاج کو سمجھنا اور اس کی بنیاد پر قائم مغربی فکر و فلسفے اور اس کے اثرات سے واقفیت۔

مغربی تہذیب کا بیان
مغربی تہذیب درحقیقت ان فلسفوں پر ہی قائم ہے کہ جو اوپر بیان ہوئے لیکن اب اس تہذیب کی باقاعدہ ثقافتی اور مذہبی بنیادیں بن چکی ہیں اس نے معاشروں کا ایک مخصوص مزاج بنا دیا ہے اور اس کے نتیجےمیں معاشرے بحیثیت مجموعی مذہب گریز ہو رہے ہیں ان کا دائرہ کار کھانے پینے کی سطح سے لیکر کر ڈیزائنر لباسوں ، برانڈز ، جدید تہذیبی تقریبات اور رسوم و رواج یہاں تک کہ مذہب کی ایک خالص مادیت پرستانہ شکل تک آ چکا ہے۔

مغربیت کی مذہبی شکل
مغربیت نے مذہب کا کلی انکار نہیں کیا بلکہ مذہب کے معاشرے میں سیاسی ، ثقافتی ، سماجی ، قانونی دائروں کا انکار کیا ہے مغربیت کو رقص و سرود سے کوئی مسئلہ نہیں اسے مسئلہ مذہب کی عملی تشکیل سے ہے بلکہ بہت سی جگہوں پر وہ مذہبی تقریبات کو پروموٹ کرتا ہے جیسے ایسٹر یا ہولی دیوالی وغیرہ یا پھر مسلم معاشروں کی بہت سی رسومات مغربیت کا ایک بڑا عنوان مستقبل قریب میں ایک نئے مذہب کی تشکیل ہے۔

عالمگیری مذہب یعنی وحدت ادیان اور مغربیت
مغرب ایک طویل عرصے سے عالمگیری مذہب کی آواز لگا رہا ہے گو کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ماضی میں دین اکبری ہو ، بہائیت ہو ، بابیت ہو اس کی بہت سی شکلیں موجود رہی ہیں لیکن موجودہ دور میں اسے دین ابراہیمی کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے مشترکہ عبادت خانے ہوں اور ان کی مشترکہ تعلیمات کو ایک نئے عنوان کے تحت متعارف کروایا جائے۔

مغربیت کے رد کا میدان
یہ انتہائی اہم اور مشکل میدان ہے کیونکہ اس میدان میں آپ کا مقابلہ ایک غالب تہذیب سے ہے ایک ایسی تہذیب کہ جو عالمی سطح پر اپنے قدم جما چکی ہے یہ محنت انفرادی سطح سے لیکر اجتماعی سطح تک ہر ہر دائرے میں کرنا ہوگی اس میں فرد کی اصلاح سے معاشرے کی اصلاح تک اور معاشرے کی اصلاح سے ریاست کی اصلاح تک اور ریاست کی اصلاح سے امت کی اصلاح تک ہر شعبے میں کام ہوگا۔
" یقین جانیے جب تک ہمارے مدارس ، ہماری خانقاہیں ، ہماری سیاسی و تحریکی جماعتیں ، ہمارے مبلغ ، ہمارے متکلم ، ہمارے مفکرین و فلاسفہ بحیثیت مجموعی مغربیت کے خلاف کام نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا "
اس کام کے مختلف عنوانات ہو سکتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

علمی دائرہ
علمی دائرے میں مغربی فکر و فلسفے سے واقفیت کے ساتھ ساتھ عوام کا تعلق ان کی تاریخ و روایت سے جوڑا جائے۔ سب سے پہلے سیرت النبی ﷺ کو تحریکی انداز میں عوام کے اندر متعارف کروایا جائے ، اس کے بعد حیات الصحابہ رض اور سیرت اہل بہت اطہار کا تعارف ہو اس کے بعد مسلم فقہا و مفکرین کا تعارف ہو مزید اسلامی سیاست ، اسلامی معاشرت ، اسلامی معیشت ، اسلامی نظام عدالت کے ماہرین تیار کیے جائیں۔

عملی میدان
اس میدان میں خانقاہیں تزکیہ نفس پر محنت کریں کہ جو ان کا اصل کام ہے نہ کہ خود کو بدعات میں مبتلا رکھیں ، تبلیغی جماعتیں مسلم معاشرت کے قیام پر کام کریں اور مسلم سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرے میں احیاء اسلام کی محنت کریں۔
کیا یہ سب ممکن ہے ؟

جی ہاں یہ سب ممکن ہے لیکن جب تک کام کا طریقہ اور اس کی جہات کا علم نہیں ہوگا اور ہمارا رخ درست سمت پر نہیں ہوگا اور ہم کامیابی کی جانب پہلا قدم بڑھانے سے بھی قاصر رہیں گے وقت جارہا ہے لیکن ابھی گیا نہیں ہے بلکہ یہ وہ وقت ہے کہ نتیجے سے بے پراہ ہوکر خود کو اس کام کے لیے وقف کردیا جائے. افراد سازی سے لیکر معاشرے کی تشکیل تک یہ کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کام کو جاری رکھنے کے لیے ایسے رجال کار کی ضرورت ہے کہ جو خود کو دین کے لیے وقف کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔