ہوم << حقیقت پسندی: بین الاقو امی تعلقات میں کا اہم نظریہ- علیشبہ فاروق

حقیقت پسندی: بین الاقو امی تعلقات میں کا اہم نظریہ- علیشبہ فاروق

حقیقت پسندی بین الاقو امی تعلقات کا ایک اہم نظریہ ہے، اور یہ لبرلزم پر تنقید کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ۔جو ریاستوں کو خود غرض اور طاقت کے حصول کے لیے کوشاں تصور کرتا ہے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد اپنی بقا کو یقینی بنانا ہے، جیسا کہ بین الاقو امی نظام میں کوئی بھی مرکزی حکومت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر ریاست خود کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف کوششیں کرتی رہتی ہیں ۔ مختصراً یہ کہ ہر ریاست اپنے قومی مفاد کی حفاظت کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے۔

حقیقت پسندی کے کچھ بنیادی اصول:
حقیقت پسند ریاستوں کو بین الاقو امی تعلقات میں بنیادی ادا کار سمجھا جاتا ہے، نہ کہ افراد کو ،تنظیموں کو، یا غیر ریاستی عناصر کو۔ حقیقت پسند ریاستیں خود مختاری پر زور دیتی ہیں۔ کیونکہ عالمی نظام میں کوئی مرکزی اتھارٹی نہیں ہوتی اور ریاستوں کو ایک دوسرے پر بھرو سہ نہیں ہوتا ۔اس لیے ریاستیں اپنی طاقت کو ہمیشہ بڑھانے کوفروغ دیتی رہتی ہے، کہ ان کی طاقت دوسری ریاست سے ہمیشہ زیادہ ہو ۔ریاستیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرتی ہیں ،چاہے اس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کو بھاری نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
حقیقت پسندی میں ہم ایک ایسی مثال لیتے ہیں ،جو حقیقت پسندی کے عمل کو واضح کرتی ہے۔ جیسا کہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان طاقت کے توازن کو لے کر جنگ ہوئی۔ دونوں ریاستیں اپنی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ میں مصروف ہو گئیں ،تاکہ خود سے آگے کسی اور ریاست کو نہ بڑھنے دیں۔

حقیقت پسندی پر تنقیدیں :
حقیقت پسندی پر تنقیدیں بھی کی گئیں ہیں۔ جیسا کہ یہ نظریہ جنگ پر زور دیتا ہے ،اور ریاستوں میں تعاون کو کم اہمیت دیتا ہے۔ یہ سماجی عوامل کو نظر انداز کرتا ہے اور صرف فوجی طاقتوں پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ غیر ریاستی عناصر جیسے بین الاقو امی تنظیموں اور این جی اوز کے کردار کو نظر انداز کرتا ہے۔ بہرحال مختلف تنقیدوں کے باوجود حقیقت پسندی کا نظریہ آج بھی بین الاقو امی تعلقات میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔یہ ریاستوں کے رویے کو طاقت ،قومی مفاد اور بقا کی بنیاد پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ نظریہ عالمی سیاست کو سمجھنے کے لیے بھی ایک بنیادی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔