ہوم << لاہور کتاب میلہ؛ برگر بکے یا کتابیں؟ - عاصمہ حسن

لاہور کتاب میلہ؛ برگر بکے یا کتابیں؟ - عاصمہ حسن

لاہور ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والے حالیہ 38 واں لاہور انٹرنیشنل بک فئیر کی کامیابی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جہاں لاہوریے کھانے پینے کے شوقین ہیں، وہیں کتابوں کے بھی رسیا ہیں۔ جب کتابوں کی خوشبو اور مہک پر منڈلانے والے موجود ہوں تو یہ صدی کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہو ہی نہیں سکتی۔ بک فیئر اطلاعات کے مطابق کامیاب ترین رہا۔ کتابوں کے دیوانوں کا ہجوم دیکھنے کو ملا. بچے، بڑے، بوڑھے، طلبہ و طالبات، اساتذہ غرض کہ سب نے بھرپور شرکت اور اپنی اپنی پسندیدہ کتابوں کی خریداری کی۔

لاہور کو پاکستان کا ثقافتی، ادبی، تعلیمی اور تاریخی مرکز، پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ قیام پاکستان سے پہلے سے جاری ہے۔ انٹرنیشنل بک فیئر سال میں ایک بار منعقد ہوتا ہے اور کسی میلے یا تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔ کتابوں سے عشق کرنے والے پورا سال اس کا انتظار کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ بقیہ پورا سال کتابیں خریدی نہیں جاتیں بلکہ یہ سلسلہ سارا سال چلتا ہے۔ البتہ ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والے بک فیئر کا اپنا ایک مزہ ہے، کتابوں کی خریداری کے ساتھ اس میں پڑھنے والوں کو ان کے پسندیدہ مصنفین سے ملاقات کرنے اور بات چیت کرنے کا سنہرا موقع مل جاتا ہے، مزید یہ کہ ان کے دستخط اور نیک تمناؤں سے سجی کتب بھی مل جاتی ہیں اور وہ بھی رعایتی قیمت پر۔

ایک زمانہ تھا جب آٹوگراف لیے جاتے تھے لیکن چونکہ اب ہم ڈیجیٹل ہو گئے ہیں تو فوراً تصویر لیتے ہیں، اور ایک لمحے کے اندر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، اور فخر سے بتاتے ہیں کہ آج ہماری ملاقات کس مشہور و معروف ہستی سے ہوئی۔ پھر سوشل میڈیا کا جادو چلتا ہے اور پوسٹ یا تصاویر وائرل ہو جاتی ہیں۔ جس مصنف کی تصویر سوشل میڈیا پر زیادہ گردش کرتی ہے، وہی دل پسند اور مشہور مصنف کہلاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیشنل بک فیئر کی مرہونِ منت قارئین کو کئی بڑے، چھوٹے، مشہور اور ڈھکے چھپے، غرض ہر قسم کے لکھاریوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں سے بھی ملنا ہو جاتا ہے جن کو ہم پڑھتے تو ضرور ہیں لیکن ان کو دیکھنے، ملنے یا بات کرنے کا خواب صرف خواب ہی لگتا تھا۔ اس میلے میں دور دراز شہروں سے لوگ کتب کی محبت میں جوق در جوق آتے ہیں، ایک بڑی تعدار اس کتاب ملے کا حصہ بنتی ہے۔

جن دنوں لاہور انٹرنیشنل بک فیئر اپنے جوبن پر تھا، انھی دنوں میں انیسواں کراچی لٹریچر فیسٹیول بھی اپنی آب و تاب دکھا رہا تھا۔ بیک وقت ملک کے دو بڑے شہروں میں کامیاب کتاب میلہ کا سجنا بہت خوش آئند ہے، کامیابی کا سہرا کتابیں پڑھنے والوں کو جاتا ہے۔ لاہور اور کراچی کے علاوہ دوسرے کئی شہروں میں بھی کتابوں کے میلے سجتے ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نوجوان نسل کتابوں سے جڑی ہے. ہمارا مستقبل روشن اور محفوظ ہے۔

لاہور کئی معاملات میں نہ صرف نظروں میں بلکہ آئے دن خبروں کی بھی زد میں رہتا ہے۔ منفی سوچ یا مخصوص ایجنڈا رکھنے والے کوئی نہ کوئی بات نکال کر اچھالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جس کا حقائق اور سچائی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لاہوریوں نے متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ سوشل میڈیا اپنی جگہ، کھابے (برگر، پیزے ، سموسے، پکوڑے، نہاری، پائے) کی اپنی جگہ و اہمیت ہے، مگر کتابوں سے لگاؤ، الفت، اور محبت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ طنزو مزاح کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا کہ برگر و پیزے کی ریکارڈ فروخت ہوئی، جبکہ کتابیں منہ تکتی رہ گئیں، سراسر غلط اور بےبنیاد ہے، کسی فردِ واحد کی منفی سوچ اور پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اکثر خبروں میں سچائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، لہذا اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

لاہوریے اعتدال پسند ہیں۔ جہاں وہ کھانے پینے کے شوقین ہیں وہیں وہ موسم سے لطف اٹھانا، گرمی و سردی کو بخوبی نبھانا، بہار کے رنگوں سے کھیلنا، ادبی و ثقافتی میدان سجانا بھی جانتے ہیں، اور جب بات کتابوں پر آجائے تو اپنا عشق نبھاتے ہیں۔ خود سوچیں اگر کتابیں پڑھنے والے نہ ہوتے تو کیا اتنی کتب شائع ہوتیں اور ان لکھنے والوں کو پہچاننے والے ہوتے؟ کیا ان کو اتنی پذیرائی ملتی؟ کوئی بھی پبلشر کیوں اتنا بھاری بھر کم کرایہ ادا کرکے اپنی کتب کا اسٹال لگائے گا جب خریدار ہی نہ ہوں؟ کیوں اتنی تگ و دو کر کے، اتنی محنت کرکے کتابوں کی نمائش اور اشاعت کریں گے؟

ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا کی حکمرانی ہے، لہذا جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے، یعنی جومشہور ہے، جس کی فین فالونگ ہے وہی بے تاج بادشاہ ہے۔ بیشتر پبلشرز کو اپنی مارکیٹنگ حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ ہٹ کر اور اچھوتا لیکن مثبت، تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکیں اور اس کے ساتھ اپنے ٹارگٹس بھی حاصل کر سکیں۔ اسی طرح حکومت اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ کتب کی اشاعت کو آسان بنائیں، کاغذ کی قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ کتابوں کی قیمت کم ہو سکے، اور ایک عام آدمی بھی باآسانی کتب خرید کر اپنی علم کی پیاس کو بجھا سکے۔ یہ بات درست ہے کہ کتابوں کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں لیکن کئی پبلشرز اچھا خاصا ڈسکاؤنٹ اپنے پڑھنے والوں کو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹال کی قیمت بھی کم کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اسٹال لگائے جا سکیں اور کتب کی اشاعت اور پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کتاب ایک خوبصورت خواب ہے، اور آپ اسے اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں۔ کتابیں پڑھنے والے کئی زندگیاں جی جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم کتابیں پڑھتے ہیں تو ہم بغیر چلے پھرے، گھومے کئی ممالک کی سیر کر لیتے ہیں اور ان کی ثقافت و تمدن، رسم و رواج وغیرہ کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ کتابوں سے بڑھ کر کوئی رفیق نہیں ہوتا لہذا ہمیں ان کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے، جو کام کر رہے ہیں ان کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے، حکومتی اداروں کو ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے

Comments

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment