ہمارے ملک میں تاریخ کو دو طرح سے سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے، ایک نصابی کتابوں والی تاریخ ہے جس میں یہ بتلایا جاتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ برصغیر میں مسلمان حملہ آوروں کی آمد بالخصوص محمد بن قاسم کے حملے کے بعد شروع ہوتی ہے، اس سے پہلے کی تاریخ سے لاتعلقی ظاہر کردی جاتی ہے۔ جبکہ دوسری تاریخ ان لبرل اور سیکولر افراد کی ہے جو پاکستان کو ایک غلطی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس میں بھی بعض مخصوص مذہبی لوگ ان کی تائید کرتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل افراد کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان بنانے سے اسلامی شدت پسندوں کو ایک ایسی سرزمین مہیا کی گئی جو کہ کیمونزم کو روکنے اور مشرق وسطی کے تیل کی ترسیل میں امریکہ اور یورپ کی اہم اتحادی ہو۔ وہ ان اختلافات کو نظرانداز کرتے ہیں جو برصغیر کے مختلف خطوں خصوصا موجودہ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے مابین موجود تھے۔ جبکہ ان کے حمایتی مذہبی لوگ اس کو برصغیر کے مسلمانوں کی تقسیم قرار دیتے ہیں۔ یہاں ہم اس مخصوص تاریخ کا جائزہ لیں گے جو کہ ہمارے نصاب اور ہمارے سرکاری میڈیا میں رائج ہے.
ہمارے ملک میں تاریخ کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس پر سخت حیرت ہوتی ہے. یہ بات درست ہے کہ ہر قوم اور ہر نظریہ ایک مخصوض عینک سے تاریخ کی تفہیم کو دیکھتے ہیں اور اس کی اپنی تعبیر کرتے ہیں مگر کسی بھی علاقے کی تاریخ بیان کرتے وقت اس کا جغرافیہ بہت اہم ہوتا ہے. کوئی علاقہ ہوا یا خلا میں موجود نہیں ہوتا، وہ ایک جیتی جاگتی زمینی حقیقت ہوتا ہے. پاکستان زمین کے جس خطے میں آباد ہے وہ وادی سندھ کے نام سے ہزاروں سال سے موجود ہے، ہم گنگا اور جمنا کی وادی سے الگ ایک تاریخی تشخص رکھتے ہیں۔ یہ بات کہ برصغیر میں اسلام کی ابتدا محمد بن قاسم کے حملے سے ہوئی ایک انتہائی غلط بات ہے۔ محمد بن قاسم کا حملہ ہماری اس تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے مگر اسلام کی تبلیغ اور فروغ میں اس کا کردار بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے.
حقیقت تو یہ ہے کہ وادی سندھ میں بعض افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں مدینہ جا کر ایمان لا چکے تھے. مکہ کے ساتھ وادی سندھ کے تجارتی روابط موجود تھے اور وہاں سے اسلام کی کرنیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں وادی سندھ میں داخل ہو چکی تھیں. حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی کے دور میں خراسان کی فتح کے ساتھ وادی سندھ کے بعض علاقوں میں یہ تعلق زیادہ اہم ہو گیا۔ مگر خلافت راشدہ کے بعد جب عرب ملوکیت کو استحکام حاصل ہوا تو عرب سلطنت کے لیے ضروری تھا کہ چین سے لے کر یورپ تک اور ملایا سے لے کر عرب تک سمندری اور خشکی راستے نہ صرف پرامن ہوں بلکہ عرب سلطنت کے براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول میں ہوں۔ ولید بن عبدالمالک کا عہد عرب ملوکیت کے سنہری ادوار میں سے ایک ہے۔ اس دور میں ان راستوں پر براہ راست کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی گئی چنانچہ بیک وقت تین براعظموں میں عرب سلطنت کی افواج اپنی فتح کے جھنڈے لہرا رہی تھیں۔ تاہم یہ سب اس دور کی ایک سپر پاور کی سیاسی اور انتظامی ضروریات تھیں جن کو مذہبی رنگ اور تقدیس کا روپ دینا اس وقت کے مورخین کی ضرورت تھا مگر آج ہم ان سب باتوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لے سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کی اشاعت عرب سلطنت کی افواج کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ یہ ان صوفیائے کرام کی وجہ سے ہوئی جو کہ کسی فوجی طاقت کے بغیر دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ دوسرا ان عرب تاجروں کی وجہ سے ہوئی جو اپنے تجارتی قافلے لے کر دنیا کے مختلف علاقوں میں جاتے تھے اور اپنے اخلاق اور اپنی دیانت سے لوگوں کا دل جیت لیا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ عرب تاجروں میں دو طرح کی تجارت تھی، ایک تو وہ تاجر تھے جو غلاموں اور کنیزوں کے کاروبار میں ملوث تھے مگر یہاں ان تاجروں کا ذکر ہے جو مال واسباب کی تجارت کرتے تھے۔ تیسرا یہ ان مسلمان بزرگوں کی وجہ سے ہوئی جو کہ مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
عرب ملوکیت کے دور کے آغاز پر عراق کے صوبے پر ایک انتہائی ظالم شخص حجاج بن یوسف کو گورنر تعینات کیا گیا تاکہ عراق سے بنوامیہ کے باغیوں کا خاتمہ کیا جا سکے. جب حجاج بن یوسف کے مظالم کی وجہ سے بہت سے شیعان علی وادی سندھ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، اور اس کے بعد جب عراق میں ابن اشعت کی بغاوت ہوئی جس کی تائید بہت سے نامور تابعیین نے کی تھی، تو حجاج بن یوسف نے اس بغاوت پر قابو پا کر ظلم کی اخیر کر دی تھی جس کا تذکرہ اس زمانے کی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے. ان مظالم کی وجہ سے بہت سے لوگ وادی سندھ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے. اس پر حجاج بن یوسف وادی سندھ کے راجہ سے سخت ناراض ہوا اور اس نے ان لوگوں کی واپسی کا مطالبہ کیا جو سندھ کے راجہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اس لیے محمد بن قاسم سے قبل بھی حجاج بن یوسف نے دو فوجی مہمات روانہ کیں جو کامیاب نہ ہو سکیں. اس کے بعد وادی سندھ اور عرب ملوکیت میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور عرب کے تجارتی جہازوں کو بھی بحیرہ عرب میں اپنی نقل وحمل میں مسئلہ پیدا ہوا، یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں عرب لشکروں کی پیش رفت جاری تھی اور غلاموں اور کنیزوں کے کاروبار کو اہم ترین کاروبار کا درجہ حاصل ہوگیا تھا.
یہ افسانہ کہ حجاج بن یوسف کسی مظلوم عورت کے نوحے پر ایک فوجی مہم روانہ کر رہا تھا، ایک دلچسپ بات ہے کیونکہ اسی حجاج بن یوسف کو مکہ معظمہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حواری رسول حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بیوی کا نوحہ اور اجتجاج نظر نہیں آیا جو انھوں نے اپنے بیٹے، صحابی رسول اور ام المومنین حضرت عائشہ کے منہ بولے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کو سولی سے نہ اتارنے پر پڑھا تھا. بہرحال محمد بن قاسم کی ذاتی خوبیاں کتنی ہی بڑھا چڑھا کر بیان کی جائیں، یہ حقیقت ہے کہ اسلام اس کی آمد سے پہلے وادی سندھ میں موجود تھا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ اسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ عرب ملوکیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے تھا اور اس کا ایک مقصد عرب کے تجارتی راستے کو محفوظ بنانا تھا اور دوسری طرف بنوامیہ کے ان مخالفوں کو گرفتار کرنا تھا جو سندھ میں پناہ لے چکے تھے. اس کے بعد جب سلیمان کا دور آیا تو اس نے پوری دنیا میں حجاج کے بھیجے لشکروں کے مظالم کی تحقیق کی اور اسی لیے اس نے سندھ سے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بلایا، اس کے مظالم کی وجہ سے اس پر خلیفہ کے مقرر کردہ قاضی نے مقدمہ چلایا اور اسے سخت سزا دی۔ یہ ساری باتیں ہم تاریخ سے حدف کر دیتے ہیں. سلیمان کو ایک طرف ہم اس بات پر داد دیتے ہیں کہ اس نے اپنے جانشین کے طور پر عمر بن عبدالعزیز کو نامزد کیا تو دوسری طرف ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے عرب ملوکیت کی فتوحات کو بریک کیوں لگادی اور فاتحین کے مبینہ مظالم، کرپشن اور بےاعتدالیوں کو معاف اور نظر انداز کرنے کے بجائے مقدمے کیوں چلانے شروع کیے۔ تاریخ کو اگر دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں اس کو اس طریقے سے مت لیں کہ اپنے پسندیدہ واقعات کو اپنا لیں اور پورے تناظر کو نظر انداز کردیں.
وادی سندھ میں اسلام صوفی دانشوروں کی پرامن مساعی کی وجہ سے پھیلا اور کسی راجے نے ان کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالی، اس میں مسلمان حملہ آوروں کا کردار بہت محدود نوعیت کا ہے۔ عرب حملے کی وجہ عرب ملوکیت کے مفادات تھے، اسے اسلام کے ساتھ جوڑنا اور ان حملہ آوروں کو عظیم مسلم ہیرو بنا کر پیش کرنا ایک غلط عمل ہے اور یہ دشمنوں کے اس موقف کی تائید کرنے والی بات ہے کہ اسلام کو ظالم جکمرانوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے دنیا میں تلوار کے ذریعے پھیلایا.
وسط ایشیا اور افغانستان کے مسلمان حملہ آوروں کے حملوں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ افغان سلاطین محمود غزنوی، محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی کو اس اعتبار سے غیر ملکی حملہ آور کہنا صریحا غلط ہے کہ تاریخ میں افغان علاقہ ہمیشہ برصغیر اور بہت سے ادوار حکومت میں ہندوستان کی سلطنت کا حصہ رہا ہے. کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ یہاں محمود غزنوی، محمد غوری یا احمد شاہ ابدالی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ یہ کہنا ہے کہ جیسے ان کے کاموں کو جواز نہیں دیا جا سکتا، وہاں ان کے مخالفین کو بھی ہیرو نہیں قرار دیا جا سکتا کہ ان کی جنگیں برصغیر کے مختلف علاقوں کے حکمرانوں کی باہمی جنگیں تھیں. نہ ان مسلمان حکمرانوں کی جنگوں کا مقصد اسلام کی تبلیغ یا ان علاقوں کے مسلمانوں کا تحفظ تھا اور نہ غیر مسلم اپنی ماں دھرتی کے تحفظ کی کوئی عظیم جنگ لڑ رہے تھے کیونکہ یہ ایک ہی علاقے کے حکمرانوں کے باہمی سیاسی مسائل تھے جو ان جنگوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔
سلاطین دہلی میں سے کسی کو بھی اسلامی ہیرو کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان کی حکمرانی کا تجزیہ اس دور کے حالات اور اس دور کے دوسرے حکمرانوں کے ساتھ موازنہ کرکے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے ادوار کو اسلامی ادوار نہیں کہا جا سکتا، یہ مسلمان حکمرانوں کے ادوار تھے جس میں التمش، بلبن، علائو الدین خلجی، فیروز شاہ تغلق اور سکندر سوری جیسے اچھے منتظم اور قانون پر سختی سے عمل کروانے والے بھی تھے اور ناصر الدین محمود، غیاث الدین خلجی اور بہلول لودھی جیسے رحمدل بھی، مگر ان سلاطین کا تجزیہ اس دور کے حالات اور ضروریات کے مطابق کرنا چاہیے. ان حکمرانوں کو غیرملکی کہنا سخت ناانصافی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر حکمران برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہوئے اور کئی سلاطین ایسی مائوں کی اولاد تھے جو نسلی طور پر بھی مقامی خواتین تھیں۔ ان میں سے کسی حکمران کو بھی اس طرح اسلام کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا جیسے صوفیائے کرام کو قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان صوفیا سے بھی بشری تقاضوں کے تحت غلطی سرزد کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
مغل دور میں سوائے شہنشاہ عالمگیر کے کوئی دوسری ایسی شخصیت نہیں جس کے لیے بعض مسلمان مورخین اور علما زیادہ حساس رویے کا مظاہرہ کریں۔ مگر عالمگیر کی شخصیت پر بھی بہت سی تنقیدی کتابیں موجود ہیں۔ یہ راویت کہ وہ ٹوپیاں سی کر یا قران مجید کی کتابت کرکے روزی کماتا تھا، اب اتنی قابل اعتبار نہیں سمجھی جاتی کہ جب ایسی کوئی شے کسی امیر کے پاس فروخت کے لیے آتی تھیں تو وہ اس شاہی کارندے کو یہ نہیں پوچھ سکتا تھا کہ شہنشاہ نے کون سے فارغ وقت میں یہ کام کیا ہوگا۔ عالمگیر نے اپنے والد سے جو سلوک کیا یا اپنے بھائی شہزادہ مراد سے جس طریقے سے دغا کیا اس پر بھی کافی تنقید موجود ہے۔ عالمگیر کے بعد نادر شاہ کے قتل عام اور ابدالی کے حملوں کے خلاف مسلمان شاعروں نے بھی لکھا ہے. یہ بات کہ جناب شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دہلی پر حملے کی دعوت دی تھی اور ابدالی نے مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست دی تھی، اب تمام مسلمان مورخین کے لیے غیرمتنازعہ نہیں کہ احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے دہلی کی حکومت کو کسی طرح تقویت نہیں دی تھی بلکہ مزید کمزور کیا تھا، اور اس سے انگریزوں کے مقابلے کی تمام قوتیں کمزور ہوئیں تھیں۔ جبکہ شاہ احمد بریلی اور شاہ اسمعیل کی تحریک جہاد نے برصغیر میں اہل سنت میں مزید فرقہ واریت کی شروعات کی تھیں اور ان دونوں نے دہلی میں انگریز حکومت کو چیلنج کرنے کے بجائے سکھ حکومت کے اتحادی ایک مسلمان گورنر کے خلاف جہاد کی ابتدا کی اور وہیں شہید ہوئے۔
اس کے علاوہ یہاں اس پہلو کا ذکر کرنا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ یہ سب دہلی کی حکومت کی تاریخ زیادہ لگتی ہے جو ہماری نصابی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے، سندھ کے مقامی حکمرانوں کا ذکر ہی بہت کم ملتا ہے. یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمد غوری سے پہلے وادی سندھ کا زیادہ تر حصہ دو سو سال تک مصر کی فاطمی سلطنت کے زیراہتمام ایک خود مختار علاقے کے طور پر رہا جہاں فاطمی خلیفہ اور اسمعیلی امام کا خطبہ دیا جاتا تھا۔ سلاطین کے دور میں سندھ اور پنجاب کے راجے زیادہ تر خود مختار حیثیث میں حکومت کرتے رہے۔ یہ مغل دور تھا جب ہر علاقے میں مغل گورنر موجود ہوتا تھا مگر مغلوں کے دور میں پنجاب سے دلا بھٹی اور پختون علاقوں سے خوش حال خاں خٹک جیسی بغاوتوں نے سر اٹھایا جس کی تفصیل پاکستانی تاریخ میں نہیں دی جاتی۔ مغل زوال کے وقت جب پورے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوچکا تھا، وادی سندھ کےتمام علاقے انگریزوں کی عمل داری سے باہر تھے۔ پنجاب اور پختون علاقے احمد شاہ ابدالی کی افغان سلطنت کا حصہ تھے۔ احمد شاہ ابدالی کے بعد ان علاقوں کو سکھ سلطنت نے فتح کیا جبکہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں وہاں کے مقامی حکمرانوں کی بالادستی قائم رہی. ایسٹ انڈیا کمپنی کو برصغیر میں سب سے بڑا معرکہ پنجابی افواج سے لڑنا پڑا۔ رانی جنداں اور شیرسنگھ اٹاری والے کی زیر قیادت اس فوج نے انگریزوں کو ایک بھاری شکست دی۔ جاوید اقبال نے علامہ اقبال کی سوانح عمری ’’زندہ رود‘‘ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں علامہ اقبال کے پردادا شیخ جمال نے اپنے بیٹوں سمیت شرکت کی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ آزادی میں احمد خاں کھرل کی جنگ کو سب سے بڑی جنگ سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں الگ الگ جنگیں لڑی گئیں۔ ان سب کا تاریخی ریکارڈ نہیں جمع کیا گیا۔ سندھ میں کھوڑو اور تالپوروں کی حکومت کے بارے کچھ نہیں لکھا گیا۔ انگریز سرکار کے خلاف جو سب سے بڑا الزام لگایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ انھوں نے پنجاب کی ٹیکسائل کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور اس صنعتی علاقے کو زراعت کی ایک خام منڈی میں تبدیل کیا گیا۔ سیالکوٹ کی کاغذ سازی کی قدیم صنعت کو تباہ کیا گیا۔ انگریز حکومت نے تحریک آزادی کے دوران سب سے بڑا قتل عام پنجاب کے ایک علاقے جلیانوالہ باغ میں کیا۔ سندھ میں پیر آف پگاڑا اور ان کے مریدوں کو سزائے موت دی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ان سب کا ذکر نہیں ملتا۔ (جاری ہے)
کافی سوالات کہ جوابات ملے ... اور خوب حقیقت پر روشنی ڈالی ۔ ۔ ۔ ماشااللہ ۔ ۔ ۔
بہت عمدہ، معلومات سے بھرپور، اور چشم کشا کالم ہے. اس میں ایسے حقائق بھی ہیں جن سے طالب علم ہی نہیں سکولوں اور کالجوں کے استاذہ بھی بے خبر ہیں. امید ہے کہ برادر داؤد ظفر ندیم تاریخی حقائق پیش کرنے کا سلسہ جاری رکھیں گے. نیز اپنی اس تحقیق کو ایک کتابچے کی شکل دینے کی کوشش کریں گے. کوشش کرکے اس کتابچے کو سکولوں اور کالجوں کے تاریخی نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے.
بہت عمدہ تحریر؛ تواریخ کو عقیدت کی عینک سے نہیں دیکهنا چاہیے، بل کہ طالب علم کی نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے. طالب علم کا پہلا سبق سچ کے زینے کی تلاش ہے. سچ کو تعصبات نگل جاتے ہیں. جهوٹ بول کر آگے بڑهنا ایسا ہی ہے، جیسے اندهیری سرنگ کا سفر.
عمدہ معلومات،ہم تو بس نصابی کتب تک محدود ہیں۔بہت نئ باتیں آپ کے توسط سے جان پاءے۔اس سلسلے کو کتابی شکل میں ضرور آنا چاہیے
آپ نے جن تاریخی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے کوئی مستند حوالے بھی ہم جیسے لاعلم افراد کے لئے دےد یتے تو بہت ہی اعلی ہو جائے گا ۔