( وحدت انسانیت ، انسان دوستی ، تعاون باہمی کے تناظر میں )
بیسویں صدی انقلابات کی صدی کہلائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں تہذیبی ، فکری و نظریاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ عالمی سطح پر برسر اقتدار قوتیں اپنے اہداف اور اپنے مراکز تبدیل کر رہی تھیں۔ عالمی سطح پہ سامراجی جال نئے انداز سے پھیلانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف استعماری جبر کے خلاف سماجی انصاف اور تحریکاتِ آزادی عروج حاصل کر رہی تھیں۔ پرانے فرسودہ ڈھانچے زمین بوس ہو رہے تھے اور نئے اور جاندار تہذیب و تمدن اپنی جگہ بنا رہے تھے۔ قومی حکومتوں کا تصور سامنے آ رہا تھا۔ ہر قوم اپنی فضا ، زمین اور سمندر کو الگ تھلگ کرنے کیلئے متفق ہو رہی تھیں۔ وطن پہچان بن رہا تھا۔ جمہوری روئیے اور کلچر نمو پا رہا تھا۔ جس سے جمہوری ریاستوں کے ڈھانچے وجود میں آ رہے تھے۔ مختصر یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں ارتقاء کا عمل جاری وساری تھا۔
انسانی زندگی میں ارتقاء کے تقاضے:-
خالقِ کائنات میں انسان کو نہایت احسن انداز سے پیدا فرمایا اور ساری مخلوقات سے اُسے فضیلت عطا فرمائی اور پھر اعلان فرما دیا کہ یہ رتبہ و فضیلت دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اس لیے ہے کہ اِسے عقلِ سلیم عطا فرمائی۔ خالق کائنات نے صدیوں سے انسان کو ارتقاء کے ان گنت مراحل سے گزارا تہذیب و تمدن کا تنوع اور علوم و فنون کی یہ بےانتہا ترقی خالق کی دی ہوئی اسی نعمتِ علم و حکمت کے بدولت ہوئی لیکن تاریخِ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ
" انسان کو اس دنیا پر بستے معلوم نہیں کتنی صدیاں گزر گئیں اور اسے ارتقاء کے موجودہ منزل تک پہنچنے میں خبر نہیں ، کیا کیا مراحل طے کرنے پڑے اس طویل مدت میں انسانوں نے کئی تمدن بنائے ، بڑے بڑے فلسفوں کی بنیاد رکھی ، علوم وجود میں آئے ، اخلاق و عادات کے نت نئے معیارات قائم ہوئے ، نبی مبعوث ہوئے ان کی زبان سے خدا تعالیٰ کے پیغامات اُس کے بندوں کو ملے ، فلسفیوں اور حکماء نے نئے نئے مشاہدات کیے۔ الغرض اب تک اتنے تمدنی ، اخلاقی ، فلسفی اور دینی نظریے وجود میں آ چکے ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہوتا ہے۔ " ( 1 )
انسانی تمدن کے ارتقاء کی تاریخ اپنے اندر ان گنت اقوام اور انسانی گروہوں کی بےشمار کہانیاں سمیٹے ہوئی ہے۔ جن کا تعلق انسانوں کے عروج و زوال سے متعلق ہے تاریخ اپنے سینے میں عروج و زوال کی ان داستانوں میں ہمارے لیے ان فطری اصولوں کی نشاہدہی کرتی ہے۔ جن کو اختیار کر کے اقوام نے عروج حاصل کیا اور جن کی روگردانی سے اقوام تنزل کا شکار ہو گئیں۔
اجتماعِ انسانی کا دارومدار فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو محبت کے ایسے خمیر سے پیدا کیا جس کی اساس پر وہ رشتوں ناطوں کے ایسے سلسلے استوار کرتا ہے کہ اس کی خوشیوں ، مسرتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اُس کے اندر جستجو ، عزم ، حوصلہ اور زندہ رہنے کا احساس پیدا کرتا ہے۔ خالق کائنات نے اس انسان کے اندر دوسرے انسانوں سے محبت و الفت کا ایسا گہرا رشتہ استوار کیا ہے کہ کرہِ ارض پر بسنے والے کوئی انسان اس سے اپنے آپ کو خالی یا آزاد نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ انسانوں کا یہ اجتماع بغیر اخوت اور تعاون باہمی کے اپنا وجود قائم رکھ نہیں سکتا۔ اسے تمدنی زندگی کے معاملات میں لامحالہ دوسروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حیوان اور انسان میں بس یہی ایک نازک سا فرق ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں فکرمند ہی نہیں بلکہ اپنے فائدے کو بھی دوسرے کی خاطر قربان کر دیتا ہے۔ اور خود نقصان برداشت کرتا ہے ، بعض اوقات یہ دوسرے کے فائدے کیلئے اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ و عمل حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً چڑیا کو ہی دیکھ لیجئے وہ دن رات اپنے بچوں کی اچھی طرح نگہداشت کرتی ہے۔ اور جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو جانور سے لیکر دنیا کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اور حیوان میں فرق کیا ہے۔؟ اگر انسانی زندگی کے معاملات حیوانی زندگی کے معاملات سے مختلف نہیں تو پھر یہ انسان افضل کیسے ہو گیا۔؟ ہاں ایک پہلو اور بھی ہے جو دلیل کے طور پر سامنے لایا جا سکتا ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے لہذا اسے تمام مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے۔
لیکن جب حیوانات کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حقیر سے حقیر کیڑا وہ کاریگری دکھاتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً مکڑی کو دیکھ لیں ایسا جالا بناتی ہے کہ شاید ہی انسانی ہاتھ یا مشین ایسا نازک جال بنا سکتی ہو۔ دیگر حیوانات کو ہی دیکھ لیجئے انسانی عقل کو حیران و ششدر کر دیتے ہیں اگر چہ وہ انسان کی عقلی قوتوں کی وسعت سے بہرہ مند نہیں لیکن ایک مخصوص حدود کے اندر عقل رکھتے ہیں۔ اور اس کا استعمال بڑے عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ ہاں اگر حیوان اور انسان کی زندگی میں فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک جانور کبھی دوسرے جانور کے نفع و نقصان کیلئے نہیں سوچتا۔ اسکی زندگی کی جدوجہد کا مرکز فقط اپنی ذات اور ایک مخصوص وقت کیلئے اپنے بچوں کی دیکھ بھال ہے۔ لیکن ایک انسان کی زندگی اس سے آگے بھی ہے وہ سماج کیلئے جیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر اجتماعی زندگی ہوتی ہے۔ گو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایک انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان دوسروں کی خدمت اور محبت کے جذبہ اور عمل سے لبریز ہوتا ہے۔ اور جانور اس صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر اور نظریہ اجتماعیت:-
مولانا عبیداللہ سندھیؒ ایک ایسے سماج کی تشکیل کیلئے مصروف جدوجہد رہے۔ جس کی اساس انسانیت کی ہمہ گیر سیاسی نظریہ اور اجتماعیت پر مبنی ہو۔ اس لیے وہ فرسودہ سماج کے خلاف ایک منظم سیاسی جدوجہد کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ آپ کا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے سیاسی مفکر کی حیثیت سے کلام کیا ہے جو سیاسی تبدیلیوں کیلئے جس اجتماعیت کو تشکیل دیتا ہے وہ رنگ و نسل کی قید اور تعصبات سے پاک ہے۔ آپ نے اپنے پوری سیاسی زندگی کی جدوجہد میں مذہبی تعصب کو جگہ نہیں پانے دی۔ آپ ایک ہمہ گیر نظریے کے مبلغ تھے۔ آپ کی جدوجہد کا دائرہ صرف ایک قوم تک محدود نہ تھا بلکہ آپ اپنی قومی جدوجہد کو کل انسانیت کی جدوجہد کا سنگ میل قرار دیتے ہیں۔ ہمہ گیریت کی اس فکر کو وہ قرآن مجید اور احادیث سے لیتے ہیں اور عملی سیاسی تربیت قومی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے اکابر اور قرآن و حدیث کا یہ شعور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ نظریہ اجتماعیت اور وحدت انسانیت کی فکر کو جب پیش کرتے ہیں تو اس حوالے سے اسلام کی ہمہ گیر تحریک اور تاریخ کا تجزیہ پیش کرتے ہیں اور یہ سمجھاتے ہیں کہ اجتماعیت کا سب سے اولین اور اعلیٰ درجہ کا داعی اسلام ہے۔ اور ماضی میں اس نے یہ ثابت کر کے دکھایا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی یہ خاصیت ہے کہ جب وہ اسلامی تاریخ پیش کرتے ہیں تو کسی مخصوص دائرے میں مقید ہو کر بات نہیں کرتے بلکہ وہ اسلام کی حقیقی نقشہ کشی کرتے ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ ہمہ گیر تحریک ہے جس کی اساس پر کُل انسانیت عدل و خوشحالی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ اسلام کی عالمگیر غلبے ، اجتماعیت پسندی کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
" اسلام کی اس تاریخی کارنامہ کی روح و رواں دراصل اس کی عالمگیریت اور جامعیت تھی ، مسلمانوں نے اصلاً سب مذہبوں اور تمدنوں ایک سمجھا اُن کی دینی کتاب نے ساری انسانیت کو مخاطب کیا اُن کے مفکرین نے علم و فلسفے پر بحث کی تو ساری اقوام کے ذہنی سرمایہ کو چھان ڈالا ان کے مؤرخ لکھنے لگے تو انہوں نے حضرت آدمؑ سے شروع کر کے ساری قوموں کی تاریخ کو ایک زنجیر کی کڑیاں بنا کر پیش کیا۔ ( 2 )
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی اس فکر اور نقطہِ نظر کی تائید ایک فرانسیسی مفکر فو کالٹ ( foucault) کے اس بیان سے ہوتی ہے وہ لکھتا ہے۔
" اسلام ایک بےروح دنیا میں روح بن کر نمودار ہوا۔ ( foucault) کا یہ موقف ہے کہ مغربی نقادوں کو اسلام کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے۔ اسلام کی ساتھ مکالمہ یا بحث کیلئے ذہانت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم نفرت ترک کر دیں اور ہزار سالہ تعصبات سے ہاتھ اُٹھا لیں اور مسلمانوں کو جنونی کی حیثیت سے پیش نہ کریں " ( 3 )
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر کی بنیاد اسلام کی یہی ہمہ گیریت تھی۔ وہ خالصتاً انسانی بنیادوں پر اجتماعی تبدیلی کے داعی بنے۔ وہ اسلام کو دین انسانیت کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ اور جب اپنی سیاسی تنظیم بناتے ہیں تو اس ہمہ گیریت اور وسعت نظری سے کام لیتے ہیں۔ وہ بھی اسلام کا نظام لانا چاہتے ہیں لیکن اس اسلامی نظام کے تصور میں رواداری ، انسان دوستی ، اجتماعیت جیسے لوازم ضروری ہیں۔ وہ روایتی انداز سے اسلامیت کو جس سے فقط ایک مذہبی گروہ کی نمائندگی کا تصور ابھرتا ہے کو رد کرتے ہیں۔ وہ قرآن کو اپنے سیاسی پروگرام کی اساس بناتے ہیں۔ وہ قرآن کو انسانی صحیفہ اور اسلام کو انسانی تحریک قرار دیتے ہیں۔ اور آپ کا دائرہ کل انسانی دنیا ہے۔ آپ انسانی فطری تقاضوں کی تکمیل ، انسانی حقوق کی بالادستی ، احترام انسانیت ، انسانیت کیلئے عدل و انصاف ، انسانیت کی برابری ، انسانی معاشرے کے ارتقاء اور ایک ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی کیلئے مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ لہذا مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر کی بنیاد نظریہ اجتماعیت تھی وہ جمہوری رویوں کے ذریعے ایک ایسے سماج کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جہاں قرآن مجید کے انسان دوست فکر کا غلبہ ہو۔ جہاں اسلام کے انسان دوست تعلیمات کا غلبہ ہو۔ جہاں انسان بلا تفریق رنگ ، نسل ، مذہب کے عدل و انصاف اور فطری تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی نظریات میں نظریہ اجتماعیت کس قدر محرک تھا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
مولانا سندھی کا نظریہ اجتماعیت قرآن کی روشنی میں مولانا سندھی اجتماعیت کے قیام کیلئے قرآن کے سیاسی اور سماجی اصولوں کو بنیاد بناتے ہیں۔ لہذا وہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ قرآن سے تعلق رکھنے والا انفرادیت پسند نہیں ہوتا۔ بلکہ اجتماعیت پسند ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
" اللہ کی کتاب کی ادنٰی برکت یہ ہے کہ وہ ایسے افکار سکھاتی ہے جس پر انسانیت مجمع ہو سکتی ہے انسان اگر کتاب اللہ کو یاد رکھے اور اس کے موافق عمل کرتا رہے تو وہ اجتماعی بن جاتا ہے لیکن جب اسے بھلا دے تو وہ اجتماعیت بھول جاتا ہے۔ اور انفرادیت پسند بن جاتا ہے۔ اسی حالت میں اس کی زندگی کا معیار کذب و خیانت بن جاتے ہیں۔ ( 4 )
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر کی عمارت جس نظریہ اجتماعیت اور انسان دوستی پر استوار ہوئی کیا وہ کوئی اجنبی نظریہ ہے ؟ بلکل نہیں ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر اور نظریہ اجتماعیت قرآن کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ جب وہ سیاسی فکر اور نظریہ اجتماعیت کی بات کرتے ہیں تو قرآن مجید میں اس کی اساس ڈھونڈتے ہیں۔ اور قرآن مجید کی سورۃ الفاتحہ کو اساسِ انقلاب قرار دیتے ہیں۔ اور اس اساس میں رب العالمین کے تصور کو وہ ہمہ گیریت اور انسانیت کیلئے سنگ میل قرار دیتے ہیں۔
قرآن مجید انسان کی بلند ترین اجتماعی زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے سورۃ الفاتحہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت کو سمجھنے والے اور اس کے مطابق کام کرنے والے لوگوں کو جمع کیا جائے ایسی جماعت انسانی اجتماع کے مرکز میں رہے گی اور اس اجتماع کی رہنمائی کرے گی۔ ( 5 )
اس طرح مولانا عبیداللہ سندھیؒ جب سیاسی فکر کی اساس کے بعد سیاسی تبدیلی کے اصولوں کی بات کرتے ہیں۔ تو وہ قرآن مجید کی سورت العصر کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور اس میں بتائے گئے سماجی انقلابی تبدیلی کے اصولوں کو اپنانے کی دعوت
دیتے ہیں۔ ( 6 )
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی سیاسی فکر اور نظریہ اجتماعیت قرآنی فکر کی روشنی میں تشکیل پذیر ہوئی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی فکر کی اساس ایک ہمہ گیر مشن کے ساتھ رکھی۔ اُن کے مدنظر وقتی سیاسی مفادات اور شہرت نہ تھی۔ بلکہ وہ ایک ہمہ گیر حقیقی انقلاب کے داعی تھے۔ غربت و افلاس کے اندر انہوں نے زندگی گزار دی لیکن اُن کے نظریات اتنے قیمتی ہیں کہ زمانے بھر کی دولت و ثروت اور خزانے اُس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اُن کی فکر کرہِ ارض پر بسنے والے انسانوں کی خوشحالی ، عزت ، آبرو اور ارتقاء کی نوید ہے۔ اُن کی ہمیشہ یہ تگ و دو رہی ہے کہ اپنی قوم کو دنیا کی ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ قوم بنا لیں۔ آپ اپنی فکر کی اشاعت کیلئے ہمہ وقت مصروفِ عمل رہے۔ اور اپنے نورِ بصیرت کو عام کرنے کیلئے ہمیشہ فکر مند رہے ہیں۔
حوالہ جات:-
1۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ حالات و تعلیمات ، سیاسی افکار / پروفیسر محمد سرور
2۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ حالات و تعلیمات ، سیاسی افکار / پروفیسر محمد سرور
3۔ مقالات مولانا عبیداللہ سندھیؒ/ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری
4۔ قرآنی شعورِ انقلاب/ مولانا عبیداللہ سندھیؒ
5۔ قرآنی شعورِ انقلاب/ مولانا عبیداللہ سندھیؒ
6۔ قرآنی شعورِ انقلاب/ مولانا عبیداللہ سندھیؒ
تبصرہ لکھیے