ہوم << ہر ایک استاد کو لازم ہے کہ وہ دوست بھی ہو! محمد کامران اتمان خیل

ہر ایک استاد کو لازم ہے کہ وہ دوست بھی ہو! محمد کامران اتمان خیل

ممکن ہے کہ تحریر کے عنوان کو پڑھ کر آپ میں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی ہو کہ یہ کیسی بات ہے کہ دوست بھی استاد بھی ہو ؟ ہاں ! ، دوست استاد ہوسکتا ہے۔۔۔! لیکن جب استاد دوست بن جائے تو یہ ایک الگ مقام ہے ، اور میرے خیال میں ایک استاد کو دوست ہونا بھی چاہئے کیونکہ یہ ایک پیغمبری پیشہ ہے اور پیغمبری کام دوستی کا کام ہوتا ہے،خیرخواہی کا ،یعنی خدا سے ملانا، حقیقت سے روشناس کرنا،جہالت سے نکالنا، روشنیوں تک لے آنا اور انسان کو انسان بنانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور یہ سب کام ایک استاد کرتا ہے ، اور جو استاد دوست نہیں ہوتا وہ تو یا استاد نہیں ہوتا یا اچھا استاد نہیں ۔۔۔استاد کا دوست ہونے سے یہ مراد نہیں کہ استاد اور شاگرد ایک دوسرے سے بے تکلفانہ دوستوں کی طرح رویہ اپنائے رکھے یا دونوں کے درمیان جو ادب اور احترام کا یک خاص رشتہ ہے اس کو کوئی نقصان پہنچے یا اس میں کوئی کمی کی جائے ، بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ وہ صرف ایک رسمی معلم نہ ہو بلکہ اپنے شاگردوں کے لیے ایک ایسا رہنما، مددگار اور مشفق ساتھی ہو جس کے ساتھ وہ کھل کر بات کر سکیں، سوال کر سکیں اور اپنی مشکلات کا اظہار کر سکیں۔ ایک دوست نما استاد طلبہ کو سختی اور خوف کے ماحول میں دبانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ان کی عزت کرتا ہے اور ان کے سیکھنے کے عمل کو آسان اور دلچسپ بناتا ہے۔

استاد کا مقام بہت بڑا ہے، بہت بڑا کیونکہ خدا خود ایک استاد ہے ، اس نے ہمیں بنایا یعنی انسان کو بنایا لیکن انسان زمین پر رہتے ہوئے کچھ زمانوں میں انسان نہ رہا یعنی وہ جسمانی طور پر تو انسان تو تھا لیکن قولی و فعلی طور پر وہ بدلتا رہا ، اور اس بدلتے شکلوں میں وہ کبھی کبھی جانور ، حیوان ،درندہ یا کچھ اور بھی بنا لیکن پھر خدا نے انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے کے لیے اپنے طرف سے انسان بھیجے یا انہی میں سے کچھ لوگ (پیغمبر ) منتحب کئے تاکہ وہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنائے اور وہ لوگ نبی اور رسول کہلائے، اور رسول استاد تھے ، انہوں نے انسانوں کو خدا کی طرف بلایا ، ان کو زمین پر رہنے ، اچھا کھانے ، دوسروں سے برتاؤ کرنے اور مختصراً ہر چیز سے خبردار کیا اور انہیں یہ سب سکھایا۔۔۔۔ خیر وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ تھے اور ان پر خدا کا خاص فضل و کرم تھا جس کا کیا بیان۔۔۔۔، مجھ سے بات لمبی ہوتی جارہی ہے لہزا میں بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں ، بس یہاں تمہید میں اس پیغمبری پیشے سے تشبیہہ دینے کا مقصد استاد کے مقام کو واضح کرنا تھا۔۔۔

استادوں کے معاملے میں میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے ہمیشہ سے دوست استاد ملے ہیں ،اگر چہ ایک دو ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے میرے ساتھ سچ بولنے،سوال کرنے یا سوال اٹھانے پر ایک خاص، عجیب اور استادی کا متضاد رویہ اپنائے رکھا لیکن ان کا بھی میں بہت مشکور ہوں اور ان سے بھی میں نے بہت کچھ سیکھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے کبھی ان جیسا استاد نہیں بننا۔ دوسری طرف میرے دوست استاد جن کا فہرست بہت طویل ہے ، سے میں نے یہ سیکھا کہ مجھے استاد کیوں بننا ہے یا مجھے کیوں استاد بننا چاہیے۔ استادوں کا مقام بہت بلند و بالا ہے ، استاد کی عظمت کے بارے میں حضرت علی کا قول ہے کہ "جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، میں اس کا غلام ہوں". یا علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ "استاد درحقیقت قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ملک کی تقدیر بدلنا ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔"

استادوں کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔" امام غزالی احیاء العلوم کے جلد اول میں فرماتے ہیں کہ "استاد کا کام محض معلومات دینا نہیں بلکہ شاگردوں کے دل میں سیکھنے کی جستجو پیدا کرنا ہے۔" امام صاحب کا یہ قول آج کے استاد اور تعلیمی نظام کے لیے ایک مشعل راہ ہے ، جس میں سیکھنے والوں کے لیے محض رٹا لگانے کی بجائے تحقیق اور غور فکر کی ترغیب اور استاد کو دوست بننے کا درس دیتا ہے۔اور اگر ایسا ہو جائے کہ معاشرے کا ہر استاد دوست بن جائے تو یہ معاشرے کی ترقی میں میں کیٹلسٹ کا کام کرے گا ۔ مختصر یہ کہ جب استاد، دوست بن جائے تو تعلیم صرف ایک ذمہ داری نہیں رہتی بلکہ ایک دلچسپ اور بامعنی تجربہ بن جاتی ہے، جو نہ صرف شاگردوں کی علمی ترقی بلکہ ان کی شخصیت سازی میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

Comments

محمد کامران اتمان خیل

محمد کامران اتمان خیل شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ شاعری پشتو زبان میں کرتے ہیں۔ ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اردو میں پشتو افسانوں کے تراجم اور اردو سے پشتو میں منظوم تراجم کیے ہیں۔ اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب لاہور سے بی ایس اردو کیا ہے۔ ادب، زبان اور ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیت اور ترجمہ نگاری کے ذریعے ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

Click here to post a comment