کچھ سفر مختصر سہی مگر بھرپور زندگی کا ساماں لیے ہوتے ہیں۔ ویسے یہ بھرپور زندگی کا تصور بھی مبہم سا ہے لیکن یہاں اس سے مراد وہ لمحات ہیں جن میں انسان خود کو زندہ محسوس کرے اور لمحہ موجود میں ہونے کا احساس اُسے خوش کر دے۔ اگر اداس کر دے تب بھی فرق نہیں پڑتا، بس یہ احساس ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ میرے نزدیک سفر کا لطف ہمسفر سے ہے۔ زندگی، زندہ دل لوگوں کے بیچ گزرے تو کیا ہی اچھا ہے۔ ایسے ہی ایک مختصر سفر کی بے ربط کہانی ذہن میں گردش کر رہی تھی۔ جی چاہا کہ اس کو کسی بہانے الفاظ میں منتقل کیا جائے۔ جب کوشش کی تو فیکٹ اور فکشن کا امتزاج سا بن گیا۔
خیر، ہمسفر تھے ایک درویش، اور سفر تھا آس پاس کے دیہات کا، جبکہ گفتگو رہی درختوں کی اور پوٹھوہار کی لینڈ سکیپس کی۔ گاڑی ڈرائیو کرتے وہ باتیں کرتے رہے اور میرے ساحلِ دل پر گویا ایک ایک کر کے نہ جانے کب سے بجھی ہوئی مشعلوں کی قطاریں روشن ہوتی گئیں۔ بات شروع ہوئی ان کے ایک عزیز کے قول سے کہ وہ کہتے ہیں کہ خطہ پوٹھوہار تو ایک اوپن میوزیم ہے۔ یہاں کے میدان، پہاڑ، درخت، پانی، اور آدمی سبھی دیکھنے کے لائق ہیں۔ یوں جیسے جیسے گاڑی چلتی رہی، وہ ایک ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے اور وہ درخت ان سے جو بات کرتا، وہ مجھے بتاتے رہتے۔
کہنے لگے کہ درخت ہمیشہ مجھے فیسینیٹ کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر شجر ایک کہانی سناتا ہے۔ تجھے پتہ ہے ناں کہ درخت باتیں کرتے ہیں؛ آپس میں بھی اور ہم سے بھی۔اُس درخت کو دیکھو؛ یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی چل کر دوسرے درخت سے بات کرنے آیا ہے۔ اور اُس طرف وہ درخت اکیلا کھڑا ہے، سب سے الگ تھلگ، ناراض ناراض سا۔ وہ دور ایک اور خالی خالی سا درخت۔ وہ ایک قطار میں سفیدے کے درخت؛ کتنی سُندر لینڈسکیپ ہے۔ اچھا، یہ بیری کے درخت بھی بڑے عجیب ہیں، بچھڑے بچھڑے سے مگر یوں جیسے ایک بندھن میں بندھے ہوں۔ ان میں ایک الگ کشش ہوتی ہے۔ وہ موڑ پر درخت دیکھو، گول سا، کیسا اچھا ہے۔ کچھ دیر بعد ہم ایک ویران عمارت کے پاس سے گزرے۔
بتانے لگے کہ مجھے ایسی ویران عمارتیں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ کوئی خالی پولٹری فارم یا ویران فیکٹری ہو جس کے در و دیوار پر گزرے ہوئے وقت کے نشاں ہوں، مشینوں پہ زنگ آگیا ہو؛ جھاڑیوں اور درختوں میں چھپی یاسیت بھری ویران عمارتیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس میں بھی مجھے رومان نظر آتا ہے۔ خیر، درختوں کو دیکھو میاں۔ آج کا دن درختوں کے نام ہے۔ آج تجھے کتنے پیارے پیارے درخت دکھائے ہیں۔
کچھ آگے چل کر ایک وسیع میدان آیا جس کے آخر میں پہاڑیاں تھیں جنہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے باقاعدہ تراشی گئی ہیں۔ یہ منظر بھرپور نگاہوں سے دیکھتے رہے اور آسودگی سے گویا ہوئے کہ یار، کتنی مزے کی لینڈ سکیپ ہے۔ پھر خوش دلی سے ہنسے اور بولے کہ آج یہ لفظ 'لینڈ سکیپ' بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ میں نے بھی ہنس کر تائید کی اور ذرا سا چونک پڑا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس ہنسی میں کچھ نیا پن ہے۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب ہم نشیں ایسا ہو تو آدمی یونہی سرشار ہو جاتا ہے؛ پھر سے جی اٹھتا ہے۔ شام ہونے لگی تھی اور وہ بھی نومبر کی شام کہ ڈوبتا سورج آنکھوں کو اتنا چھبتا نہیں بلکہ چاند کی طرح بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔
درختوں کو دیکھتے، سوچتے، سمجھتے میرا ذہن واقعی ایک الگ سمت جانے لگا۔ پھر یاد آیا کہ درخت کو پنجابی میں رُکھ کہتے ہیں۔ یہیں سے شاہ حسین یاد آئے جو محبوب کو اپنے ہاں بلانے کے لیے جھوٹ موٹ کا ہی کہتے ہیں کہ یارا میرے گھر کے آنگن میں صندل کا درخت بھی لگا ہے، وہی دیکھنے کے لیے آ جا۔
چندن رُکھ لگا وچ ویہڑے زور دھگانے کہیے
نال سجن دے رہیے
نال سجن دے رہیے
تبصرہ لکھیے