ہوم << کتاب یا موبائل اسکرین - عبیداللہ فاروق

کتاب یا موبائل اسکرین - عبیداللہ فاروق

ایک وقت تھا جب کتاب علم کی واحد دستاویز تھی۔ علم کے متلاشی طویل مسافتیں طے کرکے کتب خانوں تک پہنچتے، صفحات کو پلٹتے، علم کی روشنی سمیٹتے اور اپنے قلوب و اذہان کو فہم و حکمت سے مزین کرتے۔ مگر آج یہ صورتحال بدل چکی ہے۔ علم اب کاغذ کی جلدوں میں مقید نہیں، بلکہ موبائل اسکرین پر چند کلکس کے فاصلے پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علم کا مستقبل اب بھی کتاب کے ہاتھ میں ہے، یا یہ موبائل اسکرین کے رحم و کرم پر آ چکا ہے؟

کتاب – ماضی، حال اور مستقبل
کتاب انسانی تہذیب کی سب سے قدیم ساتھی ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ذریعہ رہی ہے بلکہ فکر، تدبر اور تحقیق کا ایک مضبوط وسیلہ بھی۔ کتاب پڑھنے سے انسان یکسوئی، گہرائی اور تسلسل کے ساتھ سوچتا ہے، الفاظ کو جذب کرتا ہے اور خیالات کی دنیا میں غوطہ زن ہوتا ہے۔ کتاب کا سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ یہ قاری کو مکمل توجہ کے ساتھ اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی نوٹیفکیشن، نہ کوئی خلل۔ صرف پڑھنے والا اور الفاظ کی دنیا! اس کے برعکس، موبائل اسکرین ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ایک لمحے میں معلومات تو آ جاتی ہیں، مگر اگلے ہی لمحے کوئی اور اطلاع ذہن کو بکھیر دیتی ہے۔

موبائل اسکرین – معلومات کی برق رفتاری
ڈیجیٹل دور میں موبائل اسکرین ایک ایسا چراغ بن چکی ہے جس کی روشنی دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ ہزاروں کتابیں، لاکھوں مضامین، ویڈیوز اور لیکچرز محض چند لمحوں میں ہماری دسترس میں آ سکتے ہیں۔ تحقیق کرنا، حوالہ تلاش کرنا، یا کسی بھی موضوع پر فوری مواد حاصل کرنا اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے۔ مگر اس برق رفتاری کا ایک نقصان بھی ہے۔ مطالعہ اب تسلسل اور گہرائی کے بجائے سرسری نظر ڈالنے کا نام بن چکا ہے۔ آن لائن مضامین، سوشل میڈیا پوسٹس اور مختصر ویڈیوز نے انسان کی توجہ کو محدود کر دیا ہے۔ ہم ایک تحریر مکمل کرنے سے پہلے دوسری کی طرف لپک جاتے ہیں، اور یوں سنجیدہ علمی غور و فکر کہیں کھو جاتا ہے۔

کون جیتے گا؟
یہ کہنا کہ کتاب کا دور ختم ہو چکا ہے، ایک جذباتی اور غیر حقیقی بات ہوگی۔ دنیا آج بھی بڑی بڑی تحقیقات کے لیے کتب پر انحصار کرتی ہے، اور سنجیدہ علمی مکالمے کے لیے اب بھی کتابوں کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موبائل اسکرین نے علم کی فراہمی کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کتاب بہتر ہے یا موبائل اسکرین، بلکہ یہ ہے کہ ہم ان دونوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں؟ اگر ہم موبائل کو صرف سرسری معلومات کے لیے استعمال کریں اور گہرے مطالعے کے لیے کتاب کو اپنائیں، تو یہ ایک متوازن حکمت عملی ہو سکتی ہے۔

کتاب ہو یا موبائل، علم کا حقیقی مقصد شعور اور بصیرت حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم اپنی توجہ بکھیرے بغیر، غور و فکر کے ساتھ علم حاصل کریں تو دونوں ذرائع ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر اگر ہم موبائل کی تیز رفتاری میں کھو کر صرف سرسری مطالعہ کریں، تو یہ علم کے بجائے الجھن اور کم فہمی پیدا کرے گا۔ لہٰذا، فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے – علم کے چراغ کو کتاب کی روشنی سے جلائیں یا موبائل اسکرین کے تیز جھماکے میں گم کر دیں!

Comments

عبیداللہ فاروق

عبیدالله فاروق جامعہ فاروقیہ کراچی فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ بیت السلام کراچی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ دینی و سماجی امور پر لکھتے ہیں

Click here to post a comment