کبھی سوچا ہے کہ ایک شخص کو کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ذبح کرنے پر مجبور ہو جائے؟ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں پیش آنے والا یہ دلخراش واقعہ محض ایک فرد کا ذاتی المیہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے—ایک ایسا سوال جو ہماری انسانیت، اخلاقیات اور اجتماعی ذمہ داریوں پر کاری ضرب لگاتا ہے۔
ایک باپ، چار معصوم زندگیاں، اور ایک بے رحم دنیا
یہ شخص تنہا نہیں تھا، مگر بے یار و مددگار ضرور تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، اس کا اپنا بھائی اس کے ساتھ ظلم کر رہا تھا—اس نے مکان خرید کر صرف دو لاکھ روپے ادا کیے، باقی رقم دبا لی۔ بار بار حق مانگنے کے باوجود، اسے دھتکار دیا گیا۔ بیوی بھی اسی تنازعے پر روٹھ گئی اور واپسی سے انکار کر دیا۔ ایک طرف مالی بوجھ، دوسری طرف جذباتی اذیت، اور سب سے بڑھ کر، ایک ایسا معاشرہ جو خاموش تماشائی بنا رہا۔ پھر ایک دن، وہ ٹوٹ گیا۔ چار معصوم چہرے، جو کل تک کھیلتے کودتے نظر آتے تھے، آج خاموش اور بے جان پڑے ہیں۔ ایک باپ، جو شاید آخری وقت تک کسی معجزے کی امید کر رہا تھا، آخرکار موت کو گلے لگا بیٹھا۔
یہ قتل کس نے کیا؟
ہم سب انگلیاں اس شخص کی طرف اٹھائیں گے، جس نے خود اپنے ہی بچوں کو مار ڈالا۔ مگر سوچیں:
* وہ بھائی، جس نے اس کا حق کھا لیا—کیا وہ اس جرم میں شریک نہیں؟
* وہ بیوی، جس نے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا—کیا اس کا دامن صاف ہے؟
* وہ اہلِ محلہ، جو سب کچھ جانتے تھے مگر خاموش رہے—کیا وہ بے قصور ہیں؟
یہ شخص قصوروار تھا، مگر کیا ہم سب نہیں؟
اسلام اور ہماری عملی زندگی—کتنا تضاد؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔" تو پھر ہم کیسا اسلام اپنائے بیٹھے ہیں؟ جہاں بھائی، بھائی کا حق مارتا ہے؟ جہاں پڑوسی دوسرے کی تکلیف دیکھ کر نظریں چرا لیتے ہیں؟ کیا ہمارا ایمان محض ظاہری عبادات تک محدود ہو چکا ہے؟
کیا یہ آخری واقعہ ہوگا؟
یہ پہلا سانحہ نہیں اور نہ ہی آخری ہوگا۔ کل کو کوئی اور شخص، جو قرض میں ڈوبا ہوگا، جسے دھوکہ دیا گیا ہوگا، جسے اپنوں نے دھتکار دیا ہوگا—شاید وہ بھی ایسا ہی کوئی قدم اٹھا لے۔ اگر ہم نے اپنے رویے نہ بدلے، اگر ہم نے مظلوم کے حق میں بولنا نہ سیکھا، تو ایسے مزید جنازے اٹھتے رہیں گے، اور ہم بس خبر پڑھ کر افسوس کرتے رہیں گے۔
کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟
جی ہاں، ہم کر سکتے ہیں!
* اگر کسی کا حق دبایا جا رہا ہے، تو خاموش مت رہیں، حق کے لیے آواز اٹھائیں۔
* اپنے قریبی لوگوں کے مسائل کو سمجھیں، ان کی مدد کریں, انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔
* اپنے ارد گرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں جو ذہنی دباؤ کا شکار ہیں—کبھی ایک ہمدردانہ بات کسی کی زندگی بچا سکتی ہے۔
آج یہ کسی اور کے گھر میں ہوا، کل ہمارے اپنے گھروں میں نہ ہو جائے!
ایک لمحہ توقف: کیا ہم واقعی انسان ہیں؟
صوابی کے اس المناک واقعے نے ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہمیں اپنی انسانیت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم صرف خبروں پر افسوس کرنے والے تماشائی بن کر رہ جائیں گے، یا پھر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے جہاں کسی باپ کو اپنے بچوں کو قتل کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے؟ فیصلہ آپ کا ہے!
تبصرہ لکھیے