ہوم << یادوں کے دریچے، رفاقت کی مہک - سعید مسعود ساوند

یادوں کے دریچے، رفاقت کی مہک - سعید مسعود ساوند

آج سے ایک سال قبل، جب ہماری رفاقت کا ایک طویل دور اب دوریوں میں بدلنے والا تھا، موسم کی ٹھنڈک دل پر آرے چلا رہی تھی۔ عیش و تنعم کے باوجود ایک احساس دلا رہی تھی کہ وہ خوشی اور ناز و نخرے برداشت کرنے والا ایک فرد، جو ذات کے لحاظ سے مختلف تھا، فقط ایک ہی رشتے میں جڑا ہوا تھا، اب مسلسل یادوں کے دریچوں سے انگڑائیاں لیتا، چھیڑتا رہے گا۔ جب میں اپنوں سے دور کبھی نخرے کرنے لگوں گا، تو مجھے اب کوئی برداشت نہیں کرے گا۔

دارالعلوم کراچی کی بات ہے، رات دو سے ڈھائی بجے تک بلا تعطل محفل جمتی ۔ اس کے مہمان فقط ہم دو ہوتے ۔ تب ہماری مجلس میں کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہ تھی۔ موبائل جیسے فتنے پر تو دارالعلوم والوں نے خود ہی پابندی لگا رکھی تھی، جس وجہ سے ہم اس خرافات سے بھی بچے ہوئے تھے۔ ایک پلیٹ یونائیٹڈ کا قورمہ، دو مدرسے کی روٹیاں، اور ہماری غیر معمولی پارٹی! باتیں کچھ نہ ہوتیں، بس خاموش بیٹھے، وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو چھیڑتے، جملے کستے، بچپن کے جھوٹے موٹے قصے سنا کر ایک دوسرے کو ہنساتے۔ وقت کا پہیہ ہم سے جیلس تھا، اسے ہماری یہ رفاقت برداشت نہ تھی۔

عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان دوریوں کا سلسلہ شروع ہوتا گیا۔ پہلے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا، تو اب مہینوں مہینوں ملنے کا انتظار ہوتا ہے۔ وہ جب برابر میں تھا، تب کسی کی شوخی بھی برداشت نہ تھی، اب جب تھوڑی سی کھانسی بھی آتی ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ وہ جگر، جو اپنی تمام تر مجبوریوں کو بالائے طاق رکھ کر میری تیمارداری میں لگ جاتا، اب وہ اس دنیا میں تو ہے مگر بہت دور، جہاں ملنے کو بھی ترستے ہیں۔

سادسہ کے سال، میرے دوست جواد محمود کہنے لگے: "سعید، اب توں دو سال تو پُرسکون ہے، جب یہ جدا ہوئے، تب کیا کرو گے؟" تب مجھے اس کا سوال بے حقیقت سا لگا تھا، لیکن جب وہ جدا ہوا، تب میں نے کیا کیا جتن کیے، کسی نے نہیں پوچھا۔ لمحہ بہ لمحہ اپنے اس دوست کو کال کرتا: "نعیمووو! یہ مسئلہ ہے۔" کیا کمال جگرے کا مالک ہے! جہاں میں لوگوں کے لیے ممکنہ راستے نکالتا ہوں، وہاں یہ میری مشکل میں میری دلجوئی میں لگا رہتا ہے۔ سچ کہتے ہیں، خالص دوستی اور ہم مزاج تعلق دار ملنا بہت مشکل ہے۔

آج جب وہ دور ہے، تو کوئی دن خالی نہیں جس دن ہم فون پر رابطہ نہ کریں۔ بات کچھ نہیں ہوتی، بس یوں ہی ایک دوسرے کی آواز ہی ڈھارس کا سامان ہوتی ہے۔ دن گنتے گنتے وقت گزر جاتا ہے، جب ملاقات ہوتی ہے تو ایک دوسرے کے گلے کا ہار بن کر ٹہلتے ہیں۔ سب سے دور جب ہم لبِ مہران میں بیٹھتے ہیں تو اس کے عقب میں بہتا مظلوم سندھو دریا ہماری اس بھائی چارگی پر رشک کرتا ہے۔ اس کی اٹھتی مردہ سی لہریں ہم دونوں سے پوچھتی رہتی ہیں کہ: "واقعی تم دونوں کی دوستی کے خلوص کا چرچا ہے؟" ہم بھی "ہاں جی" کہہ کر خود میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ہماری یہ بے التفاتی، اس کے شک کو یقین میں بدل کر بہا لے جاتی ہے، اور ہم ایک دوسرے سے آنے والے وقتوں میں نہ بھولنے کی قسمیں لیتے لیتے رخصت ہوتے ہیں۔

بے شمار پرخلوص دوستوں کا جھومر کہوں، تو بھی میں حق بجانب ہوں۔ سردار کہوں، تو بھی بجا ہے۔ خدا میرے اس لاڈلے کو سلامت رکھے۔ خدا کرے، ہر خوشی اس کی چوکھٹ کو چومے، اور کوئی غم اس کی چوکھٹ سے چھو کر بھی نہ گزرے۔ خدا اس کے گھرانے کو اور اس کے متعلقین کو شاد و آباد رکھے!