ایکسپو سینٹر لاہور کے بک فئیر کی داستان تو چند روز قبل سنا چکا ہوں۔ اب کچھ ایسے احباب کی محبتوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے اپنے خلوص کو لذتِ کام و دہن کے ساتھ ضرب دے کر کئی گنا بڑھا دیا۔ اس تفصیل سے قبل یہ عرض کر دوں کہ ہر چند خلوص ناپنے کا یہ واحد پیمانہ نہیں لیکن محبت اور خلوص کے اظہار کا ایک ذریعہ ضرور ہے۔ الحمدللہ میں اپنے احباب سے ملنے والی محبت کے معاملے میں بہت خوش نصیب ہوں۔ بک فئیر کے دوران لاہور میں میرے قیام کے دنوں میں مجھے ملنےکے لیے آنے والے لاتعداد احباب نے مختلف انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مجھے کھانا کھلانے پر مصر احباب کی فہرست طویل تھی اور میرے پاس وقت کم تھا۔ میری روٹین میں لنچ شامل نہیں ہوتا۔ گھر پہ ہوں تو عموما” میں ناشتہ کرتا ہوں اور پھر رات کو ذرا جلدی کھانا کھا لیتا ہوں لیکن کچھ محبتی لوگ ایسے تھے جنہوں نے میرے لاہور پہنچنے سے پہلے ہی مجھے کھانا کھلانے کے احکامات جاری کر رکھے تھے۔ چنانچہ کم وقت میں ہی سخت مقابلے کی کامیابی کے لیے مجھے دو بار لنچ بھی کرنا پڑا۔
معروف افسانہ نگار اور “فریم سے باہر” جیسے افسانوی مجموعے کی خالق محترمہ دعا عظیمی اور یاسر پبلشرز کی روحِ رواں محترمہ فاطمہ شیروانی نے مجھے ایک خوب صورت ریستوران میں پرتکلف لنچ کروایا۔ شاید انہیں مجھ سے زیادہ عمدہ کارکردگی کی توقع تھی چنانچہ انہوں نے تین لوگوں کے لیے اتنا کھانا آرڈر کر دیا جو اصل میں چھ لوگوں کے لیے کافی تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا اور کم از کم آدھا کھانا بچ گیا۔ کھانے کے دوران مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ دعا عظیمی سے اپنے پچھلے دورۂ لاہور کے دوران مل چکا تھا اور ان کے خلوص، سِحر انگیز تحریروں اور بے ساختہ پن سے متآثر تھا لیکن فاطمہ شیروانی صاحبہ سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کے مکمل تعارف کے بعد مجھے یوں لگا میں فقط ایک خاتون سے نہیں، کئی رکنی وفد سے ملاقات کر رہا ہوں۔ وہ ایسی پبلشر ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو منوا لیا ہے۔ اب تک نہ صرف بہت سی خوب صورت کتابیں شائع کر چکی ہیں بلکہ شارجہ میں ہونے والی پبلشرز کانفرنس میں بھی شرکت کر چکی ہیں۔ ان کے معاہدے مختلف ممالک کے اشاعتی اداروں کے ساتھ ہو چکے ہیں۔ افسانہ نگار ہیں۔ سفرنامہ نگار ہیں۔ چار پانچ کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ نہ صرف خود سفر کرتی ہیں بلکہ ٹور آپریٹر بھی ہیں۔ ایک کالج میں پڑھاتی بھی ہیں۔ باوقار اور متین فاطمہ شیروانی سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ دعا عظیمی کا شکریہ کہ انہوں نے ایسی اچھی شخصیت سے متعارف کروایا۔
تقریبا” چار دہائیں قبل جب میں نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا تھا تو ایک سال کے لیے فیڈرل گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کینٹ میں بھی پڑھایا تھا۔ اس دور کے میرے ایک شاگرد محمد اعظم ایاز کو کہیں سے میری لاہور آمد کی بھنک پڑی۔ الحمدللہ مجھے اپنے شاگردوں سے ساری زندگی محبت اور عزت ملتی رہی لیکن اعظم ایاز کی محبت نویکلی تھی۔ وہ کافی عرصے سے مجھے تلاش کر رہے تھے لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اس بار انہوں نے آرٹیفشل انٹیلی جینس سے مدد لی جس نے انہیں بتایا کہ میں فلاں فلاں تاریخ کو ایکسپو سینٹر کے بک فئیر کے موقع پر صریر پبلی کیشنز کے سٹال پر موجود ہوں گا۔ انہوں میرا نمبر حاصل کیا، مجھ سے بات کی اور سٹال پر مجھے ملنے آ پہنچے۔ گرم جوش محبت کی ساری کہانی ان کی آنکھیں سنا رہی تھیں۔ ہم نے کافی وقت ساتھ گزارا لیکن وہ مصر تھے کہ میں ان کے گھر آ کر ان کی فیملی سے ملوں اور ان کے ساتھ ڈنر کروں۔ محبت کے آگے بند باندھا بھی نہیں جا سکتا۔ وہ شام کو آ کر مجھے سٹال سے ہی ساتھ لے گئے۔ ان کی فیملی کے سب افراد گیٹ کے اندر ڈرائیو وے میں ہاتھوں میں پھول لیے میرے استقبال کو موجود تھے۔ میں نے اچھا خاصا وقت ان کی فیملی کے ساتھ گزارا۔ پرتکلف کھانا کھایا۔ ان کی اہلیہ اور بچوں کے اعظم صاحب کے بارے میں پوچھے گئے دلچسپ سوالوں کے جواب دیے۔ اس سارے عمل اور یادگاری تصاویر کے بعد میں نے رخصت چاہی تو اعظم ایاز مجھے میرے ہوٹل چھوڑ آئے۔ میں رات کو سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو ایک بار پھر اپنے اس فیصلے پر فخر اور اطمینان ہوا جب کئی برس پہلے میں نے تدریس کے شعبے کو اپنے مستقبل کے لیے چنا تھا۔
عامر شہزاد ایک بہت ہی انوکھا نوجوان ہے۔ کچی عمر میں اس کے ذہن کی شاخوں پر کھلی تخیل اور تحریر کی پکی کلیاں مہکار دے رہی ہیں۔ غیر روایتی نثر لکھنے والا یہ نوجوان ملنے سے پہلے ہی اپنی نثری جمالیات کے طفیل میرے دل میں آ بسا تھا۔ ایک دن وہ میرے سینے سے آ لگا۔ دھیمے لہجے اور حیران آنکھوں کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ نمی نمی مسکان کے ساتھ اس کی شخصیت اس کی صرف ایک پہچان بتا رہی تھی کہ اس کی مٹی میں محبت، خلوص اور انفرادیت ہے لیکن وہ گفتگو میں کم اور تحریر میں زیادہ کھلتا ہے۔ عامر بھی مجھے اپنے ساتھ لنچ کروانے لے گیا۔ ایک بہت عمدہ ریستوران میں بہت لذیذ کھانا کھلایا۔ اس لنچ کا اضافی لطف یہ تھا کہ ہمارے ساتھ جادوئی نثر لکھنے والے مسلم انصاری بھی موجود تھے۔
معروف مزاح نگار۔ استاد، خاکہ نگار، شاعر، محقق اور جانے کیا کیا ڈاکٹر اشفاق ورک پرانے دوست ہیں۔ ورک صاحب لاتعداد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد ہمیشہ طمانیت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ اپنی فرنچ کٹ داڑھی کے ساتھ وہ اور بھی قیامت دِکھتے ہیں۔ وہ سٹال پر بھی ملنے آئے اور اسی رات پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں ڈنر پر بھی مدعو کیا۔ فاطمہ شیروانی اور دعا عظیمی سے بھی اس ڈنر پہ دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ورک صاحب کی طرف سے دیا گیا کھانا پرتکلف تھا لیکن گفتگو بے تکلف۔ یہ ممکن نہیں کہ اشفاق ورک جیسا زندہ دل شخص محفل میں موجود ہو اور مسلسل قہقہے نہ لگتے رہیں۔ کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے میرے ہوٹل ڈراپ کیا اور محبت بھری جپھی لگا کر رخصت ہو گئے۔
اتوار کی صبح میں جلد واپس اسلام آباد کے لیے نکلنا چاہتا تھا لیکن خوب صورت اور خوش گفتار نظمیں کہنے والی محترمہ قرآۃ العین شعیب مجھے لاہور کا روایتی ناشتہ کروائے بغیر لاہور سے رخصتی کی اجازت دینے پہ آمادہ نہیں تھیں۔ عینی اور ان کے شوہر شعیب صاحب محبت میں گندھا ہوا ایسا جوڑا ہے کہ میں جب بھی لاہور جاؤں ان کی محبت اور میزبانی دونوں سے گھائل ہوتا ہوں۔ ابھی پچھلے سال اگست میں بھی ان محبتی لوگوں نے میرے اعزاز میں ایک شان دار ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں کچھ اور محترم لکھاری خواتین بھی شریک ہوئی تھیں۔ اس بار بھی وہ اپنی دو بہت پیاری بچیوں کے ساتھ میرے ہوٹل پہنچے۔ مجھے ہمراہ لیا اور ناشتے کے لیے لبرٹی کے ایک مشہور ریستوران میں لے گئے۔ انہوں نے وہ سب کچھ منگوا لیا جو جو ناشتے کے مینیو میں موجود تھا۔ لاہور کا روایتی ناشتہ ہو تو کوئی بدذوق ہی ہاتھ روک سکتا ہے۔ ناشتہ ختم ہوا تو وہ لوگ مجھے اسلام آباد جانے والی بس میں بٹھا کر ہی لوٹے۔ بس چلی تو پچھلے چار دنوں کی فلم میرے ذہن میں چلنے لگی۔ مجھے اپنی خوش بختی پر فخر بھی ہوا اور خوشی بھی کہ اللہ نے مجھے کس قدر نواز رکھا ہے۔ چار دن کے دوران میں نے لاہور سے جتنی محبت سمیٹی اس کے لیے مجھے اپنا دامن کم پڑتا محسوس ہوا۔ شہرِ وفا لاہور کے باسیو! اطلاع ہو کہ تمہاری محبت میرے دل کی تختی پر منقش حروف سے لکھی جا چکی ہے، کبھی نہ مٹنے کے لیے۔
تبصرہ لکھیے