ہوم << بہادر شاہ ظفر کا مدفن تبدیل کیا جائے۔ عرفان علی عزیز

بہادر شاہ ظفر کا مدفن تبدیل کیا جائے۔ عرفان علی عزیز

سلطنتِ مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا خاندانی نام ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر تھا۔ ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لال بائی تھا۔ ان کی پیدائش مورخہ 24 اکتوبر 1775ء کو لال قلعہ دہلی میں ہوئی تھی۔ بہادر شاہ ظفر انتہائی سادہ مزاج، غیر متعصب عبادت گزار اور سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھنے والے نیک دل انسان تھے ۔ پیری مریدی بھی کرتے تھے۔ وہ اعلیٰ قسم کے خطاط اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ اُردو کے علاوہ وہ فارسی ، پنجابی اور ہندی میں بھی شعر کہتے تھے۔

1808ء میں اکبر شاہ ثانی کو انگریزوں نے دہلی کی بادشاہت سونپی، مؤرخہ 28 ستمبر 1838ء کو اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد مؤرخہ 25 اکتوبر 1837ء کو ہندوستان کی بادشاہت بہادر شاہ ثانی کو منتقل ہو گئی۔ اس وقت بہادر شاہ ثانی کی عمر 62 سال تھی اور ان کی حکومت کا دائرہ صرف لال قلعے کی چار دیواری تک محدود تھا۔ سرکاری خزانہ بالکل خالی تھا، ساتھ ہی بادشاہ کو ساہوکاروں کی بھیڑ کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ بادشاہ مکمل طور پر انگریزوں کے ہاتھوں میں تھے اور ان کے پنشن خوار تھے، ان کے حالات بد سے بدتر تھے۔ نہ ان کے جسم میں طاقت تھی، نہ حوصلہ تھا، نہ جینے کی اُمنگ تھی اور نہ بادشاہت کرنے کی تڑپ تھی۔

بہادر شاہ ظفر اس بات سے واقف تھے کہ ہندوستانی انگریزوں کی سازشوں کے شکار ہیں ، ملک میں امن و امان کا کال پڑ چکا ہے، ہندوستانیوں کو نہ ملازمتیں ہیں، نہ ان کی قدردانی و حوصلہ افزائی ہے۔ ہندوستان مکمل طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی چالوں اور خصوصی طور پر لارڈ ڈلہوزی کی سازشوں سے ہندوستانی عوام میں انگریزی سرکار کے خلاف نفرت پھیلتی جارہی ہے۔ ہندوستان کے اس مجبور اور نام نہاد بادشاہ کے پاس اپنے ملک، اپنے ہم وطنوں کے لیے ہمدردی کے دو لفظ بھی نہیں تھے۔ انگریزوں کی چالوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا تھا اور لوٹ مار کے سلسلے جاری تھے۔

1857ء سے قبل ہی ہندوستانیوں میں آزادی کا جوش پیدا ہو چکا تھا اور جب انگریزوں نے فوجوں میں شامل ہندوستانیوں کو ایک نئی طرح کی بندوق اور کار توس چلانے کے لیے دیے، جنھیں بندوق میں بھرنے سے قبل ان کے سروں کو دانتوں سے الگ کرنا پڑتا تھا، ایسی صورت میں مسلمان اور ہندو فوجی دونوں ہی بھڑک اُٹھے، مسلمانوں نے کارتوس کو سور کی چربی اور ہندوؤں نے گائے کی چربی سے بنا سمجھتے ہوئے ان کے استعمال سے انکار کر دیا۔ میرٹھ کی چھاؤنی کے ایک سپاہی منگل پانڈے نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کرنے میں پہل کی اور منگل پانڈے کو اس احتجاج کے لیے پھانسی دے دی گئی، جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں کہرام مچ گیا اور وہ بغاوت کے لیے آمادہ ہو گئے ۔ ہندوستانی فوجیوں نے میرٹھ کی چھاؤنی کو خیر باد کہا اور دہلی پر قبضہ کر لیا فوجیوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا سر دار تسلیم کیا اور ظفر کو پورے ہندوستان کا بادشاہ ہونے کے ساتھ تخت کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ آزادی کے متوالے سر سے کفن باندھ چکے تھے ۔ 1857ء کی جنگ چھڑ چکی تھی ، ہندوستان میں نوے سالہ انگریزوں کی حکومت ہندوستانیوں کے جوش و جذبے کے کے سامنے لڑکھڑا چکی تھی۔

ہندوستانی فوجیوں نے آزادی کی جنگ بڑے جوش و خروش سے لڑی ، سبھی ہندوستانیوں نے اس آزادی کی جنگ میں حصہ لیا لیکن یہ جنگ آزادی انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نہ نکال سکی، ہزاروں ہندوستانی مارے گئے ، بہادر شاہ ظفر کا خاندان نیست و نابود کر دیا گیا اور ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا ۔ دو ماہ مقدمہ چلانے کے بعد 7 اکتوبر 1858ء میں انھیں قصور وار اور مجرم ٹھہراتے ہوئے جلا وطنی کی سزا سنائی گئی اور انھیں بیل گاڑی سے برما بھیج دیا گیا جہاں انھیں -رنگون میں قید رکھا گیا۔

بہادر شاہ ظفر 1858ء تا 1862 ء رنگون میں اپنی بیگم زینت محل، بیٹے جواں بخت اور بیٹی شہزادی رونق زمانی کے ساتھ قید رہے ۔ ظفر انگریزوں سے ملنے والی چھ سو روپے ماہانہ پیشن سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے رہے۔ بیمار رہنے لگے اور انگریزی سرکار کے ظلم و ستم سہتے ہوئے مورخہ 7 نومبر 1862ء ء کو اس دار فانی سے 87 سال کی عمر میں کوچ کر گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کی بیگم اور پوتی بھی رنگون میں ہی دفن ہیں۔ انگریزوں کی سازشوں کے سبب ہندوستان کے کے آخری فرماں روا کو اپنے وطن میں دفن کے لیے دوگز زمین بھی نصیب نہیں ہوئی۔ آزادی کا ہیرو رنگون میں امانتاً دفن ہے لیکن جنگ آزادی کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی بھارت سرکار نے بہادر شاہ ظفر کے جسدِ خاکی کو دہلی میں دفن کیے جانے کی بابت کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی خموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

۔ ایک برطانوی افسران نے بہادر شاہ ظفر کو رنگون کے مشہور شویداگون پیگوڈا کے قریب ایک بےنشان قبر میں دفن کر دیا تھا۔ رنگون کے لوگوں کو یہ تو معلوم تھا کہ آخری مغل شہنشاہ ان کے شہر میں واقع چھاؤنی کے اندر کہیں نہ کہیں دفن ہیں، لیکن درست جگہ کا کسی کا علم نہیں تھا۔ آخر 1991 میں مزدوروں کو ایک نالی کھودتے کھودتے اینٹوں کا چبوترہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دراصل بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے۔ بعد میں عطیات کی مدد سے یہاں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

دنیا بھر کے ملکوں میں روایت چلی آرہی ہے کہ اگر کسی اہم شخصیت کو انتقال کے بعد بوجوہ غیر ملک میں دفن کر دیا گیا ہو تو حالات سازگار ہونے پر اُس کی میت یا باقیات کو اپنے وطن میں لاکر تکریم و تعظیم کے ساتھ اس کی تدفین نو کی جاتی ہے۔ نپولین (فرانس)، روجرکز مینٹ (آئرلینڈ)، زارینہ (روس) کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خود ہندوستان میں مثال موجود ہے۔ 1974ء میں ادھم سنگھ کی باقیات کو لندن سے لاکر پورے قومی اعزاز کے ساتھ ہندوستان میں سپرد خاک کیا جا چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے مدفون جسم کی باقیات کو لال قلعے یا پھر شاہی قلعہ لاہور یا مقبرہ جہانگیر یا اس کے قرب و جوار میں وہ دوگز زمین ضرور ملے جس کے لیے بہادر شاہ ظفر نے مرنے سے قبل کہہ دیا تھا کہ:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

Comments

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment