رات کے آخری پہر کا وقت تھا۔ ایک سیاسی رہنما، جو کبھی اپنی حکومت کے دوران آزادی اظہار کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا، اسے اطلا ع ملی "جھوٹی خبر پھیلانے پر 3 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔" یہ الفاظ اس کے لیے کسی خواب کا نہیں بلکہ ماضی کے ایک فیصلے کا عکس تھے، جو اب آئینے کی طرح اس پر واپس پلٹ رہے تھے۔
یہ وہی رہنما تھا جس نے گزشتہ دور حکومت میں جب وہ حکمرانی کی کرسی پر براجمان تھا اور میڈیا کو اپنے بس میں کرنے کی منصوبہ بندی "پیکا آرڈیننس" کے نام سے کی تھی ۔ اس وقت کے اپوزیشن رہنماؤں نے آزادی اظہار پر پابندی کی دہائی دی، لیکن ان کے احتجاج کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اس وقت اُن کا نعرہ تھا کہ جھوٹی خبروں کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر وقت کے ساتھ اقتدار کا پہیہ گھوما اور آج وہی قانون اس کے خلاف استعمال ہو رہا تھا۔
حکومت نے پیکا (دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) میں مزید ترامیم کی تجویز دی ہے، جس کے تحت جھوٹی خبروں اور غیر قانونی مواد کے خلاف سخت قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ ان ترامیم کے مطابق جھوٹی خبر پھیلانے پر 3 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) قائم کیا جائے گا جو آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرے گی اور ممنوعہ مواد کو بلاک یا ختم کرنے کی مجاز ہوگی۔
مجوزہ ترامیم کے تحت سوشل میڈیا سمیت ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز بلکہ ان تمام پلیٹ فارمز کو شامل کیا گیا ہے جو ڈیجیٹل مواد تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی مواد کی تعریف میں بھی توسیع کی گئی ہے، جس میں توہین عدالت، امن عامہ کو خراب کرنے والا مواد، اور فرقہ وارانہ منافرت جیسے مسائل شامل کیے گئے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ہی ڈی آر پی اے، ایک نئی اتھارٹی، کو آن لائن مواد کو بلاک کرنے، سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے، اور ان کے دفاتر قائم کرنے کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔جو کہ سب کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے
اگر دیکھا جائے تو اس پیکا قوانین پر ماضی میں بھی سوالات اٹھائے گئے تھے، اور اس کی موجودہ ترامیم نے ان خدشات کو اب مزید بڑھا دیا ہے۔ یعنی ان ترامیم کے ذریعے آزادی اظہار پر مزید قدغن لگائی جا رہی ہے۔ صحافی اور سماجی کارکنان اسے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد جھوٹی خبروں اور غیر قانونی مواد کی روک تھام ہے، جو قومی سلامتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا؟ ماضی میں پیکا قوانین کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، اور اب وہی قوانین سابقہ حکومتی عہدیداروں کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔ یہ صورتحال ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ قوانین کا استعمال صرف وقتی ضرورت کے تحت نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا مقصد انصاف اور مساوات پر مبنی ہونا چاہیے۔
پیکا ایکٹ میں ترامیم ایک اہم موڑ پر سامنے آ رہی ہے، جہاں ڈیجیٹل دنیا میں جھوٹی خبروں کی روک تھام ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اور عوام دونوں مل کر ایک ایسا راستہ تلاش کریں، جو شفافیت، آزادی، اور ذمہ داری کے درمیان توازن قائم کرے۔ ورنہ، آج کے حکمرانوں کو کل انہی قوانین کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ تاریخ ہمیں بارہا دکھا چکی ہے۔
تبصرہ لکھیے