گھر کی فضا میں سکون بکھرا ہوا تھا۔ سہ پہر کے سائے دھیرے دھیرے لمبے ہو رہے تھے۔ پرندے گھونسلوں کی طرف لوٹنے کی تیاری میں تھے، اور ہلکی ہلکی ہوا درختوں کے پتوں سے کھیل رہی تھی۔ علی کالج سے واپس آیا تو اس کے چہرے پر تھکن کے آثار واضح تھے، مگر ماں اور بہن کی محبت بھری باتوں نے اس کی تھکن کو ہلکا کر دیا۔
"بیٹا، ہم مارکیٹ جا رہے ہیں، کچھ ضروری سامان لینا ہے۔ تم گھر پر رہنا، بس تھوڑی دیر میں واپس آ جائیں گے۔" ماں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
علی نے اثبات میں سر ہلایا، پھر کمرے میں جا بیٹھا۔ اس نے کچھ دیر کتابیں دیکھنے کی کوشش کی، مگر آنکھیں بوجھل ہونے لگیں، اور وہ بستر پر لیٹ گیا۔
وقت یونہی گزرتا گیا۔ آہستہ آہستہ سورج مغرب کی گود میں جا چھپا، اور گلی میں روشنیوں کی جگہ دھندلکے نے لے لی۔ اچانک علی کے سینے میں ایک عجیب سی جلن محسوس ہونے لگی۔ پہلے تو اس نے اسے نظر انداز کیا، مگر درد بڑھتا گیا۔ سانس لینا دشوار ہونے لگا۔
اس نے گہری سانس لینے کی کوشش کی، مگر سینے میں ایک ناقابلِ برداشت بوجھ محسوس ہوا۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ اس کے ذہن میں ایک ہی خیال آیا— ماں اور بہن۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل اٹھایا اور ماں کو کال کی، مگر وہ جلدی میں تھیں، کال مسترد کر دی۔
"بس تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائیں گے، بعد میں بات کرتے ہیں۔" بہن نے سرسری انداز میں کہا۔
مگر علی کو وقت درکار تھا۔ بس کچھ لمحے… کچھ سانسیں… درد تیز ہوتا جا رہا تھا، جیسے سینے کو مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔ اس نے دوبارہ کال کی، پھر ایک اور… مگر ہر بار خاموشی اس کے حصے میں آئی۔
وہ کراہتے ہوئے دیوار کے سہارے بیٹھ گیا۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی چھانے لگی۔ آخری امید کے طور پر اس نے ایک وائس میسج چھوڑا، آواز کمزور تھی، مگر اس میں بے بسی کی شدت نمایاں تھی:
"امی، سینے میں بہت درد ہو رہا ہے، جلدی واپس آؤ… مجھے اسپتال لے چلو… پلیز…"
وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔
درد کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا، سانسیں اکھڑنے لگیں۔ وہ بستر سے لڑکھڑا کر نیچے گر گیا۔ دروازے کی طرف نظر اٹھائی، مگر قدموں میں جان نہ تھی۔ آواز نکالنے کی کوشش کی، مگر حلق خشک ہو چکا تھا۔
باہر گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ گیند کھڑکی سے ٹکرا کر اندر گری تو ایک بچہ دروازے کے پاس آیا اور درز سے اندر جھانکا۔ علی کو زمین پر تڑپتا دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
"امی! ابو! دیکھو، علی بھائی کو کیا ہوا؟" بچے کے شور مچانے پر پڑوسی دوڑ کر آئے۔ دروازہ زور سے دھکیلا تو وہ ہلکا سا کھل گیا۔ اندر کا منظر دیکھ کر سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ گئیں۔
"جلدی ایمبولینس بلاؤ!" کسی نے چیختے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں ایمبولینس کی سائرن گلی میں گونجنے لگی۔ پڑوسیوں نے علی کو اٹھانے کی کوشش کی، مگر اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ کسی نے اس کی نبض چیک کی، کسی نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، مگر سب بے سود تھا۔
ماں اور بہن جب واپس آئیں، تو گلی میں ہجوم دیکھ کر دل بے چین ہو گیا۔
"کیا ہوا؟ سب یہاں کیوں جمع ہیں؟" ماں نے گھبرا کر پوچھا۔
تبھی ایمبولینس کے دروازے کھلے، اور اندر علی کا بے جان وجود نظر آیا، سفید کفن میں لپٹا ہوا۔
ماں کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ہاتھ سے شاپنگ کے تھیلے گر گئے۔ وہ لڑکھڑا کر گرنے لگیں، مگر کسی نے انہیں سنبھال لیا۔ بہن کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی، اور آنسو تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔
وقت جیسے رک گیا تھا۔
کچھ دن بعد، ماں نے علی کا موبائل اٹھایا۔ اسکرین پر ایک آخری وائس میسج چمک رہا تھا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے میسج چلایا، اور علی کی نحیف، بے بس آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی:
"امی، سینے میں بہت درد ہو رہا ہے، جلدی واپس آؤ… مجھے اسپتال لے چلو… پلیز…"
ماں کی چیخیں پورے گھر میں گونج اٹھیں۔ بہن بے بسی سے آنسو بہاتی رہی۔
مگر اب کچھ باقی نہ رہا تھا، سوائے ایک پچھتاوے کے، جو زندگی بھر ان کے دل میں سسکتا رہے گا۔
ماں کے ہاتھوں سے موبائل گر گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ سانس رکنے لگی، جیسے دنیا کی ہر چیز بے معنی ہو چکی ہو۔ وہ کانپتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا، جیسے علی کے درد کو اپنے اندر محسوس کر رہی ہو۔
بہن نے موبائل اٹھایا، کانپتے ہاتھوں سے اسکرین کو چھوا، اور دوبارہ میسج چلایا۔ علی کی وہی کمزور، ٹوٹی ہوئی آواز کمرے میں گونجی:
"امی، سینے میں بہت درد ہو رہا ہے، جلدی واپس آؤ…"
آنسو خاموشی سے بہتے رہے، مگر ان کا شور دلوں میں طوفان برپا کر رہا تھا۔
علی کے کمرے میں ہر چیز ویسے کی ویسے رکھی تھی، جیسے وہ ابھی آ کر کہے گا: "امی، میرے کپڑے کہاں ہیں؟ بہن، میرا موبائل دو!" لیکن وہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی۔
الماری کے ایک کونے میں علی کی کتابیں رکھی تھیں۔ ماں نے بے خیالی میں ایک کتاب اٹھائی۔ اندر ایک ورق پر علی کی تحریر درج تھی:
"زندگی مختصر ہے، ہم نہیں جانتے کہ کون سا لمحہ آخری ہوگا۔ بس یہی دعا ہے کہ جب بھی مروں، میرے اپنوں کے ہاتھوں میں جان نکلے، میں بے بس نہ رہوں…"
یہ پڑھتے ہی ماں کی چیخ نکل گئی۔ "یا اللہ! میرے بچے کو معاف کر دے… میں نے اسے سنا کیوں نہیں؟"
بہن نے خود کو کوسا، "میں نے کہا تھا نا، بعد میں بات کریں گے… کاش میں نے ایک لمحے کے لیے رک کر علی کی بات سن لی ہوتی!"
گھر کا ہر کونہ علی کی یادوں سے بھرا تھا، لیکن اب یہ یادیں خوشی کے بجائے پچھتاوے کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔
"کاش ہم وقت پر سن لیتے… کاش!"
وقت کی بے رحمی یہ تھی کہ اب کوئی صدا، کوئی چیخ، کوئی آنسو علی کو واپس نہیں لا سکتا تھا۔ کچھ آوازیں ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتی ہیں، اور پیچھے صرف سناٹا رہ جاتا ہے— اور ایک نامکمل صدا، جو کبھی پوری نہیں ہوتی۔
تبصرہ لکھیے