ہوم << خطیب حضرات سے چند باتیں - الطاف جمیل شاہ

خطیب حضرات سے چند باتیں - الطاف جمیل شاہ

مقرر ہوں نہ واعظ ہوں، نہ ساحر ہوں میں لفظوں کا
زبان بس ساتھ دیتی ہے میں باتیں دل سے کرتا ہوں

وادی کشمیر کا انداز ہی نرالا ہے. آپ سوچیں یہاں جب اذاں بلند ہوتی ہے تو اہل علم سر تھام کر بیٹھ جاتے ہیں کیوں کہ اذان کوئی ایسا شخص دیتا ہے جو یا تو سرے سے ہی ان پڑھ ہوگا یا پھر عربی کے قواعد سے اس قدر بے خبر کہ اذان کے الفاظ کو ہی بدل دے گا- اس پر نئی پریشانی یہ کہ اس قدر الفاظ کی کھینچ تان کرے گا کہ قراء قرآن انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے- اسی طرح اسلام کے بقیہ اعمال کا حال بھی ہم نے ایسا کردیا ہے کہ اللہ ہی حافظ ہے۔ اب ہمارے ہاں کئی برسوں سے علماء کے بجائے ایک ایسا گروہ تیار ہوا ہے جو یا تو اپنی میٹھی آواز یا اپنے مکتب فکر کا من چاہا ہونے کے سبب، یا پھر حد سے زائد مذاقیہ باتیں، یا پھر گھن گرج اس قدر شدید کہ خواہ الفاظ سمجھ آئیں نہ آئیں، مزہ تو آتا ہے اس گھن گرج کا۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مبلغ محترم کو خود بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ اسے اپنے الفاظ کا بھی علم نہیں رہتا کہ وہ جوش و جنون میں کب اڑ گیا ۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مسلکی منافرت پھیلا کر ماحول گرما دیتا ہے اور لوگوں کو مختلف انداز سے اپنی جانب متوجہ رکھتا ہے۔ علم نہیں ہوتا بس چند باتیں سنا دیں اور گھن گرج شروع۔ حد یہ کہ یہ لوگ اپنی مساجد میں لعن و طعن بھی مخالف فکر کے علماء و واعظین پر کرتے ہیں ، یا پھر یہاں کے سادہ عوام کو قصہ کہانیاں سنا کر اپنا کام نکالتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ مساجد میں افکار و نظریات کی آبیاری تو ہوتی ہے لیکن معاشرے اور سماجی اقدار پر بات نہیں ہوتی۔ کسی خطیب نے جو ہمت کی تو اسے مساجد سے رخصت کیا جاتا ہے۔ یہاں گر ایمانداری سے دیکھا جائے تو عوام کے سوا ہر کوئی اپنے مسلک و منہج کی آبیاری کر رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات، اسلامی اخلاق و عادات، افکار و نظریات، عقیدے جیسے موضوعات اب قصہ پارینہ بن گے ہیں۔ کوئی لحنِ داؤدی میں منقبت سنا رہا ہے تو کوئی اسی لحن میں ذرا اونچی آواز میں کشمیری غزل سنا رہا ہے۔ کوئی نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنا کر جمعہ کا خطبہ نپٹا رہا ہے تو کسی نے اپنی پیری مریدی کو فروغ دینے کے لیے من چاہی داستانیں سنانی شروع کر دی ہیں- ایک مبلغ ہماری مسجد میں آئے. میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جناب کے ساتھ پورا مائیک سسٹم ہے۔ ’’ڈی ے “ کا پورا سیٹ ہے۔ تبلیغ جب شروع کی تو کان پھٹ رہے تھے . لوگ ششدر رہ گۓ اس گرجدار آواز سے اور وہ جناب جھوم جھوم کر تبلیغ کیے جارہے ہیں۔ آخر میں اس مشینری کا خرچہ الگ وصول کیا اور گاڑی سے لیکر جسم کے تیل کا خرچہ الگ ۔ المیہ یہ نہیں کہ یہ نمونے کم علم کم فہم لوگ مسلط ہورہے ہیں، بلکہ المیہ یہ کہ جن فکروں سے یا جن نظریات سے یہ خود کو وابستہ بتا رہے ہیں، اس فکر کے بڑے علماء ان کی واہ واہی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مبلغین کو کبارعلماء کے برابر مدارس و خانقاہوں میں اسٹیج پر بٹھایا جاتا ہے، ان کو مہمان خصوصی بنا کر لایا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ دین کا فائدہ ہوگا بلکہ اس لیے کہ مساجد و مدارس کے لیے چندہ زیادہ ہوگا، اور ثمر اس ناتوانی کا اب ہماری سامنے ہے کہ لمبی قطار کھڑی ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا یا گاڑیوں پر لکھے مزاحیہ اشعار سنا سنا کر ان اشعار کو اقبال و حالی کے سر منڈھ دیا جاتا ہے - دسیوں مثالیں ایسی ہیں کہ اہل عقل ان کی تبلیغ سن کر سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں ۔ مجال ہے انہیں کوئی روکے کہ بھائی یہ افسانہ نگاری آپ کتابوں تک محدود رکھیں، یہاں مساجد میں علم و آگاہی کی بات کریں۔

عنفوانِ شباب میں، حفظ کا ابتدائی درجہ تھا، میں اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ شام کو دوست کے ساتھ مسجد گیا اس لیے نہیں کہ نماز ادا کروں، بلکہ دل میں یہ بات تھی کہ ان کا امام بوڑھا ہے، قرآن میں غلطی کرے گا ، میں نکالوں گا اور پھر اہل بستی میری قابلیت اور یادداشت کو سراہیں گے۔ امامِ محترم نے تلاوت کے دوران غلطی کی، میں نے ٹوکا، اور پھر نماز کے بعد میں نے اپنا فتویٰ بیان کیا کہ آپ جاہل ہیں، آپ کے پیچھے نماز نہیں ہوئی۔ اس امامِ مکرم نے کہا کہ بیٹا میں بحث نہیں کرسکتا ، کاش آپ کے والد ہوتے وہ آپ کو سمجھاتے۔ امام صاحب نے گلوگیر آواز میں یہ الفاظ کہے۔ میرا دل جیسے پھٹنے لگا . میں نے معافی مانگی اور مسجد سے نکل آیا، لیکن میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو خود ہی شرمندہ ہوجاتا ہوں۔

دسیوں لوگ گواہ ہیں کہ آج سے کئی سال پہلے میں جب تبلیغ کے لیے مسجد جاتا تھا تو پہلے ہی بازؤں پر سے کپڑا لپیٹ لیتا اور تیز طرار تبلیغ کرتا تھا، لوگ واہ وا کرتے، مجھے بھی خوشی ہوتی تھی. پھر ایک دن مرشد مکرم کے ساتھ بیٹھا تھا ، انہوں نے کہا بیٹے سنا ہے مسجد کے اسپیکروں کو ہلا دیتے ہو ،خوشی سے جھوم کر جوں ہی میں نے کہا جی جی ، تو بولے کوئی چاہے کتنا چلائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. ہاں چلانے کے بجائے گر تم دل سے محبت و احترام کے ساتھ شائستہ گفتگو کرو تو اس کا اثر دیر پا رہتا ہے ۔ اس کے بعد میں نے بڑے علماء کی موجود تقاریر سنیں. امام حسن البنا اور سید مودودی کی چند آڈیوز تھیں۔ پھر مولانا علی میاں ندوی کو سنا . اسی طرح کی کئی قد آور شخصیات کو سنا، ایسا لگا کہ ان کی گفتگو میں جھنجھلاہٹ نہیں ہے، شور نہیں، شدت نہیں ہے۔ دھیمی آواز ہے، سلیقہ مندی سے گفتگو کر رہے ہیں، اصل بات کو سمجھا رہے ہیں، وہ مخصوص عبادات کو بیان نہیں کرتے بلکہ کل دین بیان کرتے ہیں۔ میں نے شیخ اشرف علی تھانوی کے ملفوظات اور چند کتابوں کو پڑھا ، قاری طیب صاحب کے خطابات، حکیم الاسلام کو پڑھا، مولانا احمد رضا خان بریلوی کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو ایسا لگا کہ میں تو غلطی پر ہوں۔ پھر معروف عالم دین علامہ انظر شاہ کشمیری کی مجالس میں بیٹھا، انھیں سنا تو یقین آیا کہ تبلیغ دین ایک ایسا فریضہ ہے جسے سمجھنے کے لیے داعیانہ اوصاف کا ہونا لازمی جز ہے ورنہ بجائے اصلاح کے بگاڑ کا صرف اندیشہ ہی نہیں بلکہ پورا بگاڑ پیدا ہوجائے گا، اور تفریق کی ایسی خلیج بن جائے گی کہ جس کی بھرپائی پھر شاید ممکن ہی نہ ہو سکے گی۔

سو یاد رکھیں فریضہ تبلیغ کا عظیم فریضہ پہلے اس امت میں رسول اللہ ﷺ نے انجام دیا جنہیں واضح ہدایت دی گئی تھی کہ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے.

اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو طبعا اور فطرتا نرم خو اور ہمدرد پیدا فرمایا تھا۔ آپ مشکلات پر صبر کرنے والے، مخالفوں کی مخالفت کا جواب خندہ روئی کے ساتھ دینے والے، اور بدترین دشمن کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ آپ (ﷺ) نے زندگی بھر کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا. آپ کے اعلیٰ اخلاق کی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یوں تعریف کی گئی ہے : ” لوگو! تمہارے پاس تمھی میں سے ایک رسول آیا ہے تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے نہایت ہی گراں گزرتی ہے، وہ تمھاری کامیابی کی بہت ہی چاہت رکھتا ہے۔ مؤمنوں کے ساتھ نہایت مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔“ (التوبۃ:128)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپﷺ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپﷺ کو حکم ہوا کہ آپ حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ لوگوں کو دین حنیف کی طرف دعوت دیں۔ اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں۔ آخر میں فرمایا کہ آپ ﷺ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے۔ اس لئے بحیثیت داعی جو بھی مبلغ ہو یا دعوت دین کے میدان میں سرگرم عمل ہو اسے چاہئے کہ آیت مذکور کی روشنی میں کائنات کے امام ﷺ کو سمجھے اور خوب غور و فکر کے بعد ہی میدان دعوت میں قدم رکھے یا فریضہ تبلیغ سے جڑ جائے ۔

ہمارے ہاں اکثر خطیب اپنا خطبہ اس انداز سے ترتیب دیتے ہیں کہ یا تو عوام کے دماغ میں آتا ہی نہیں کہ بات کیا کہی جارہی ہے یا پھر ایسی عالمانہ گفتگو کی جاتی ہے جو عوام کے معیار سے کافی الگ ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے ہی ایک معروف مبلغ نے فرمایا میں جو تبلیغ کر رہا ہوں، یہ درس طحاوی کی تیاری ہے، ممکن ہے آپ کو سمجھ نہ آئے، لیکن یہ عالمانہ گفتگو سمجھنے کی خود میں استعداد پیدا کریں۔ یا بے موقع بے محل گفتگو ایسے کی جاتی ہے جیسے سوائے مبلغ صاحب کے کسی کو دینی شعور ہی نہیں۔ کسی میت کے سامنے گرچہ آخرت کی گفتگو مفید ہوتی ہے، مگر یہاں دیکھا جاتا ہے کہ خطیب اس وقت بھی سود،بدکاری، فحاشی پر بات کرتا ہے۔ ایسے ہی مجلسِ نکاح میں فضائل وضو بیان کیے جاتے ہیں. وہ اہل علم بڑے ہی حساس اور علوم اسلامیہ کے ماہر ہوتے ہیں جو وقت کی نزاکت کو پھانب کر فریضہ تبلیغ انجام دیتے ہیں۔

حکمت کا ایک تقاضا ہے کہ موقع محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے۔ اس کے ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی، خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَتَخَوَّلُنَا بالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ، کَرَاہَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا) [ رواہ البخاری : باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔“ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ، باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ] ” حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہتم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہے جو لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے۔“ قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ، أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ [ رواہ البخاری : کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جو وہ سمجھتے ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے، عوامی معیار کو سمجھنا اور موقع و محل کو پرکھنا مبلغیں کا اولین فریضہ ہے سوائے اس کے آپ کی تبلیغ میں اثر نہیں پیدا ہوسکتا

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً''میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہو ں ". معلمانہ کردار ادا کرنے کے لیے نفسیات انسانی کے بنیادی پہلوؤں کو جا ننا ضروری تھا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام اصول سلکھا دیے ۔آپﷺ انسانی نفسیات کا تجزیہ کرنے کی صلا حیت سے مالا مال تھے۔آپ کسی سے ملا قات فرماتے تو چند ہی لمحوں میں اس کے مزاج فہم و شعور کی استعداد اور افتاد طبع کا انداز ہ فرمالیتے اور پھر اسی تجزیے کے مطابق اس سے کلام فرماتے ۔قرآن مجید میں بھی انسانی مزاج اور نفسیا ت کے بارے میں بنیادی حقائق بیان کیے گئے ۔آپ ﷺ کی نگاہ حق شناس میں یہ اصول بھی ہر وقت رہتے تھے۔ كلموا الناس على قدر عقولهم "انسانوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو". چنانچہ اسلوب تبلیغ میں ہم یہ اصول بچوں کے ساتھ بات کرتے ہو ئے اپنے جانثار صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سےکچھ ارشاد فر ماتے ہو ئے اور غیر مسلموں سے بحث فر ماتے ہو ئے دیکھ سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی گفتگو میں شائستگی، الفاظ کی پختگی ، تحمل بردباری جسیے عنصر نمایاں محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ ہر موقع و محل کی مناسبت سے مختلف انداز اختیار فرماتے ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بیان مبارک ہے: نحن معاشر الأنبياء أمرنا أن نكلم الناس على قدر عقولهم "ہم گروہ انبیاء کرام علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کی ذہنی سطح کے مطا بق بات کیا کریں."

مسجع و مقفع الفاظی، زبان درازی، باچھیں کھول کر اور گلہ پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنا باتوں کو خواہ مخواہ پھیلا نا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند تھا. آپﷺ نے ایک مو قع پر ارشاد فرمایا: إنَّ الله يُبْغِضُ البَلِيْغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِه كما يَتَخَلَّلُ الأَبَاقرُ "اللہ کو وہ فصیح و بلیغ خطیب نا پسند ہے جو اپنی زبان سے یو ں چرتا ہے جس طرح گا ئے چرتی ہے. اندا ز گفتگو دعوت دین میں بہت اہمیت رکھتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق تبلیغ میں اس اصول کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کے کلا م و گفتگو کے انداز کے بارے میں فرماتی ہیں حلو المنطق ،فصل لا نزر ولا هزر كأن منطقه خرزات نظم ينحدرن، "آپ ﷺ شیریں کلا م تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات نہایت واضح ہو تی نہ قلیل الکلام تھے نہ فضول الکلام ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلا م معجزانہ انداز سے پروئے ہوئے موتیوں کی مانند تھا جو لڑی میں پرو دئیے گئے ہوں ۔ نبی اکرم ﷺ کے انداز تکلم کے بارے میں اہل علم بیان کرتے ہیں "آپ ﷺکے کلام میں وقفہ ہو تا تھا کہ یاد کرنے والے کو الفا ظ یاد ہو جاتے اور روانی ایسی کہ اہل زبان انگشت بدنداں رہ جاتے سلاست کا کیا کہا جاسکتا ہے نبی کریم ﷺ قادر الکلام تھے وہ چنیدہ الفاظ کو اس انداز سے بیان کرتے کہ سامع بس سنتا جاتا تھا وہ فضول گفتگو سے أعراض کرتے تھے اور ہر انداز میں نرالا پن ہوتا تھا وہ جب گفتگو کرتے چلاتے بلکل بھی نہ تھے اور اس قدر دھیمی بھی گفتگو نہ کرتے تھے کہ سامع کو سننے میں مشکلات پیش آتی۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں : " نبی کریم علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے، آپ ﷺ کے خطابات مختصر اور جامع ہوتے تھے، حضرت جابر بن سمرہؓ سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام لمبا خطبہ نہیں دیتے تھے (سنن ابی داود : 1107 ) اور آپ کا بیان بھی زیادہ تر قرآنی آیات اور نصیحتوں پر مشتمل ہوتا تھا (مسند احمد: 20949 ) حضرت عمار بن یاسرؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا خطاب مختصر ہوتا تھا اور اسی میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ ’’ تشدق اور تفہق‘‘ کو پسند نہیں فرماتے تھے (الاستذکار لابن عبدالبر المالکی:364/2 ). "تشدق" سے مراد ہے عمدہ گفتگو کرنے کے لئے جبڑے ہلا کر بات کرنا اور بلند آواز میں تقریر کرنا، اور ’’ تفہق‘‘ سے مراد تکلف کے ساتھ بات کرنا اور بڑھا چڑھا کر باتیں پیش کرنا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایسے لوگوں کو مبغوض ترین شخص قرار دیا ہے (سنن ترمذی: 2018 )۔ اس لیے بہت لمبا خطاب اور کرخت آواز میں اپنی باتیں پیش کرنا، گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنا حدیث کی رو سے ایک ناپسندیدہ طریقہ ہے"

یہ چند باتیں بتانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اصل مقصد کے حصول کے لیے کوشش کریں. اگر ہم نے صرف جذباتیت کو فروغ دیا تو یقیناً ایسا جہالت و اندھیرے کا دور آئے گا کہ اہل حق کا قافلہ ایمانی لذت و چاشنی سے آشنا ہونے کو ترسے گا . جہالت و علم یکساں طور نہیں جمع ہوسکتے۔ یہ دو متضاد نظریے ہیں۔ سو ہمیں چاہیے کہ علم کی روشنی کو اس قدر فروغ دیں کہ ظلمت کی سیاہ تاریکیوں کی تاریکی دور ہوجائے اور جہاں منور ہوجائے. اس کے لیے لازم ہے کہ اہل علم کی علمی کاوشوں سے استفادہ کیا جائے اور تفریق در تفریق کے خول میں مقید کرنے کے شیدائیوں کو ہر صورت اپنی مجالس سے نکالا جائے۔